Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Sajjad Mir
  3. Meri Koi Party Nahi

Meri Koi Party Nahi

میری کوئی پارٹی نہیں

پاکستان کی تاریخ میں بنیاد قائم کرنے والا خطاب خطبہ الہ آباد کہلاتا ہے۔ یہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال کی صدارتی تقریر تھی۔ اس تقریر میں حکیم الامت نے ان خیالات کا بیج بویا تھا جو بعدمیں تصور پاکستان کا تناور درخت بنا۔ اس خطے میں انہوں نے بہت سی اصولی باتیں کی تھیں۔ پہلی جو بات انہوں نے وضاحت سے کی وہ یہ تھی کہ میں کسی پارٹی کی قیادت کر رہا ہوں نہ کسی لیڈر کا اتباع

I lead no Party I Fallow no Leader۔

یہ ایک سیاسی پارٹی کے اجلاس کا خطبہ صدارت تھا۔ پھر بھی وہ ایسی باتیں کہہ رہے تھے جسے ماورائے سیاست apolitical بیانیہ دینا چاہتے ہوں۔ اس وقت جو حالات ہو گئے ہیں، ان کے پیش نظر دل چاہتا ہے کہ اسی طرح ماورائے سیاست ہونے کا اعلان کردوں۔ ویسے جنہوں نے یہ اعلان کیا بھی ہے ان سے بھی بریت کا اظہار کر دوں۔ ہمیں علامہ اقبال کی عظمتوں سے کوئی نسبت نہیں ہے، مگر حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یوں کہا جائے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔

چلئے، یہ زیادہ بات ہو جاتی ہے۔ یوں کہہ لیجیے کسی کے ہاتھ پلّے کچھ نہیں ہے۔ وہ کون سا خطرہ ہے جو اس ملک کے سر پر نہیں منڈلا رہا ہے۔ مارشل لاء سے لے کر سول آمریت تک ہر ایک خوف طبل بجا رہا ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک کی بافت ایسی ہے جس میں کسی ایک کی بھی گنجائش بظاہر نظر نہیں آتی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ملک سے مخلص ہے یا زیادہ سے زیادہ اپنے ادارے یا اپنی پارٹی سے مخلص ہے۔

درست ہے کہ مقتدرہ کی تھیلی میں بہت کچھ ہو گا۔ یہ وہ زنبیل ہو گی جو ابھی بہت کچھ دکھا سکتی ہو گی، مگر اس ملک کے درد کا درماں کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہم نے ملک کی ایسی گت بنا رکھی ہے، بڑے بڑے تجزیے کئے جا رہے ہیں، سب درست ہوں گے۔ مثال کے طور پر ایران کی تاریخ سے مثال دی جاتی ہے جب وزیر اعظم مصدق کا زور ہوا تھا۔ عالمی طاقتوں کو غلطی لگی تھی۔ فوراً اندازہ ہوا تو اس کی تلافی کر دی۔ ایران کے لئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پھر ایران میں کئی سال تک شہنشاہ ایران کی حکومت مسلط رہی۔

وہ علاقے میں امریکہ کا پولیس مین تھا۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں کہ گویا وہ الٹی جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ کیا دھوم تھی، اس کی نہیں، اس کے خانوادے کی بھی۔ پھر کیا ہوا، اس کا طیارہ فضائوں میں چکراتا رہا اور کوئی ملک اسے پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ وہ بھی نہیں جس کی شہہ پر وہ علاقے کا خدا بنا بیٹھا تھا۔ عالمی سیاست میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ اچھا، امریکہ نے بالآخر یہ سب کچھ اپنے مفاد میں بھی نہیں کیا۔ دنیا اس طرح کروٹیں لیتی ہیں کہ سب کچھ تلپٹ ہو جاتا ہے۔

خیر یہ مثال صرف اس لئے دی جاتی ہے کہ ایران کی قربت کی وجہ سے ہمیں آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے وگرنہ دنیا میں کیا کیا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے محتاط ترین الفاظ میں روح فرسا کہا جا سکتا ہے۔ جس کسی نے سوچا ہو گا کہ ایک تحریک عدم اعتماد آئے گی، تو یوں ہو جائے گا۔ شاید اس کا اندازہ بھی غلط نکلا اور جو اب بھی سوچ رہا ہے کہ یوں کر دیا جائے تو یوں ہو گا، وہ بھی غلط سوچ رہا ہے۔ حالات گرفت سے باہر ہو گئے ہیں۔ یہ غیر معمولی قیادت یا غیر معمولی عزم کا تقاضا کرتے ہیں۔ لازمی نہیں کہ اس کا نتیجہ بھی مثبت نکلے مگر کچھ نکلے گا تو سہی۔ یہاں تو محض ایک ضد ہے یا ایک ہوس کہ باگ دوڑ ہم نے اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔

کل سے ہمارے تجزیہ نگار سپریم کورٹ کی رائے پررائے زنی کر رہے ہیں۔ اب دستور ہو گیا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر بھی میرٹ کی بنیاد پر کھل کر تنقید ہوتی ہے اور بعض اوقات بہت خوبصورت اور فکر انگیز بھی لگتی تھی تاہم اس وقت جو حالات ہیں، ان سے کسی تجزیے کی کوئی حیثیت نہیں۔ سپریم کورٹ کے بعد الیکشن کمشن کا فیصلہ آئے گا تو کیا ہو گا۔ پنجاب کی حکومت کا کیا بنے گا۔ اگر اسے باقی رکھنا مقصود ہو گا تو کوئی کچھ بھی کرے حکومت قائم و دائم رہے گی۔ وگرنہ یہ گھر بھی جائے تو کیا ہو گا۔ بڑے بڑے سوال اٹھائے جا رہے ہیں، پرویز الٰہی کو کون سامنے لایا اور اس کا مقصد کیا ہے۔ اس کے بڑے بڑے جواب آتے ہیں۔

