ٹاک شوز کے ڈرامے
دلکش دوپہروں پُرراز سہ پہروں اور دیواروں سے اترتی ہوئی دھوپ تخلیق کے لیے اکساتی ہے شام کے اترتے سرمئی سائے جمپٹی اجالوں کو آغوش میں لینے لگتے ہیں دل شاعری، رمز، کنایہ اور آشنا یادوں میں بھٹکنے لگتا ہے مگر خیال و ذہن پر ہتھوڑے برساتے دس پندرہ چینل چیں چےں چاچا کا شوربلانیٹڈ لڑائیاں اور اخلاق کی دھجیاں اُڑاتے ٹاک شوز لے کر حاضر ہوجاتے ہیں ....کبھی ٹی وی فردوس گوش اور جنت نگاہ ہواکرتا تھا ایک سے ایک نابغہ "روزگار فنکار خوش گلو خوش شکل گلوکارائیں دھیمی دھیمی خبریں جن میں نہ چیخ وپکار ہوتی نہ نیوز ریڈر کے ذاتی احساسات میں خود اس نیوز ریڈنگ سسٹم کا حصہ رہی تب ایک زیرزبر کا فرق بھی برخاست کروادیتا تھا نوبرس اناؤنسمنٹ ونیوز کیے زبان کی درستی لہجے کا شائستہ اظہار اور سیاسی وابستگی کا اظہار نہ کرتاہواانداز ہی ضرورت تھا....
اب جو آٹھ بجے کے بعد "چےخ چےاڑا" پڑتا ہے تو الاماں الحفیظ.... پروگرام رنگ وپیراہن کی وجہ سے دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں سرمہ وغازہ وطرح دارزلفوں کو شاعروں نے تصویر ضرور کیا ہے مگر اُن سے ایسی گہری سیاسی بصیرت کی توقع ہرگز نہیں کی گئی ایسا لگتا ہے پورے ملک کا درد انہی پانچ سات غمزہ و حشوہ وادا خواتین کے جگر میں ہے جگر میں اگر اتنا درد ہوتو زلفیں ہزار بل کھانے کے قابل نہیں رہتیں "کاشی" (ہیرذیزائنر) کی وگیں بڑے پارلرز کے میک اپ برانڈڈ کپڑے اور دل زرداری شہباز نواز اور خان کی کرتوتوں میں الجھا ہوا فارمیٹ کچھ یہ ہوتا ہے کہ ایک عدد نوجوان لڑکی کے سامنے سینئر بزرگ صحافی بیٹھ جاتے ہیں لڑکی کے سوالوں کے جواب میں طنزیہ مسکراتے اور طے شدہ سوال جواب کی بیٹھک لگاتے ہیں حیرت ہے کہ یہ سب اپنے سے ذرا چھوٹے تجربہ کار مرد صحافی کیوں نہیں بٹھاتے لڑکیاں بلینک فیس Blank Faceاور "چٹی" آنکھوں سے رٹے رٹائے سوالات کرکے جوابات سے لاتعلق دکھائی دیتی ہیں مگر ٹھرکی ہونا سداسے بابا لوگوں سے منسوب ہے بے چارے اپنی بصیرت اس چشمہ بے آب پر صرف کرتے ہیں جہاں پر سراب بھی ممکن نہیں ان کی نسبت کم عمرکے صحافی زیادہ بہتر تجزیے کررہے ہوتے ہیں کیوں کہ وہ چل پھر زیادہ سکتے ہیں نوجوان تھانیداروں سے اُن کا تعلق زیادہ ہوتا ہے جبکہ بابے پولیس سے بھی الجھتے ہیں شام کو شوگر بلڈپریشر ودیگر عوارض پر قابوپاکر شام کی شام تیار بیٹھ کرسیاسی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں میں جب سے سن رہی ہوں ان کی ایک بھی پیش گوئی صحیح ثابت نہیں ہوتی شیخ رشید کی طرح ہوا میں تلواریں چلاتے ہیں عارف نظامی صاحب کی خاں صاحب کی ذاتی زندگی کے بارے میں اطلاعات ٹھیک ہوتی ہیں، دوسرے وہ سینئر مرد صحافیوں سے مکالمہ کرتے ہیں ....لڑکیوں کی پریشانی کا یہ عالم ہے کہ کوئی انڈیا کو للکاررہی ہوتی ہے "میں آگئی ہوں .... حالانکہ برصغیر میں خواتین واقعتاً بہت بااثر سیاسی رسوخ رکھتی رہی ہیں ....
