Friday, 26 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohammad Din Jauhar
  4. Asool e Fiqh, Jadeediat Aur Afaal e Insani

Asool e Fiqh, Jadeediat Aur Afaal e Insani

اصول فقہ، جدیدیت اور افعال انسانی

اصول الشاشی کی "فصل فی النھی" میں بیان کیا گیا ہے کہ نہی دو طرح کی ہے: ایک وہ جو افعالِ حسیہ سے متعلق ہے اور دوسری "تصرفاتِ شرعیہ" سے نہی ہے۔ اس عبارت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امر شرعی کو بیان کرنے اور فعل سے متعلق کرنے سے پہلے افعالِ انسانی میں بالکل ابتدائی درجے کی ایک تقسیم کی گئی ہے۔ اس تقسیم میں مشاہدے اور فراست کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ افعالِ انسانی کی دو زمروں میں تقیید ان کی صراحت کے لیے ہے، تاکہ امر اور فعل کی نسبتوں میں ابہام کے امکان کو دور کیا جا سکے۔

افعال کی یہ تقسیم نظری نہیں ہے اور اس میں فعل انسانی کی تعریف/تعریفات وغیرہ نہیں دی گئیں۔ تعریف کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں زیربحث امور میں تجردات اور تصورات داخل ہو جائیں اور ابہام ایک واقعی امکان بن جائے۔ چیزیں جب تک حسی، طبعی اور مشاہداتی رہیں تعریفات اور استدلال غیرضروری ہوتے ہیں۔ جونہی ہم طبائع میں کارفرما قوتوں اور غیر مشاہداتی اجزا کی طرف پیش رفت کرتے ہیں تعریفات اور نظری استدلال کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ وہاں اشیا کے ہونے اور اِس ہونے کی نسبتوں کو صرف تھیوری اور فارمولے میں ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔

متن میں مذکور افعال حسیہ سے مراد انسان کے وہ طبعی افعال ہیں جن کے وقوع کا سبب شریعت نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کی طبعی (معاشی اور سماجی) ساخت، اس کے تقاضے اور جبر ہے مثلاً کھیتی باڑی کرنا، ملازمت کرنا، دکانداری کرنا، لکڑی کا کام کرنا، کبوتر پالنا، بانسری بجانا، کشتی کرنا، شطرنج کھیلنا، چارہ بیچنا، پنچر لگانا، تدریس کرنا، سیاست کرنا، جنگ کرنا، جھوٹ بولنا، زنا کرنا، شراب پینا، تعدی کرنا اور اسی طرح کے لاکھوں افعال ہیں جو ہر انسانی معاشرے میں طبعاً آفاقی طور پر واقع ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ شعور میں "ہونا" جاننے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جبکہ وجود میں "ہونا" کرنے میں ظاہر ہوتا ہے۔ شریعت ان میں سے کچھ افعال پر نہی وارد کرتی ہے جس کی تفصیل اس فصل میں بیان کی گئی ہے۔

دوسری نہی وہ ہے جو تصرفاتِ شرعیہ کے اندر واقع ہوتی ہے۔ "تصرف" چونکہ عملی ہوتا ہے اور یہاں "تصرفاتِ شرعیہ" سے مراد امر الہی کے انسانی ارادے اور اختیار میں ایسے تصرفات ہیں جو کچھ افعال کے قیام اور وقوع کا سبب بنتے ہیں اور جن کے وقوع اور قیام کی واحد بنیاد تصرفِ شرعی ہے۔ تصرفاتِ شرعیہ سے پیدا ہونے والے افعال انسانی معاشروں میں طبعی طور پر واقع اور موجود نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک نیا قیام ہوتے ہیں۔ ان افعال کی ہیئت حکمی اور غایت کا تعلق امر سے ہوتا ہے اور دونوں توقیفی ہیں۔ ان افعال میں زمانیت اور مکانیت کے پہلو بھی داخل ہوتے ہیں اور نہی سے ان کی تصریحاتِ مزید قائم کر دی جاتی ہیں۔ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا وغیرہ ایسے افعال ہیں جو تصرفاتِ شرعیہ سے قائم ہوتے ہیں۔ تصرفات شرعیہ میں کارفرما نہی، امر میں ملفوف ہوتی ہے اور امر کی صراحت اور تنقیح کو بروئے کار لاتی ہے۔ مثلاً نماز کے حوالے سے توقیت امر میں موجود ہوتی ہے اور نہی سے اس کی مزید تصریحات قائم کر دی جاتی ہیں۔

"تصرفاتِ شرعیہ" سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ افعال کی ایک بالکل نئی تقویم ہے جو طبعی طور پر انسانی معاشروں میں واقع اور موجود نہیں ہوتی اور صرف امرِ شرعی سے قائم ہوتی ہے۔ شریعت فعل کی طبعی استعدادِ انسانی میں ایک تصرف سے ان افعال کو سامنے لاتی ہے۔ امرِ الہی ہونے کی حیثیت سے حکم میں اتھارٹی تو موجود ہوتی ہے لیکن یہ افعال طاقت اور coercive power سے بروئے کار نہیں لائے جاتے اور نہ لائے جا سکتے ہیں۔ اتھارٹی کو تسلیم کرنا اور ان افعال کو سرانجام دینا سرتاسر انسانی حریت کا اظہار ہے اور یہ جبر سے قطعی خالی ہیں۔

یہاں ہم ان موانعات نفسی اور ارتیاباتِ ذہنی کو ابھی زیربحث نہیں لا رہے جو ان میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان موانعات اور ارتیابات کی نوعیت اگر معلوم و مفہوم ہو تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کا بھی coercive power سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کو بالترتیب اخلاق اور علم میں رہتے ہوئے موضوع بنایا جا سکتا ہے۔ ہم یہاں اس ضمن میں صرف شرعی امر کی نوعیت کو واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شرعی امر کا دوسرا ضمن اس کا طاقت سے مخاطب ہونا ہے جو یہاں زیربحث نہیں ہے اور وہاں coercive power کو زیربحث لانا ضروری ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ مذکورہ متن میں تصرفاتِ شرعیہ سے پیدا ہونے والے افعال اپنے قیام میں زمانیت اور مکانیت کی رعایت تو ضرور رکھتے ہیں لیکن تاریخی جہت سے خالی ہیں جو غیرموجود اور قطعی غیر اہم ہے۔ اس لیے تصرفات شرعیہ کے حوالے سے coercive power کو سرے سے موضوع ہی نہیں بنایا جا سکتا۔ تصرفاتِ شرعیہ سے قائم ہونے والے افعالِ انسانی زمانیت اور مکانیت کی وجہ سے معاشرت اور معیشت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں، لیکن انھیں ہرگز، ہرگز مؤثرات تاریخ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ افعال اپنی تنزیہی جہت سے شبستانِ وجود میں جاری و ساری مطلق تشبیہیت (absolute immanance) پر غالب آ جاتے ہیں۔ تصرفاتِ شرعیہ سے قائم ہونے والے افعال کی آفاق میں بالکل وہی حیثیت ہے جو انفس میں حضور (presences) کی ہے۔ جیسے نماز تصرفاتِ شرعیہ سے قائم ہوتی ہے اور تشبیہ میں حامل تنزیہہ ہے۔

میں پہلے بھی کئی بار تھیوڈور اڈورنو کا ایک قول عرض کر چکا ہوں اور یہ قول جدیدیت کے پیداکردہ افعال پر بات شروع کرنے کی لیے مفید ہے:

Modernity colonizes nature and consciousness.

اس سے مراد یہ ہے کہ شعور اور طبعی نیچر/عمل میں جدیدیت کی پیدا کردہ تمام اوضاع اس کی طاقت کے مظاہر ہیں، یعنی سیاسی طاقت اور سرمائے کی coercive power کے، یعنی جدیدیت کا پیدا کردہ ہر تصور اور عمل sheer power سے طبعی دنیا میں قائم ہوتا ہے۔ ان اوضاع شعور و عمل کے ساتھ کسی بھی طرح کی کوئی قدر متعلق نہیں ہوتی۔ جدیدیت اپنی اس قوت کے برتے پر، یعنی اپنی coercive power سے، یعنی اپنے طاقتی امر سے معاشرے میں بالکل ہی نئی اوضاعِ عمل کو داخل کر دیتی ہے، جو انسانی معاشروں میں طبعی طور پر کبھی واقع اور موجود نہیں رہے ہوتے اور نہ جدید طاقت کے بغیر ان کا قیام ممکن ہے۔ ان افعال کے قیام کے لیے جدیدیت اتھارٹی اور coercive power کو الگ الگ یا بیک وقت بروئے کار لاتی ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ جدیدیت کی پیدا کردہ انسانی عمل کی نئی اوضاع کون سی ہیں جو معاشرے میں ایک نئے قیام کی حیثیت رکھتی ہیں؟ اس سوال کا فوری جواب یہ ہے کہ ان کا تعیناتی بیان ہی سب سے مشکل امر ہے جس کی بڑی وجہ ہماری زبان اور عقل پر بنیادگزار کسی بھی طرح کی علمی روایت کا موجود نہ ہونا ہے۔

