لندن کی بیٹھک
معاملہ گنجلک ہوتا جا رہا ہے۔ کل تک یہ سوال تھا کہ نواز شریف نے لندن میں ایمرجنسی اجلاس کیوں طلب کیا ہے۔ اس کا ہم حسب استطاعت جواب دئیے جا رہے تھے۔ آج صبح خواجہ آصف نے بی بی سی کو ایک ایسا انٹرویو دیا ہے جس نے معاملے کو مزید نازک بنا دیا ہے۔ ان کے جواب کا مطلب ہے کہ نئے آرمی چیف کے تقرر کا مسئلہ زیر بحث ہے اور وہ بھی اس انداز میں ہے کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
کل تک جو صورت حال زیر غور تھی، اس میں بنیادی حیثیت ایک طرح سے معیشت کو حاصل تھی وہ یوں کہ لگتا تھا کہ شہباز شریف کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ایک طرح سے ایک ایسی پالیسی پر گامزن دکھائی دیتے تھے جسے آپ سٹیٹس کو کی پالیسی کہہ سکتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ آئی ایم ایف سے معاملات کو بہتر بنانے اور مغرب کے حلیفوں کی اشیر باد حاصل کرنے کو ترجیح دی جا رہی تھی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے امیدیں باندھی گئی تھیں۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر سمجھا جا رہا تھا۔
دوسری طرف مسلم لیگ کے پرانے اور اصلی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے انٹرویو دینا شروع کئے اور نعرہ لگایا کہ عوام مزید مہنگائی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ بھی نیا معاہدہ کرنا ہو گا۔ یہ سب کیسے ہو گا فی الحال وہ یہ نہیں بتاتے۔ اس سب سے یہ پتا چلا کہ مسلم لیگ والے موجودہ صورت حال سے خوش نہیں ہیں۔ سیاسی ہی نہیں معاشی بھی۔
وہ گزشتہ حکومت کا سارا ملبہ اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ یوں لگتا تھا کہ ان کے نئے حلیفوں نے بھی انہیں صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ پنجاب میں غیر یقینی صورت حال میں یقینا پس پردہ کوئی ہے۔ کون ہے، فی الحال اسے رہنے دیجیے۔ اس لئے یہ بات زور پکڑ رہی ہے کہ اکتوبر نومبر میں انتخابات کرا کر اس وبال سے نجات حاصل کی جائے۔ دوسری طرف یہ سوچ تھی کہ حالات کو قدرے بہتر کر کے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے اس ساری کشمکش میں اب یہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر کون کرے گا۔
عمران خان جب کہتے ہیں کہ میں شہباز شریف کو نہیں کرنے دوں گا۔ تو اس سے صرف یہ مطلب نکلتا ہے وہ آرمی چیف کو اپنی سیاسی مضبوطی کی بنیاد سمجھتے ہیں اور وہ کسی طرح نہیں چاہتے یہ حق کسی اور کے پاس جائے۔ یہ بہت نازک معاملہ ہے۔
اس کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ شاید مسلم لیگ یہ سمجھتی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ پنجاب میں پرویز الٰہی کس کے اشارے پر میدان میں اترے۔ اب یہ کوئی راز نہیں ہے۔ کم از کم مونس الٰہی کی سرگرمیوں نے اسے طشت ازبام کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنا پھڈا ڈال رکھا ہے۔ ادھر نواز شریف کی واپسی کی کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔
شاید مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ سب عمران کا پیدا کردہ بیانیہ ہے۔ ہر کوئی بڑی احتیاط سے چل رہا ہے۔ ایسے میں ہو سکتا ہے مسلم لیگ یہ سوچتی ہو کہ مقتدر قوتوں کو بتا دیا جائے کہ ہم تو چلے اب معامات کو سنبھالو۔ یا ہو سکتا ہے کہ قوتیں چاہتی ہوں کہ اب ہمیں معاملات دیکھنے دو۔ یا یہ کہ کوئی اور چال چلی جا رہی ہو۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ معاملات یونہی چلتے رہے تو منزل تک پہنچنا کسی کیلئے ممکن نہیں ہے۔ عمران جس طرح گرج رہے ہیں، وہ خطرناک ہے۔
ایک زمانے میں جب بھٹو آئے تھے تو اس ملک میں انہیں صرف اشتراکی سمجھا جاتا تھا۔ بھٹو صاحب کو پرو بیجنگ اشتراکیت کا نمائندہ سمجھا گیا۔ ایک فلسفہ گھڑا گیا کہ چینی قومی تضاد کو اہم سمجھتے ہیں اور روسی قومیتوں کے تضاد کو۔ چنانچہ بھٹو صاحب بھارت کے خلاف پاکستان کے متحدہ اتحاد کے حامی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہم جیسوں نے بھی مائو کے بیج لگانے میں حرج نہ سمجھا۔ وہ تو جب خبر آئی کہ بھٹو صاحب ہٹلر کی کتاب مائی کیمف کے بہت دلدادہ ہیں تو ماتھا ٹھنکا۔ بھٹو صاحب کے اندر جو قومیت پلس اشتراکیت کا جذبہ تھا وہ فسطائیت کی طرف لے جا سکتا ہے۔
بات دور نکل گئی اس ملک میں جو بھی حکمران آتا ہے اور خود کو قوم کا واحد مسیحا سمجھنے لگتا ہے، اس کے ساتھ مسائل پیدا ہوتے ہیں، عمران عرب امارات حکمرانوں کو انقلاب کا درس دیتے ہیں۔ چینی سمجھتے ہیں کہ سی پیک کی بات کرنے آئے ہیں، وہ یہ جاننا چاہتے ہیں آپ والا نظام کیسے آئے گا۔ انہیں کون بتاتا کہ اس کے لئے سن یات سن، مائوزے تنگ اور ڈنگ ژیائوڈینگ سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر انقلاب نہیں آیا کرتے۔ یہ نہیں کہ صرف فوج کو کنٹرول کر لیا اور ملک میں انقلاب آ گیا۔
سو یہ کہنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ مسلم لیگ کی قیادت ایک بہت بڑی الجھن کا شکار ہے۔ ملک کو سیاسی اور معاشی دلدل سے نکالنا بھی ہے اور خود بھی اس دلدل میں دھنستے نہیں جانا۔ یہ بہت جان لیوا کام ہے۔
عمران نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ کوئی سیدھا حل نظر نہیں آتا۔ الیکشن مگر کیسے الیکشن۔ کون کرائے گا الیکشن؟ کیسے ہوں گے الیکشن؟ جب اس بات کا امکان تھا اور آپ سے کہا جا رہا تھا کہ اسمبلیاں توڑ دیں تو آپ نے انکار کر دیا۔ جب آپ سے یہ اختیار چھن گیا تو آپ نے غیر آئینی طور پر یہ کام کرنا چاہا۔ اب بھی انتخاب کا یہ فارمولا جو آپ کے پیش نظر ہے، وہ خطرات سے خالی نہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے اگر یہ ممکن بھی ہوا تو آپ کیا فضا پیدا کریں گے۔ یہ فضا یقینی طور پر ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔
میں صرف اتنا کہوں گا کہ مسلم لیگ کی قیادت جو لندن میں سر جوڑ کر بیٹھی ہے اس کے پیش نظر اپنی ہی بقا کا سوال نہیں، جمہوریت کے تسلسل کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس ملک کا مستقبل ہے۔ کیا یہ قیادت اتنے بڑے چیلنج کا جواب دے سکے گی۔