صوبہ تو چھوڑیے، بعض باخبر تجزیہ نگاروں نے تو یہ تک اطلاع دینا شروع کر دی تھی کہ وفاق کو کہا جا رہا ہے کہ وہ دس دن کے اندر اسمبلی تحلیل کر دے۔ بہت ہی موقر تجزیہ نگاروں نے خبر دی کہ یا اس پر عمل ہو گا یا پھر پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ ایک خبر یہ بھی آنے لگی کہ آج کل سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو بہت زیادہ پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ تو کیا اسی عطار سے پھر مدد مانگ رہے ہیں۔ یہ تماشا کب تک چلے گا۔ چلئے اس میں کوئی نسخہ مان لیا جاتا ہے تو نیب میں کون سا نظام چلے گا اور عام آدمی کو کیا ملے گا، عام آدمی بھی چھوڑیے ملک کو کیا حاصل ہو گا۔

اگر یہ فارمولا مان لیا جائے کہ گویا حکومت پلیٹ میں رکھ کر گویا دوبارہ ان کو پیش کی جا رہی ہے جن کو اسمبلی نے حال ہی میں فارغ کیا گیا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایسا ہوتا آیا ہے۔ کیا سچ مچ کوئی ان کی مقبولیت اور تند بیانی سے گھبرا گیا ہے یا تصادم اور اختلاف رائے کے خوف اپنی پرانی حکمت عملی کو ریورس کیا جا رہا ہے، مجھے نہیں خبر کیا ہونے والا ہے۔ جو کچھ بھی ہونے والا ہے۔ اس کا پاکستان کو کوئی فوری فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔ الیکشن اب ہوتے ہیں یا کل۔ اچھا یہ اکتوبر نومبر میں کرا رہے ہیں؟

چلیے اس سوال کو چھوڑیے یہ سمجھ لیجیے اگلے اکتوبر نومبر کو ہوں گے یعنی یہ حکومت اپنی آئینی مدت پورے کرے گی۔ عمران خاں نے 18اگست کو حلف اٹھایا تھا تو یہ اسمبلیاں اگلے سال اسی تاریخ کو تحلیل ہوں گی اس کے بعد نگران حکومت تین ماہ کے لئے نومبر کا مہینہ آ گیا نا۔ جو مسئلہ اس وقت ہے کہ الیکشن کا میکنزم کیسے طے ہو کہ سب کو اس پر اعتبار ہو۔ شفاف ہوں اور پرامن ہوں۔ پرامن بہت بے ضرر لفظ ہے یوڈ کہہ لیجیے خونی نہ ہوں۔ یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے گھبرانا نہیں چاہیے۔ سچ مچ اس وقت جو خطرہ ہے کہ الیکشن آج ہوں کل ہوں یا اگلے برس ہوں یہ پرامن ہوں اور خونی تو بالکل نہ ہوں۔

اتنے عرصے میں معیشت کا کیا بنے گا ہم نے اپنے بچپن میں سونے کو ایک سو روپے تولہ سے دو سو روپے تولہ ہوتے دیکھا تو اپنے والدین کے چہرے پر تفکر کے اثرات دیکھے۔ پھر تو اسے پر لگ گئے۔ اب سونے کو چھوڑیے ڈالر کو ان دو چار برسوں میں سو روپے ڈالر سے دو سو روپے ڈالر ہوتا دیکھا ہے۔ اب تو محاورں میں نہیں تو سچ مچ ماں یاد آتی ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو گندم آٹھ روپے من سے بھی کم تھی۔ پھر ہم نے اپنے بچپن میں اسے عرصہ تک 12روپے من تک دیکھا۔ اب آٹا کتنے روپے کلو ہے اور روز اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سیاسی اور معاشی صورت حال ہی خراب نہیں ہے ملک کی سکیورٹی کے معاملات بھی اچھے نہیں ہے۔ اندرون ملک سب کچھ ہو رہا ہے کراچی، بلوچستان خیبر پختونخواہ خاص طور پر سابق شمالی ایجنسیوں میں دہشت گردی کی وارداتیں۔ سرحد پر بھی دشمن کے ارادے اچھے نہیں لگتے۔ جب ملک کے حالات ایسے ہوں تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔

بھارت جیسے دشمن سے آپ کچھ بھی توقع کر سکتے ہیں جب وہاں مودی جیسا حکمراں ہو جو کشمیر پر نظریں لگائے بیٹھا ہو۔ پتا نہیں ہمارے لیڈروں کو کس نے بتا دیا ہے کہ وہ بہت بقراط ہے۔ ہم نے مشرقی پاکستان کے سانحے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہم اسے بھلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ قومیں اپنے عبرت کی داستانیں بھولا نہیں کرتیں اس سے سبق سیکھا کرتی ہیں۔

مری کوئی پارٹی نہیں، لیڈر نہیں اقبال نے جب یہ کہا تھا کہ خدا نے قوم کو قائد اعظم عطا کئے۔ اے خدا تو ہماری بھی دعائیں قبول کر لے۔ مگر کیا ہمارے اندر اتنا خلوص ہے، اتنا شعور ہے مرے خدا ہم پر رحم فرما۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi