اکبر الٰہ آبادی
انسانی جذبات کی ترجمان ہونے کے باعث شاعری تمام فنون لطیفہ میں ہمیشہ سرفہرست اور سب سے مقبول و معتبر قرار پائی ہے۔ درحقیقت شعر انسان کی داخلی کیفیات واحساسات کی ترسیل کا سب سے بڑا اور اظہار کا سب سے طاقتور اور جادو اثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ ایک اچھا شعر شاعر کی زبان یا نوک نظم سے نکلتے ہی سامع اور قاری کے قلب و ذہن میں تیر بہ ہدف کی طرح تیزی سے جاکر پیوست ہو جاتا ہے۔
اچھا شعر اپنے ماحولیاتی اثاثوں کا امین بھی ہوتا ہے۔ انگریزی زبان کے مایہ ناز شاعر جون کیٹس (Jhon Keats) نے حسین شہ پارے کو لازوال مسرت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ A thing of beauty joy forever۔ اس کا یہ قول اعلیٰ شاعری پر بھی اسی طرح حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ جون کیٹس کو اگر انگریزی شاعری کا میر کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس حوالے سے میر صاحب کا یہ مشہور دعویٰ یاد آرہا ہے کہ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔"
گزشتہ نومبر کا مہینہ کئی حوالوں سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا جس میں حالات حاضرہ کو غلبہ حاصل رہنے کی وجہ سے صرف 9 نومبر کی تاریخ کی اہمیت بوجہ یوم ولادت علامہ اقبال کا تذکرہ تو شامل ہوگیا لیکن علامہ ہی کے دوش بہ دوش ہم عصر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کو ان کے یوم ولادت مورخہ 16 نومبر کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرنا ممکن نہ ہوسکا، گویا:
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
اکبر کا پورا نام سید اکبر حسین رضوی تھا اور وہ 16 نومبر 1846کو موضع بارہ ضلع الٰہ آباد (یو۔ پی) میں پیدا ہوئے۔ ہندوتوا کے پرچارک بھارت کے موجودہ حکمرانوں نے الٰہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ رکھ دیا ہے۔ چنانچہ اگر آج اکبر زندہ ہوتے تو انھیں اپنے نام کے آخر میں الٰہ آبادی کی بجائے پریاگی کا لاحقہ لگانا پڑتا۔ اور یوں وہ اکبر پریاگی کہلاتے۔ اکبر نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سید تفضل حسین رضوی سے حاصل کی جو نائب تحصیل دار تھے۔
انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز عرض نویس کی حیثیت سے کیا اور پھر نائب تحصیل دار ہوئے اور ترقی کرتے کرتے 1894 میں سیشن جج کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوگئے۔ لیکن 1903 میں صحت کی خرابی کے باعث انھوں نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی اور شاعری کی آبیاری کرتے ہوئے عملی زندگی اختیار کر لی۔ مرزا اسداللہ خاں کو اگرچہ اپنے آبا کے پیشرو سپہ گری پر ہی ناز تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں جو غیر معمولی اور لافانی شہرت حاصل ہوئی وہ شاعری ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ یہی بات علامہ اقبال پر بھی صادق آتی ہے اور جوں کی توں اکبر الٰہ آبادی پر بھی۔ اگر اکبر محض جج ہوتے تو اپنی زندگی ہی میں فراموش کردیے جاتے۔ یہ شاعری ہی کا کرشمہ ہے کہ انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا کر لافانی بنادیا۔
اگرچہ غزل گوئی ان کا مزاج نہیں تھا مگر اقبال کی طرح روایت کی پیروی میں اکبر کو بھی اپنی شاعری کی شروعات غزل گوئی سے ہی کرنا پڑی جس کا انھوں نے حق ادا کر دیا۔ لیکن ان کا اصل میدان طنز و مزاح تھا جہاں ان کی شاعری کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انھوں نے اپنے تیکھے طنزیہ اور مزاحیہ اشعار سے وہ زبردست کام لیا جو بڑے بڑے مصلح اور واعظ اپنی تقریروں اور مواعظ سے نہ لے سکے۔ اقبال کی طرح مشرقی تہذیب پر مغربی تہذیب کا غلبہ انھیں ذرا بھی گوارا نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
راہ مغرب میں یہ لڑکے لٹ گئے
واں نہ پہنچے اور ہم سے چھٹ گئے
اکبر ایسی تعلیم کے سخت مخالف تھے جو بھاری نوجوان نسل کو مشرقی تہذیب سے اس حد تک بیگانہ کردے کہ وہ "کوا چلا تھا ہنس کی چال مگر اپنی ہی چال بھول گیا" والی ضرب المثل کے مصداق اپنے بزرگوں کا ادب و احترام چھوڑ کر انھیں تضحیک و تنقید کا ہدف بنانے لگے۔ اس حوالے سے وہ دو ٹوک کہتے ہیں :
