لیڈر اور ریاست
کہانی ختم نہیں ہوئی کہانی شروع ہوئی ہے۔ عدم اعتماد کی ابتدائی تاریخ سے ایک آدھ دن پہلے میں نے ایک منظر نامہ لکھا تھا جسے میں نے مابعد عدم اعتماد کی گویا صورت حال کہا تھا۔ بعض احباب کا خیال تھا کہ میں نے اسے پوسٹ عمران منظر نامہ کیوں نہیں کہا۔ اب مرے خیال میں بات واضح ہو جانا چاہیے کہ ابھی ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ عمران کے دور ہی کا تسلسل ہے۔ مطلب یہ کہ اگر فیوض و برکات ہیں تووہ اس قوم پر ختم نہیں ہوئے اور اگر بربادیاں ہیں تووہ جاری ہیں۔
میں ان لوگوں میں سے تھا جو کہا کرتے تھے کہ عمران ایک قومی اثاثہ ہے، جسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ اب آپ اثاثے کی جگہ ورثہ کا لفظ استعمال کر لیں۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے لیڈر آئے جو اپنے نام کی وجہ سے خود ایک دبستاں تھے۔ بھٹو صاحب کی مثال نمایاں ترین ہے۔ عمران میں ذاتی اپیل یقینا بہت زیادہ ہے۔ تاہم اس اپیل کو اس حد تک پہنچانا کہ یہ تک سمجھا جانے لگے بلکہ کہا جانے لگے کہ نہ فوج اہم ہے نہ عدلیہ نہ پارلیمنٹ بلکہ پاکستان بھی اہم نہیں اصل اہمیت لیڈر کو حاصل ہے۔
اس قسم کا نعرہ ایم کیو ایم کی قیادت نے لگایا تھا۔ لیڈر چاہیے، اس زمانے میں بھی کھلتا تھا، آج بھی اچھا نہیں لگتا۔ جب آپ ہر چیز پر اپنے لیڈر کو ترجیح دینے لگیں تو ریاست کی قوتوں کو ایک ایسی صورت حال کا شکار ہونا پڑتا ہے جیسا وہ ایم کیو ایم کے قائد کے بارے میں ہوئیں۔ یہ گویا ایک ایسی لڑائی بن جاتی ہے جو صرف فسطائیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
مجھے اندازہ ہے آگے کیا ہونے والا ہے۔ اب یہ بھی یقینی ہے کہ اب آسانی اور خوشدلی سے عمران خان کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ملے گی۔ بعض لوگ چند روز پہلے کہتے تھے کہ اب شریفوں کو کبھی اقتدار میں نہیں آنا۔ اب شاید الٹ بیانیہ نعرے کے طور پر نہیں معیشت کے طورپر درست ہوکہ عمران کا دور حکمرانی گزر چکا، اب اسے اقتدار کی ہوا تک نہیں لگنے دی جائے گی۔
تاریخ میں ایسا ہوتا نہیں جو بیج جڑ پکڑے، اس کی بیل کو زیادہ پھیلنے سے تو آپ روک سکتے ہیں اسے بالکل تلف کرنا آسان نہیں ہوتا۔ عمران اب ہماری سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے یہ اچھا کلچر نہیں ہے۔ بھٹو صاحب نے سیاست میں بلا شبہ شخصی آمریت کے ساتھ عوامی جذبات کی ترجمانی کی بنیاد بھی رکھی۔ الطاف حسین کا ورثہ مختلف تھا، وہ زیادہ شخصی جاہ و جلال کی طرف گیا، مگر اس شخص نے مہاجر عوام میں اپنے حقوق کا ایک شعور پیدا کیا۔
یہ دونوں آج بھی باقی ہیں۔ عوام اپنا حق مانگتے ہیں اور کراچی والے اپنے حقوق کے لئے ڈٹ جاتے ہیں۔ منفی سیاسی فلسفے کے باوجود انہوں نے کچھ نہ کچھ دیا۔ اب سوال ہے کہ عمران خان کی جو روش ہے، وہ ہمیں کیا دے جائے گی۔
اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ نواز شریف سے اگلا مرحلہ ہے کہ مقتدرہ کی قوتوں کو سیاسی معاملات سے دور نہیں رہنا چاہیے تو شاید ایسا نہ ہو۔ اس لئے کہ تحریک انصاف واحد پارٹی تھی جس نے ایک سچ کی کہانی کو اقتدار سے آنے سے پہلے بھی اور دوران بھی کھلم کھلا اپنایا تھا اور اس پر شرم محسوس نہ کی تھی۔ اب اگر اس سے الٹ چل رہی ہے تو مطلب یہ بنتا ہے کہ مقتدرہ ہمارے ساتھ ہو تو ٹھیک ہے اگر نہ ہو اس کی ایسی تیسی۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہوگئی ہے کہ اگر میرے لیڈر نہیں مانتے تو سب کچھ جائے بھاڑ میں۔
عجیب و غریب بات ہے کہ جو شخص مقبولیت کا آغاز مغرب کی پذیرائی سے کرتا ہو اور فخر سے کہتا بھی ہو کہ مغرب کو مجھ سے زیادہ کون جانتاہے اور جسے ناز ہو کہ مغرب اس پر مرمٹا ہے، اب وہ مغرب مخالفت کا نعرہ لگا رہاہے۔ مغرب مخالفت کو وہ صاف صاف لفظوں میں سامراج مخالفت کہہ رہا ہو اور اگر یہ سب کچھ قبول کیا جا رہا ہو، تو اور بھی خطرناک صورتحال ہے۔ مطلب یہ کہ ایک شخص اتنا اہم ہے کہ وہ جو بھی کہے وہ سچ ہے۔ سورج کو چاند اور چاند کو سورج قرار دے دے تو اسے ہی حق تسلیم کرو۔
یہ جوش خطابت نہیں بلکہ باریک نفسیاتی تجزیے کا تقاضا ہے۔ ہم یقینی طور پر بہت مشکلات کا شکار ہیں۔ ان سے استقلال و اسقامت کے ساتھ نمٹا جا سکتا ہے۔ نئی حکومت نے جس طرح بہت سے کام کا آغاز کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے، وہ کیا ارادہ رکھتی ہے مگر میدان میں موجود جو معاملات عمران موجود ہیں وہ بھی ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ یہ کوئی انتخابی جنگ نہیں۔
یہ ایک ایسی کشمکش ہے جس نے ہمیں ایک قوم بنانا ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ عمران خان کا دور ختم نہیں ہوا اس کے اچھے یا برے اثرات مرتب ہونا ہیں۔ یہ صرف انتخابی معرکے میں نہیں بلکہ ایک تہذیبی، سیاسی نظریاتی جنگ ہے جو ہمیں ایک قوم بنا سکتی ہے اور ہمارا ستیا ناس بھی کر سکتی ہے۔ ماضی میں اکثر انتہا پسند قوتیں قومی منظرنامے کا حصہ بن گئیں۔ ہو سکتا ہے اب بھی ایسا ہو مگر فی الحال خطرات زیادہ ہیں۔
معیشت بھی سنبھل سکتی ہے اور سیاست بھی مگر یہ سب فطری انداز میں ہونا چاہیے۔ اس وقت تحریک انصاف فطرت کے اصولوں کے بر خلاف سوچ رہی ہے جو یقینا تشویشناک ہے۔ گالم گلوچ کا جو کلچر رائج ہو چکا ہے اور ون مین شوکا جو چلن چل نکلا ہے اصل تشویش اس سے ہے۔ جو بھی استعفیٰ دیتا ہے یہ نہیں کہتا کہ میں نے اتنے برس اس پارٹی کے ساتھ گزارے وہ یہ کہتا ہے میں نے اتنے برس عمران خاں کے ساتھ گزارے، اس سے آگے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
جب سپیکر استعفیٰ دے کر جارہے تھے وہ بھی یہی کہہ رہے تھے یہ پریشان کن بات ہے۔ بات یہاں تک پہنچی ہے کہ ایک طرف لیڈر اور دوسری طرف اگر ریاست بھی ہو تو ہم لیڈر کے ساتھ ہیں۔ ابھی تک یہ مرحلہ جاری ہے جبکہ اس میں شدت آئی ہے۔ خدا خیر کرے!