مگر ان کی آمد بادصبا کی آمد ہی رہی اکھاڑے میں للکارنے والی نہیں اثرانداز ہونے کے لیے دھیمازہر زیادہ کام آتا ہے کبھی کوئی محترمہ آٹھ، بیس باریش علماءکونکاح، متہ کے معاملات میں بول بول کر آسمان سرپر اٹھالیتی ہے پھرعلماءخود ہی عقل کرکے اس "باندرکلے"سے نکل جاتے ہیں۔
کل ملا کر جو ٹاک شوز کا پھپھے کٹنی پیڑن بنتا ہے وہ ایک باباجی ایک نوجوان سیاسی حالات سے پریشان لڑکی اور سیاسی ومذہبی مسالک کے مخالف رہنما وعلماءاکٹھا کرکے "گوٹ"پھینک دی جاتی ہے۔
بریک میں اشتہار چلتے ہیں شرکاءبے چارے اپنےلیڈرکی نظر میں آنے کے لیے" کھپ" جاتے ہیں جب ایک خوشامدی چیخچلا کر وزیراعظم کا چہیتا بنتا ہے تو دوسرا اخلاق باختہ گفتگو کرکے ایوان اقتدار میں زقند لگانے کی تدبیر کرتاہے اخلاق باختہ سے فیصل واوڈا اور ڈاکٹر شہباز یاد آگئے جو خان صاحب کی شادیوں پر بات کرنے سے کپڑے اتارنے کی دھمکی دینے لگتے کہ ایسے غصہ کے مظاہرے تو خان کی نظر سے اوجھل نہیں ہوسکتے غرض جو جتنی بدتمیزی کرتا ہمارے تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہ اسے دل سے پسند کرتے ہیں۔
معاشرے میں سچ بولنے کی سکت ہے نہ سننے کی، کھوکھلے نعرے مقروض ریاست الزام تراشی وراثت میں ملے مسائل پچھلوں پر ملبہ ڈالنے کی روایت یہی حکومتی پیکج ہے ہماری صبحیں مہنگائی سے برباد کرنے والے شامیں ککڑوں کی لڑائی سے برباد کررہے ہیں نہ فیض کی نظمیں نہ نورجہاں کے گیت نہ فوک میوزک نہ مشاعرے نہ ادبی رسائل پر مبنی پروگرام نہ کتابوں پر تبصرہ ہماری زندگی کا مقصد کل تین چار ناکام سیاست دان جو زیادہ سے زیادہ بی اے ہوں گے اور فضول ہوا میں چھوڑنے والے سیاسی نجومی ہیں۔ خواتین بھی فردوس صاحبہ کو دیکھ رہی ہیں نسوانیت کا قتل اب کوئی معنی نہیں رکھتا اب عورتیں بھی مردانہ وار میدان میں ہیں۔
ہم نے تو اپنی شاعری میں محبوبیت سے نکلنے کی بات کی اور گرلز کالج میں اپنے شعر پڑے تو لڑکیاں دادوتحسین میں الٹ پڑیں ایک شعر یاد ہے
قید یہ دل کو کسی طوربھی مرغوب نہیں
میں تری دوست توہوسکتی ہومحبوب نہیں
زمانے کی کروٹ کو قرینے سے بیان کیا گیا تھا یہ کہیں مطلوب نہ تھا کہ خواتین بغیر مطالعہ محض سیاسی شو میں شو پیس بنیں بلکہ میں خواتین کی ترقی اس دن سمجھوں گی جب ایک سینئر خاتون صحافی بیٹھی اپنے تجزیے بیان کررہی ہوگی اور سامنے سوال پوچھنے والا سینئر مرد صحافی ہوگا ....