گزارش ہے کہ افکارِ جدیدیت اپنے وثیقہ جاتی (documented) اظہار کی وجہ سے قابلِ رسائی اور قابلِ فہم ہیں۔ لیکن جدیدیت کے پیدا کردہ افعال کی نئی تقویم میں فعل اور ٹکنالوجی (concrete+abstract) منطقۂ نفسِ انسانی میں باہم بے درز آمیز (seamlessly joined) ہو جاتے ہیں۔ جدیدیت کی پیدا کردہ افعالِ انسانی کی نئی تقویم کو ٹکنالوجی کی نظری اور فعل کی نفسی اور نفسیاتی تفہیم کے بغیر مطقاً نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس پہلو سے مشاہدہ ناکافی ہے۔ مشاہدے میں صرف ظاہرِ فعل اور ٹکنالوجی آتے ہیں جبکہ ٹکنالوجی کی تجریدی جہت سے نفسی ادغام قابل مشاہدہ نہیں ہوتا اور فعل کی ماہیت، نوعیت اور اصلیت کا جاننا ممکن نہیں رہتا۔

یہاں کئی دفعہ کہی ہوئی بات کا اعادہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ روایتی علم الکلام میں دنیا کو مادیات اور مجردات کا مجموعہ کہا گیا ہے اور کلام میں یہ بات علم کے حوالے سے کہی گئی ہے۔ اب وقت ہے کہ جدیدیت کی پیدا کردہ افعال کی نئی تقویم میں روایتی علم الکلام کی اس انتہائی بنیادی بات کو علم اور عمل دونوں کے حوالے سے ازسر نو سمجھا جائے۔ مادیات طبائع ہی کا دوسرا نام ہے، جبکہ ٹکنالوجی مادیات میں سے ہے لیکن طبائع میں سے نہیں ہے اور مجردات؟

اس پہلو سے مسئلہ فوراً پیچیدہ ہو جاتا ہے اور مسلم شعور کے مدار سے باہر چلا جاتا ہے۔ روایتی طور پر مادے کو ٹھوس (concrete) کہا جاتا تھا اور ذہن میں اس سے متعلق وصول ہونے والے تصورات کو مجرد (abstract) قرار دیا جاتا تھا۔ ٹکنالوجی مادے (concrete) اور مجرد (abstract) کو ذہن سے خارج میں اور طبعی فطرت کے عین اوپر قائم کر دیتی ہے۔ آرگنائزیشن بھی ایک ٹکنالوجی ہے کیونکہ یہ بیک وقت مادی (concrete) اور مجرد (abstract) ہے اور یہ مادی اور مجرد ذہن سے خارج میں ہیں، مثلاً سکول، جو مادی اور مجرد بیک وقت ہے اور نیچر، معاشرہ اور تاریخ "میں " یا "پر" موجود ہے۔

انسان ہمیشہ سے آلات استعمال کرتا آیا ہے لیکن ٹکنالوجی سے انسان کی متعلقیت آلاتی نہیں ہے۔ انسان ٹکنالوجی کے لیے ایک resource ہے۔ جس طرح سبزی کو "کاٹنا" اور "پکانا" ہندیا کے لیے ایک resource ہے تاکہ سالن بنایا جا سکے۔ اسی طرح انسان کو جب نفسی، نفسیاتی اور نامیاتی طور پر اچھی طرح "کاٹا" اور "پکایا" نہ جائے ٹکنالوجی کی "ہنڈیا" کوئی پیداوار نہیں دے سکتی اور اس عمل سے گزرنے کے بعد انسان بدنی طور پر ایک مویشی اور نفسی طور پر ایک مشین بن جاتا ہے۔ تناظرِ شعور میں رہتے ہوئے یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ جدید علوم کے مرکز میں استادہ فاعلِ علمی خرد کا ہم زاد و ہم شکل تھا، جس کا ہر لبادۂ انسانی کھرچ دیا گیا تھا اور اسے طاقت کی تھونیوں پر کھڑا کیا گیا تھا۔ وہ فاعل علمی طاقت اور سرمائے کی مہیا کردہ بیساکھیوں پر چلتے چلتے اب ڈھے گیا ہے اور عقل میں ظاہر ہونے والے طاقت کے جبر سے اب یہ منہدم ہوگیا ہے۔ بعینہٖ جدید افعال میں بھی انسان بطور فاعل عملی بتدریج معدوم ہوگیا ہے اور صرف اپنی دیہی (carcass) میں قابل مشاہدہ ہے۔ اس طرح جدیدیت کے پیدا کردہ علم اور عمل کی تقویم جدید میں سے انسان بطور فاعل غیرحاضر ہے اور بطور resource شامل ہے اور "داخل دفتر" (مراد فناشدہ اور غتربود) ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا امرِ جدیدیت سے قائم ہونے والے افعال کی نئی تقویم سے شریعت لاتعلق رہ سکتی ہے؟

