Aam Aadmi, Adeeb, Danishwar Aur Ustad
عام آدمی، ادیب، دانشور اور استاد
آدمی اپنے ہی دل میں گھر بنائے عفریتوں، آسیبوں، بھوتوں، شیطانوں سے آگاہ نہ ہو تو یہ جہالت کی انتہا ہے۔ کسی انتہا کی کوئی معافی نہیں ہے اور اگر آدمی ان عفریتوں، شیطانوں سے اپنے دل کے حرم کو پاک نہ کرسکے تو یہ خود پر ظلم ہے۔ ایسے میں آدمی، اپنے ہی گھر میں بے گھر ہوجایا کرتا ہے۔ "دوسرے، اجنبی، باہر کی مخلوقات"، آدمی سے اس کا اپنا مکان چھین لیا کرتی ہیں۔
آدمی اپنی زندگی نہیں جیتا، آسیبوں اور شیاطین کی محکومی میں عمر بسر کردیتا ہے۔
ایک عام آدمی، اگر آسیبوں کی غلامی میں حیات بسر کرے تو یہ اس کا شخصی المیہ ہے۔ ایک استاد، ادیب، دانش ور اپنی الجھے ہوئے جذبات (complexes) کے پیدا کردہ عفریتوں کی بیعت کرکے، اپنے دل کا پورا حرم، ان کے سپر د کردے تو یہ پورے سماج کا المیہ ہے۔
شخصی المیہ، محض ایک یا چند لوگوں کی یاد ہوا کرتا ہے، ایک سماجی المیہ تاریخ کے رخِ زیبا پر گہری خراشیں ڈالتا ہے۔ ایک استاد، ادیب، دانش ور کی ذاتی عصبیت و حسد ونفرت کے سبب، تاریخ باقاعدہ زخمی ہوتی ہے۔
جس کے دل میں آسیب ہوں، وہ لازماً خوف زدہ بھی ہوا کرتا ہے۔ خوف زدہ آدمی، اپنے خوف سے بچنے کی خاطر، اپنی بے خوفی، بہادری، حق گوئی، جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنے کے کئی قصے گھڑ لیتا ہے۔ وہ دن کے وقت ان قصوں کو دہراتا ہے، اونچے سروں میں اور رات کو جابر سلطان یا ان کے مصاحبین کی قدم بوسی کے لیے جاتا ہے، وہ اپنی متاع عزیز یعنی خودی ہی نہیں، اپنی دستار، اپنی زبان، اپنے بہترین اسلوبِ اظہار بھی ان کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ ہر خوف زدہ آدمی، لاریب بزدل، مصلحت پسند، ریاکار ہوا کرتا ہے۔ وہ ایک جگہ چیختا چلاتا ہے، دوسرے مقام پر آہ و زاری کرتا ہے۔
وہ کہیں اس قدر غصے کا اظہار کرتا ہے کہ جیسے اپنی آتش غیظ سے دنیا کو راکھ کردے گا اور کہیں دوسر ی جگہ سجدہ ریز قسم کی منت سماجت سے کام لیتا ہے کہ لگتا ہے، جیسے اس نے واقعی کہیں نئے خدا دریافت کر لیے ہوں اور اس کا دل تسلیم و بندگی کے جذبات سے امڈ رہا ہو۔ جو نئے خدا دریافت کرلیتا ہے، وہ پرانے خداؤں کو فراموش کرنے میں دیر نہیں لگاتا اور جہاں خدا کی کرسی خالی دیکھتا ہے، وہاں خود بر اجمان ہوجایا کرتا ہے۔
چناں چہ ایسا استاد، ادیب، دانش ور اپنے دل میں موجود آسیبوں اور عفریتوں کو اپنے طالب علموں اور قارئین تک براہ راست نہیں پہنچاتا۔ وہ دوسروں سے اپنی نفرت، تعصب، حسد، بغض، کینے کو منتقل کرنے کا بالواسطہ اہتمام کرتا ہے۔
وہ کسی کا نام لیے بغیر، ان تصورات وخیالات کو سب سے بڑی برائی بنا کر پیش کرتا، جن کے حامل وہ لوگ ہوتے ہیں، جن سے استاد، ادیب اور دانش ور نفرت کرتا ہے۔
ادیب اور دانش ور کے مقابلے میں استاد کو کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ ادیب و دانش ور ہر وقت اپنے قارئین تک رسائی نہیں رکھتے۔ انھیں ہر وقت نہیں پڑھا جارہا ہوتا اور ان کا سماجی رابطہ بھی قارئین سے کبھی کبھی ہوتا ہے۔ جب کہ استاد کے پاس ہر وقت اس کے طالب علم موجود ہوتے ہیں جو محض اس کے لفظوں سے نہیں، اس کے لہجے، اس کی خطابت یا دلائل، اس کی شخصیت، اس کی نشست و برخاست، اس کے غصے، محبت، وغیرہ سب سے راست اثر قبول کررہے ہوتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ استاد کچھ باتوں کو مسلسل دہرا سکتا ہے اور اس پر خود کو دہرانے کا وہ الزام بھی نہیں آتا، جس کی زد میں ادیب اور دانش ور آتے ہیں۔ ایک اچھا ادیب، اپنی تحریر کے دریا میں دوبار قدم رکھتے ہوئے ہچکچاتا ہے، جب کہ ایک استاد، اپنے اقوال کی جھیل میں باربار اترتا ہے اور طالب علم یہ سوال نہیں اٹھاپاتے کہ اس جھیل کا پانی گدلا ہے۔ صرف اقوال کو دہرانے کے سبب یہ پانی گدلا نہیں ہوتا، خود استاد کی نئے علم کی جستجو سے ہاتھ کھینچ لینے سے گدلا ہوتا ہے۔ جو شخص خود علم کی تخلیق ترک کرچکا ہو، وہ دوسروں کو علم تخلیق کرنے کی ترغیب کیسے دے سکتا ہے؟