اوراب لانگ مارچ کا وقت ہوا چاہتا ہے
حقیقت تو یہ ہے کہ جلسے بڑے ہوں یا چھوٹے، ان جلسوں سے حکومتیں نہ گھر جایا کرتی ہیں، نہ استعفے دیا کرتی ہیں۔ اور یہ تو ماننا پڑے گا کہ بڑے جلسے کرنے میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں۔ تحریک انصاف، مینار پاکستان کی اسی جگہ پر چار جلسے کر چکی اور وہ چاروں بڑے جلسے تھے۔ اس لیے جلسوں کے کھیل میں گیارہ جماعتیں، عمران خان سے ہار چکی ہیں۔
اب ذرا غور کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان سمیت گیارہ جماعتوں کے اس مطالبے کا کہ حکومت 31 جنوری تک مستعفی ہو جائے، ورنہ یکم فروری کو اجلاس میں لانگ مارچ کا اعلان ہو گا۔ آئیے اب لانگ مارچ کے کھیل کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں کہ کیا گیارہ جماعتوں کا لانگ مارچ، عمران خان کی حکومت کو گھر بھیج دے گا؟ پاکستان میں لانگ مارچ اور دھرنوں کی سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ لانگ مارچ کامیاب ہو پائے گا؟ تو ہماری سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مختلف حکومتوں کے خلاف احتجاجی لانگ مارچ کو اپوزیشن جماعتوں نے دھمکی کے طور پر ہی استعمال کیا ہے، لیکن پاکستان کی تاریخ میں دو لانگ مارچ ایسے بھی ہوئے ہیں، جو کسی حد تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ نوے کی دہائی میں بی بی شہید نے لانگ مارچ کا اعلان کیا، تو اس لانگ مارچ سے ایک دن پہلے تیسرے فریق کی مداخلت ہوئی اور اس کے بعد نواز شریف کی حکومت گھر بھیج دی گئی، اسی طرح 2007 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں عدلیہ بحالی کی تحریک کا لانگ مارچ ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ پھر تیسرے فریق کی مداخلت پر عدلیہ بحالی کا وعدہ پورا ہو گیا، لیکن 126 دن کا دھرنا بھی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے، لیکن یہ 126 دن نواز شریف کو ہلا نہیں سکے، تو میری اپوزیشن سے درخواست ہے کہ چیلنج بڑا ہے، سوچ سمجھ کر لانگ مارچ شروع کریں۔ بار بار شرمندگی اٹھانا بھی زیب نہیں دیتا۔
تو اب جائزہ لیتے ہیں کہ استعفوں کی دھمکیاں، حکومت کے لیے کتنا دبائو کا باعث بن سکتی ہیں؟ اگر ماضی میں نظر دوڑائیں تو سیاسی جماعتیں اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکیاں دیتی تو رہی ہیں، مگر اس پر عملدآمد نہیں ہوتا رہا۔ اب 2007 کو ہی دیکھ لیجیے جب اس وقت کے آمر فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے صدر بننے کے لیے دوبارہ الیکشن کروائے، تو اس موقع پر سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے تحت اکھٹے ہو کر استعفے دینے کا اعلان کیا، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اس سے پیچھے ہٹ گئی تھی اور وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کی جنرل پرویز مشرف سے ڈیل ہو گئی تھی اور اس وقت جمعیت علما اسلام کی خیبر پختونخوا میں حکومت تھی اور انھوں نے استعفے دینے سے انکار کر دیا تھا کہ ان کی حکومت قائم رہے اور لگ بھگ یہی تشویش اب کی بار پھر پیپلز پارٹی کے بارے میں ہے کہ کیا وہ سندھ حکومت چھوڑنے کو تیار ہے؟ یا ماضی کی طرح ایک بار پھر سے پیپلز پارٹی پیچھے ہٹنے والی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شاید پیپلز پارٹی استعفے نہیں دے گی۔
پھر 2014 کو دیکھ لیجیے، جب پاکستان تحریک انصاف نے اسمبلی سے استعفے دئیے، لیکن وہ منظور نہ ہوئے۔ بعد میں انھوں نے اپنے استعفے واپس لے لیے، لیکن اب کی بار صورت حال اس لیے مختلف ہے کہ حکومتی وزرا اور خودوزیر اعظم عمران خان یہ بات کر چکے ہیں کہ اپوزیشن نے استعفے دئیے، تو ہم خالی نشستوں پر الیکشن کروا دیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ضمنی انتخابات اس کا حل ہیں؟ اور کیا اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات ہو سکتے ہیں؟ تو میرا خیال ہے کہ نہیں۔ حکومت کو عام انتخابات کی طرف ہی جانا پڑے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ لانگ مارچ سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت ہوتی ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کو ڈائیلاگ کرنے کا پیغام جا چکا ہے، لیکن اس شرط پر کہ کوئی این آر او نہیں ملے گا۔ اب وہ اپوزیشن ہی کیا؟ جو وزیر اعظم کی اس بات پربھڑکے ناں۔ الٹااپوزیشن نے حکومت کو کہہ دیاہے کہ ہم آپ کو این آر او نہیں دیں گے۔ اور نہ ہی آپ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اپوزیشن مذاکرات کی طرف کیوں نہیں جانا چاہتی؟ حالانکہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف خود نیشنل ڈائیلاگ کی بات کر چکے ہیں۔ تو کیا اپوزیشن تیسرے فریق اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے مذاکرات میں بیٹھنا چاہتی ہے؟ یا اسٹیبلشمنٹ کو مذاکرات کاحصہ بنانا چاہتی ہے؟ تو اس کا جواب ہے ؛ ہاں بالکل!کیونکہ دو دن قبل 92 نیوز کے پروگرام " نائٹ ایڈیشن" میں، میں نے ن لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ سے جب سوال کیا کہ آپ لوگوں کو کس سے مذاکرات کرنے چاہتے ہیں؟ تو رانا ثنا اللہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ وزیر اعظم سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، کیونکہ وزیر اعظم کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے۔ پی ڈی ایم کا جھگڑا ہی یہ ہے کہ وزیر اعظم کو بااختیار بنایا جائے، وزیر اعظم کو عوامی مینڈیٹ کا حامل بنایا جائے، جسے لوگ ووٹ دیں اور منتخب کریں، اسے وزیر اعظم بنایا جائے، کیونکہ بقول اپوزیشن کے انہیں وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد نہیں ہے۔
میرے خیال میں اب اگر ایسا ہوتا ہے، یعنی تیسرے فریق اسٹیبلشمنٹ کو مذاکرات کاحصہ بننا پڑتا ہے، تو یہ اپوزیشن کے اس بیانیے کی بہت بڑی نفی ہو گی کہ جس کے تحت اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہیے اور عمران خان کو یو ٹرن ماسٹر کہنے والے خود سب سے بڑے یو ٹرن کنگ بن جائیں گے۔ تو بات یہ ہے کہ اگر لانگ مارچ بھی ناکام ہو گیا، تو اس ناکامی کے بعد اپوزیشن کے پاس استعفے بالکل آخری ہتھیار ہوں گے۔ اب وہ بھی پیپلز پارٹی کی مرضی ہے کہ وہ اس ہتھیار کو استعمال کرے یا نہ کرے، لیکن جناب! فی الحال تو ابھی لانگ مارچ کا وقت ہوا چاہتا ہے!