شہر کو طوفان لے گیا
ملک ڈوب رہا ہے، خاکم بدہن۔ ایک بار نہیں، یہ مرے منہ میں خاک، سو بار لکھتا۔ مگر اس وقت سیاسی بیانیہ لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں تو اس تباہی کا تذکرہ کر رہا ہوں، جو سیلابی بارشوں نے پورے ملک میں مچا رکھ ہے۔ میرا ملک بہت دریا دل ہے، اس کے لوگ کارخیر کے لئے بہت دیتے ہیں۔ ان کے لئے اقبال کا یہ شعر آئیڈیل ہے:
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے خدا کا رسولؐ بس
ان کا بس چلے تو اپنا سب کچھ راہ خدا میں لٹا دیں۔ اس ملک میں ایسی بہت سی تنظیمیں ہیں، جو آج بھی جاں فشانی سے اپنے ان تباہ حال خاندانوں کی مدد کر رہی ہیں۔ ریاست کے بہت سے ادارے بھی کام کر رہے ہوں گے۔ ہوں گے کیا، کر رہے ہیں جتنی ہماری استعداد ہے۔ مگر تباہی ایسی ہے کہ جس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ فصلیں ڈوب گئی ہیں، باغات تباہ ہو گئے ہیں، مال مویشی آب برد ہو گئے ہیں، انسانوں کی لاشیں پانی میں گم ہو گئی ہے۔ ان کے جنازے اٹھانے والا نہیں۔ پانی میں گزر کر ورثا دفنانے جاتے ہیں، دفنانے کے لئے خشک زمینیں نہیں ہے۔
کہتے ہیں یہ موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ مگر یہ جو بلوچستان میں 21 ڈیم ٹوٹے ہیں، ان کا ذمہ دار کون ہے۔ چند تصویریں دیکھی ہیں جیسے اینٹوں کی جگہ سیمنٹ کے کھوکھلے بلاک بنائے جاتے ہیں۔ بعض جگہ یہ ڈیم اسی طرح بنائے گئے۔ یہاں پتھر رکھنے کے بجائے مٹی ڈال دی گئی جیسے سیلاب کا ریلا بہا کر لے گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچے گھروندے پانی کی نذر ہو گئے۔ سر پر سائبان نہیں ہے، کھانے کو پاس کچھ نہیں۔ سال بھر کا اناج جو بچا کر رکھا تھا۔ وہ بھی پانی کی نظر ہو گیا۔
جانور، مویشی، فصلیں، باغات، اناج اور ان کے پاس کیا ہے۔ بیٹھنے کی جگہ نہیں ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ جو دوست بلوچستان سے ہو کر آئے ہیں، وہ ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ دل چاہتا ہے ناقص تعمیرات کے ذمہ داروں کو تو بعد میں سزا دی جائے، پہلے اپنے آپ کو مطعون کیا جائے، ہم بے خبر کیوں رہے۔ ایک دو ٹھیکیدار صاف لفظوں میں بتا رہے تھے کہ بلوچستان میں کس کس کو کتنا دینا ہوتا ہے۔ سیاست بھی کاروبار ہو گیا ہے۔ برسوں پہلے کی بات ہے جب ایران پر شہنشاہ ایران کی حکومت تھی ایران کیسرحد زاہدان سے لے کر کوئٹہ اور کوئٹہ سے لے کر کراچی تک آر سی ڈی شاہراہ بن رہی تھی۔ ایران کی مدد سے وہ شاہراہ صرف کنکروں کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ ہم سب کچھ کھا پی گئے۔
ہم جہاں ڈوبے ہیں کوئی تعیش ہے نے نام ہے
موج تھی گھل مل گئی پانی برابر ہو گیا
چند برس پہلے خیبر پختونخواہ میں ایسی قیامت خیز بارشی سیلاب آیا تھا۔ آج پتا چلا کہ پشاور سے لنڈی کوتل تک جو ریلوے لائن تھی وہ بہہ گئی تھی۔ اور آج برسوں بعد بھی نہ بن پائی۔ پل بہہ گئے، علاقے ایک دوسرے سے کٹ گئے۔ اس بار بھی خیبر پختونخواہ میں کم تباہی نہیں آئی مگر ہمیں سمجھ نہیں آ رہی۔
پنجاب میں بھی دو چار سال پہلے چناب بپھر گیا تھا۔ ہم یہ کہہ کر چپ ہو رہے کہ بھارت نے آبی جارحیت کی ہے۔ ابھی تک پنجاب کا یہ حصہ تو قدرے محفوظ ہے مگر جنوبی پنجاب بالخصوص ڈیرہ غازی خاں کے علاقے میں قیامت برپا ہے۔ کوہ سلمان سے آتا ہوا بارشوں کا ریلا تونسہ شریف، راجن پور اور نہ جانے کن کن علاقوں کو ڈبو گیا۔ وزیر اعظم بھی وہاں گئے ہیں اور اب وزیر اعلیٰ بھی۔ پہلے تو سندھ کا پانی بپھر جاتا تھا۔ اب ادھر سکون ہے تو کوہ سلمان سے قیامت آ گئی ہے۔