گزارش ہے کہ جدیدیت انسانی معاشرے میں طبعی افعال کی جو بالکل نئی تقویم داخل کرتی ہے اس کا سرنامہ تنظیم /آرگنائزیشن ہے اور جو ماقبل جدیدیت طبعی معاشروں میں موجود نہیں تھی۔ آج کی دنیا میں آرگنائزیشن طاقت اور پیداوار کا اصول اور طریقہ ہے۔ یعنی آرگنائزیشن بطور ٹکنالوجی معاشروں کی سیاسی طاقت اور معاشی پیداوار میں غیرمعمولی اضافے کا سبب بنتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ موقف اختیار کیا جائے کہ شریعت کا کوئی تعلق ان سے نہیں ہے، جو محل نظر ہے لیکن اسے وقتی طور پر نظرانداز کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ آرگنائزیشن طبعی افعال کو ٹکنالوجیائی (technological) کر دیتی ہے اور تقسیم محنت کے ذریعے انھیں کسری بنا دیتی ہے۔ یہ کسریت اصل میں خود انسان کی مکمل نفسی پاشیدگی کے بعد ممکن ہو پاتی ہے۔ کیا شریعت افعال انسانی کی اس صورت حال (situation/condition) کو قبول کر سکتی ہے؟

یہ صرف اس صورت میں کہا اور کیا جا سکتا ہے اگر یہ موقف اپنایا جائے کہ شریعت کا انسان اور اس کے افعال سے کوئی تعلق ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ یہ بالکل لغو بات ہے۔ جدید ٹکنالوجی کے سامنے ہمارا وتیرہ اس کو حلال و حرام قرار دے کر جان چھڑا لینا ہے جیسا کہ لاؤڈ اسپیکر اور ریل گاڑی کے ساتھ کیا گیا۔ یہ لاؤڈ سپیکری ذہنیت اب بھی عام ہے اور ٹکنالوجی کو مسلمانوں کے لیے مضر خیال کرتی ہے اور اس کے خلاف مزاحم ہے۔

تفہیم مغرب کے مکتبِ فکر کی ساری لغویات اسی قبیل سے ہیں جو اصلاً مسلمانوں کو دین و شریعت سے محروم کرنے اور دنیا میں شودر بنانے کی تزویرات ہیں۔ طبعی دنیا بھی انسان کے لیے کبھی آسان نہیں رہی اور اسی لیے اس کو دار الامتحان کہا گیا ہے۔ ایک اپروچ یہ ہو سکتی ہے کہ ٹکنالوجی کو مکمل مسترد کر دیا جائے اور ریت میں رہنے والے کیڑے مکوڑوں کو رہنما مان کر ریت میں سر دے کر ایک کرمی طرزِ زندگی "دریافت" کر لیا جائے اور اسے شریعت کی مراد باور کرایا جائے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ٹکنالوجی کی گہری نظری تفہیم حاصل کی جائے اور شریعت کی رہنمائی میں ان کا کوئی حل ڈھونڈا جائے۔

نماز، تصرفات شرعیہ میں سے ہے جبکہ آرگنائزیشن تصرفاتِ طاقت اور سرمایہ میں سے ہے۔ ایسی معاشرت جو اخلاق و شریعت سے پیدا ہوتی ہے اور ایسی معاشرت جو آرگنائزیشن سے پیدا ہوتی ہے، ان میں باہمی نسبتوں کو ازسرنو زیرغور اور زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آرگنائزشین کی پیداکردہ معاشرت کے اندھیروں میں شریعت کا چراغ روشن کیا جائے اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اس تاریک معاشرت کو پہلے ہی ترقی کی روشنی فرض نہ کر لیا گیا ہو۔

آرگنائزیشن ایک ٹکنالوجی ہے اور اعمال کی نئی تقویم کے طور پر یہ معاشرت اور معیشت سے براہ راست نسبتیں رکھتی ہے اور ان کو یکسر تبدیل کر دیتی ہے۔ دینی معاشرت کی اساس شعور اور عمل کے لیے لازم حریتِ انسانی ہے اور اس کا مقصد افعال کو فطرتِ انسانی کے تابع کرنا ہے، جبکہ مؤخرالذکر کی اساس ضرورت کو سیاسی اور سرمایہ جاتی قوت سے جبر کی صورت میں تشکیل دینا ہے اور اس کا مقصد افعال کو ٹکنالوجی کی قائم کردہ ایک نئی اور تھرموڈائنامک مادیت کے تابع کرنا ہے، جہاں سے طبائع بھی بے دخل کر دیے جاتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اصول فقہ میں محکم بنیادوں پر قائم افعال انسانی کی تقسیم کو نظری کمک فراہم کی جائے جدیدیت کی قائم کردہ مطلق نئی فعلی تقویم کو سمجھا جا سکے اور شرعی امر کو ان سے متعلق کرنے کے وسائل پیدا کیے جا سکیں۔

Check Also

Oxford University Museum (1)

By Altaf Ahmad Aamir