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اکبر نے زندگی کے کسی بھی غلط پہلو کو اپنی تیکھی تنقید سے نہیں بخشا۔ مذہب، تعلیم، اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور سیاست و معاشرت سمیت سبھی پر انھوں نے ناقدانہ نظر ڈالی ہے اور تنقید کے تیز نشتر چبھوئے ہیں۔ وہ ایک جانب شیخ و واعظ پر طنز کرتے ہیں تو دوسری جانب ہماری نئی نسل کی غلط روش پر زبردست چوٹ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہ مسٹر کو بخشتے ہیں اور نہ ہی مولانا کو۔ وہ مذہب کے نام پر ریاکاری کے سخت مخالف ہیں۔ وہ محض شکم پروری کے لیے تعلیم کے حصول اور استعمال کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس حوالے سے ان کے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں اور ان کی جرأت اظہار اور انداز بیان کی داد دیں۔
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخو مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
اکبر حسنِ مستور کی نمائش اور بے حجابی کے سخت مخالف تھے۔ انھیں ایسی تعلیم و طرز معاشرت سے سخت چڑ تھی جو عورت کی ذہنیت کو بے نقاب کرکے اسے سبھا کی پری بنا دے۔ وہ تعلیم نسواں کے نہیں ایسی تعلیم کے خلاف تھے جہاں عورت کی پردہ پوشی برقرار اور محفوظ نہ رہ سکے۔ وہ کہتے ہیں :
جاتی ہے اسکول میں لڑکی تو کچھ حاصل کرے
کیا ہوا حاصل جو بس بے باک بن کر رہ گئی
اکبر کو جوہر نسواں کی عریانی کسی صورت اور کسی طور بھی گوارا نہیں۔ خواہ کوئی انھیں قدامت اور رجعت پسند ہونے کا طعنہ کیوں نہ دے۔ انھوں نے عورت کی بے پردگی کے خلاف کھلم کھلا جہاد کیا۔ اس حوالے سے ان کے یہ اشعار پیش ہیں :
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر کی شاعری میں اخلاقیات کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے مزاحیہ کلام میں مسلمانوں کی اخلاقی پستی پر، انھیں ان کے زوال کے اسباب کا احساس دلا کر حالی و اقبال کی طرح خواب غفلت سے بیدار کرنے کی دردمندانہ کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
عاجلانہ کرکے سجدے چل دیے گودام کو
جن سے مسجد گونجتی تھی وہ مسلماں اب کہاں
٭٭
نئے مولوی برسر جوش ہیں
جو پیر طریقت ہیں خاموش ہیں
٭٭
اختلافوں کے مہیا ہیں جب امکاں اتنے
متفق ہو نہیں سکتے ہیں مسلماں اتنے
دین و مذہب کے حوالے سے اکبر بحث و مباحث میں الجھنے کو سعی لاحاصل سمجھتے تھے۔ وہ اپنے مشاہدے سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ :
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
ان کی طویل نظم بعنوان "شریعت و طریقت" ان کی تفہیمی طبیعت و صلاحیت کا شاہکار اور آئینہ دار ہے جس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے بہ آسانی و بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی جیسے عالم و فاضل اہل قلم اور دانشور نے اس نظم کو الہامی قرار دیا ہے۔
سنو دو ہی لفظوں میں مجھ سے یہ راز
شریعت وضو ہے طریقت نماز
طریقت شریعت کی تکمیل ہے
شریعت عبادت کی تکمیل ہے
علامہ اقبال کے فلسفہ "خودی" کے حوالے سے اکبر الٰہ آبادی کا یہ شاعرانہ تبصرہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں :
ادبار بے خودی سے جو سازش میں مست ہے
اقبال اب خودی کی سفارش میں مست ہے
کار جہاں خدا کے ارادوں کا ہے مطیع
ہر ایک لیکن اپنی ہی خواہش میں مست ہے
اقبال اپنے بس کا نہیں کیا کرے کوئی
اکبر فقط دعائے گزارش میں مست ہے
اکبر الٰہ آبادی اردو زبان کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے انگریزی الفاظ کو اردو کے سانچے میں ڈھال کر ایک نئی طرز کی بنیاد رکھی جس سے آج تک استفادہ کیا جا رہا ہے۔ وہ بامقصد اور خالص مزاحیہ شاعری کے میر کاررواں ہیں۔ اگرچہ اکبر اپنی شاعری میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی سے مخاطب ہوئے لیکن ان کا روئے سخن زیادہ تر مسلمانوں ہی کی طرف رہا۔ جس کا اندازہ ان کی خدا پرستی اور حبیب خدا حضرت محمدؐ کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں :
خوف حق الفت احمدؐ کو نہ چھوڑ اے اکبر
منحصر ہے انھیں دو لفظوں پہ سارا سلام
شاعری اکبر کی شناخت اور اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ اگر کچھ اور نہ ہوتے تو بھی شاعر ضرور ہوتے۔ ان کے بقول:
بے کار شب کو یوں سر بستر پڑا نہ رہ
اکبر جو تجھ کو نیند نہ آئے تو شعر کہہ