جو پھل اور سبزیاں منزل میں پہنچنے کے لئے کنٹینروں کی شکل میں چلی تھیں، وہ گل سڑ رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں ملک کی معیشت پر کیا اثر ہو گا، ہم کو اندازہ نہیں۔ ہم ہیں کہ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ خدا کی قسم جو ادھر توجہ نہیں دے رہا، وہ شقی القلب ہے اور اسے مرا رب کبھی معاف نہیں کرے گا۔ چند برس پہلے بدین کی سمت بعض شہر پانی میں ڈوب گئے تھے، ہم الزام ہی لگاتے رہے۔ کراچی دوچار برس بری طرح ڈوبا تھا۔ ہم نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور بس۔ اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کرتے۔
اس برس کی تباہی بہت ہولناک ہے۔ اتنی ہی ہولناک جتنی ہماری سیاست ہے۔ مجھے اپنے رب کے کرم پر یقین ہے کہ ہم اس مشکل سے ضرور نکلیں گے۔ مگر بتائیے میں ان سیاستدانوں کو کیا کہوں جن کی خاطر اس وطن کے شہری اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ کپاس کی فصل ہماری معیشت کی جان ہے۔ فصل تباہ ہو گئی۔ نہیں معلوم آنے والے دنوں میں خود سکیورٹی کا کیا حال ہو۔ حکومتیں اور کاموں میں الجھی ہوئی ہیں۔ خدا سبھی کو اقتدار دلائے۔
یہ سب اقتدار کے بہت بھوکے ہیں۔ اس وقت تو سب صاحب اقتدار میں کسی نہ کسی صورت ہیں۔ مگر کسی کی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔ ہم میڈیا والوں کا یہ حال ہے کہ صبح اٹھتے ہیں۔ شہباز گل، شہباز گل پکارنے لگے ہیں۔ گویا ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور ادھر سچ مچ کا سونامی آیا ہوا ہے۔ ہر کوئی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا رہا ہے۔ یہ کوئی 16ء کی بات ہو گی کہ 17ء کی جب ہم دنیا کی اٹھارہ معیشتوں میں شمار کئے گئے اور عالمی اداروں نے کہا کہ پاکستان 2030ء میں جی 20میں شامل ہو سکتا ہے۔ ہم سوچتے تھے، اتنی دیر سے کیوں جلدی کیوں نہیں۔ اب یہ حال ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم سری لنکا بنتے بنتے رہ گئے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بنک نے بھی جو اعداد و شمار دیے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اس سال کے آخر میں معیشت سنبھل جائے گی۔
ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر تک جا پہنچیں گے۔ مگر کیا ہماری معیشت بھی اس ڈگر پر چل نکلے گی جس کا ہم بار بار خواب دیکھتے ہیں۔ کبھی ایشیائی ٹائیگر بننے کی سوچتے ہیں کبھی دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کے خواب دیکھتے ہیں۔ پرانی باتیں تو چھوڑیے جب دنیا ہماری مثال دیتی تھی۔ وہ دن بھی دور نہیں جب بھارتی وزیر خزانہ علی الاعلان کہتا تھا پاکستان بہت آگے نکلا جا رہا ہے یہ سب کچھ تو قصہ پارینہ ہو چکا۔ اب آگے کی سوچئے کسی تجزیے میں اس بات کی تباہ کاریوں کا اندازہ نہیں۔ پھر بھی حالت پتلی ہے۔ اگر ہم نے اس برس کی تباہ کاریوں کا تخمینہ بھی قائمی ہوش و حواس لگایا تو ہمارے ہوش اڑ جائیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ جانے ہمیں پھر بھی عقل آئے گی یا نہیں۔
مجھے امید واثق ہے جو عذاب قدرت کی طرف سے آیا ہے اس کے لئے مرا رب ضرور کوئی تدبیر کرے گا کہ وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے مگر ان گناہوں کا کیا بنے گا جو ہم سے سرزد ہوئے ہیں۔ ہم نے کوئی تدبیر نہ آج سوچی ہے نہ کل سوچنے کا ارادہ ہے۔ اب تو ہماری آنکھیں کھل جانا چاہیے۔