وزیر اعظم عمران خان کی امریکا یاترا
وزیر اعظم عمران خان سہ روزہ امریکا یاترا کے بعد کمرشل پرواز کے ذریعے وطن واپس پہنچے تو اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر موجود پاکستان تحریک انصاف کے سینئر قائدین اور کارکنان نے ان کا انتہائی پرجوش استقبال کیا۔ جواباً خان صاحب نے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ایسا محسوس ہو رہا ہے گویا وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے واشنگٹن ڈی سی میں قدم رنجہ فرمانے سے چند روز قبل امریکی نیوز نیٹ ورک میں چار امریکی خواتین شہریوں پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیض و غضب کا بڑا چرچا تھا۔
ٹرمپ نے امریکی کانگریس کی ان چار خواتین بشمول ایانا پریسلے، راشدہ طالب، ایلگزینڈرا اوکاسیو کورئز اور الہان عمر کو ایک ٹوئیٹ کے ذریعے ان ممالک کو واپس چلے جانے کی دھمکی دی تھی، جہاں سے وہ آئی تھیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان امریکا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے تھے تو اس وقت بھی صدر ٹرمپ ٹوئیٹ پیغامات کے ذریعے اسلامو فوبیا کا چرچا کرنے میں مصروف تھے۔ سوال یہ تھا کہ کیا وزیر اعظم عمران خان ایک مسلم وزیر اعظم کے طور پر پیش ہوں گے یا پاکستانی وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے ملک کی نمایندگی کریں گے؟
خان صاحب نے کسی تنازع میں ملوث ہونے سے گریزکرتے ہوئے انتہائی احتیاط اور دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے واشنگٹن ڈی سی کے کیپٹل ون ایریا میں پاکستانی نژاد امریکیوں کے ایک زبردست ہجوم سے خطاب کرکے صدر ٹرمپ سے ملاقات سے قبل اپنی قوت کا زبردست مظاہرہ کیا۔ سچ پوچھیے تو یہ ہجوم اسی مقام پر صدر ٹرمپ کے خطاب کے موقع پر جمع ہونے والے ہجوم سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔ خان صاحب کی اس حکمت عملی کا نتیجہ بھی خاطر خواہ نکلا۔ امریکی ایوان صدر میں ان کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ بقول شاعر:
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ صدر بش نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کردی، جس نے بھارتی قیادت کو چراغ پا کردیا۔ بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کی یہ سب سے بڑی کامیابی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکا کی یاد بھی تازہ کردی۔ انھوں نے اپنے ملک کی عزت نفس کا تحفظ کرتے ہوئے امریکی صدرکے ساتھ گفتگو میں ایڈ کے بجائے ٹریڈ پر زور دیا۔ انھوں نے اپنے پیش رو کی طرح فدویانہ اور معذرت خواہانہ انداز اختیارکرنے سے گریز کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جس سے ان کے ذاتی اور قومی وقار میں اضافہ ہوا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں کافی عرصے سے جمی ہوئی برف پگھلتی ہوئی دکھائی دی ہے۔ اس حوالے سے افغانستان کا مسئلہ پاکستان کے لیے خیر مستور ثابت ہوا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا کی طرف سے "ڈو مور" کا مطالبہ نہیں دہرایا گیا جوکہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ یہ بھی نوٹ کرنے والی بات ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو افغانستان کے مسئلے کے حل کا ایک اہم جزو تسلیم کیا ہے جب کہ ماضی میں اسے مسئلے کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ صدر ٹرمپ نے بذات خود اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات اب پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔
ٹرمپ کا ماننا ہے کہ پاکستان افغانستان کے لاکھوں افراد کی زندگیوں کا محافظ ہے کیونکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے پاس وہ قوت موجود ہے جو کسی اور ملک کو حاصل نہیں۔ بہ الفاظ دیگر ٹرمپ انتظامیہ کو افغان جنگ کی دلدل سے نکلنے کے لیے پاکستان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ یہ حقیقت اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان پرامن مذاکرات کے حوالے سے سہولت کار کے طور پر کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کرنا پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ "چوٹ اس وقت لگائی جائے جب لوہا گرم ہو" والی کہاوت کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو برموقع اور برمحل امریکی صدر کے سامنے اٹھایا ہے۔ پاکستان کی طرف سے امریکا کو بہ خوبی باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ میں کمی کا افغان امن سے بالواسطہ گہرا تعلق ہے۔
تجارتی اور معاشی تعلقات میں بہتری اور فروغ دوسرا اہم موضوع تھا جس کی جانب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ مبذول کرائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے لیے پاکستانی برآمدات میں اضافے کے وسیع امکانات اور بے شمار مواقع موجود ہیں جس کے لیے دونوں ممالک کے درمیان سازگار تعلقات انتہائی ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ FATF کی جانب سے پاکستان کے سر پر اقتصادی پابندی عائد کرنے کا جو خطرہ منڈلا دیا ہے اسے ٹالنے کے لیے بھی پاکستان کو امریکا کی حمایت درکار ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ کہیں FATF پاکستان کو بلیک لسٹ نہ کردے۔ یاد رہے کہ جون 2018 میں پاکستان کو امریکا کی جانب سے اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاشی معاونت کے الزام میں گرے لسٹ (Grey List) میں ڈال دیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات کی خاص بات یہ بھی تھی کہ وزیر اعظم پاکستان امریکی صدر کے سامنے پورے قد کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کی باڈی لینگویج بھی قابل دید تھی۔ ماضی کے وزیر اعظم کی طرح وہ امریکی صدر کے سامنے بھیگی بلی نہیں بنے ہوئے تھے۔ عمران خان نے اپنے آپ کو انتہائی پروقار انداز میں پیش کیا اور وہ پوری طرح پرسکون اور پروقار نظر آئے۔ امریکی صدر کے ساتھ ون آن ون گفتگو کے دوران بعض مشکل مراحل بھی پیش آئے مگر عمران خان ثابت قدم رہے۔
خان صاحب نے اپنے اوپر قابو قائم رکھا اور ضبط و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ امریکی صدر اور وزیر اعظم پاکستان کی پریس کانفرنس مجموعی طور پر گاجر اور ڈنڈے کا ملا جلا امتزاج تھا جسے انگریزی میں Stick and Carrot کہا جاتا ہے۔ حسب عادت ٹرمپ نے افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکی بھی دی مگر وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس کو بدمزگی کا شکار ہونے سے بچا لیا اور کانفرنس بخیروخوبی ختم ہوگئی۔ بقول شاعر:
لائے اس بت کو التجا کرکے
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
یہ اسی کا صلہ تھا کہ صدر ٹرمپ نے آخر میں یہ پیشکش کی کہ "میں تمہاری Campaing رن کروں گا۔ " اس کے علاوہ ٹرمپ اس قدر مہربان ہوئے کہ انھوں نے یہ تک فرمادیا کہ "امریکا پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت میں بیس فیصد نہیں بلکہ بیس گنا اضافہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ "
وزیر اعظم عمران خان کی امریکا یاترا کا ایک اور قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس دورے میں عسکری قیادت بھی قدم بہ قدم ان کے ساتھ تھی۔ جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ سول اور عسکری دونوں قیادتیں ایک ہی صفحے پر ہیں جوکہ ملک و قوم کے لیے ایک نیا شگون اور خوش آیند بات ہے۔