خطرناک بات
یہ بات ہم جانتے ہیں کہ چار مقدمات عمران کے گلے کا پھندہ بن سکتے ہیں، مگر میرا دکھ ذرا مختلف ہے۔ دہشت گردی کا مقدمہ اور یہ توہین عدالت کا معاملہ جسے دیکھنے میں مری طرح ایک دنیامگن تھی، عمران کے لئے توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس کی طرح خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ بالخصوص نواز شریف کو نااہل قرار دینے اور بعض مسلم لیگی قائدین کو توہین عدالت کی سپریم کورٹ سے سزائیں دلانے کے بعد یہ بات آسان نہیں رہی کہ عمران کسی ایک مقدمے میں بھی چھوٹ سکیں۔ بعض قوانین پر مجھے ذرا الجھن ہوتی ہے اور بعض فیصلے بھی محل نظر گنے گئے ہیں۔ تاہم یہ دلیل میری عقل سے ماورا ہے کہ عمران کو اس لئے سزا نہ دی جائے کہ وہ پاپولر ہیں یا یہ کہ عوام ان کے پیچھے ہیں۔
ایک صاحب تو یہ فرماتے ہیں کہ نواز شریف کو جب سزا دی گئی وہ اپنی پاپولیریٹی کھو چکے تھے اور یہی حال بھٹو کا پھانسی کے وقت تھا۔ گویا وہ اکسا رہے ہیں کہ عمران کو سزا دینا ہے تو پہلے اسے بدنام کرویا طے کر لو کہ اسے انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک خطرناک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص انصاف سے ماورا ہو جائے اور اس کے اقدامات ملک کے قوانین اور ریاست کے مفاد کے خلاف ہوں اس کے بارے میں ملک کیا کرے۔ چپ سادھ کے بیٹھا رہے۔ ایسا ہوا نہیں کرتا۔ عمران جو بیانیہ اختیار کر رہے ہیں وہ کئی لحاظ سے بڑا خطرناک ہے۔
یہاں میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ یہ شوکت ترین کا معاملہ ہے جس نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ریاست کی بات چھوڑو۔ وہ اگر ہمارے لیڈر پر مقدمے بنا رہے ہیں تو ہمیں ریاست کے نام پر پیچھے نہیں ہٹنا۔ یہ بہت خطرناک بیانیہ ہے۔ ایک زمانے میں الطاف حسین کے حوالے سے کراچی میں نعرے لگتے تھے: منزل نہیں، رہنما چاہیے۔ اس پر یقینی طور پر لے دے ہو رہی تھی کہ یہ لوگ کسی منزل پر نہیں جانا چاہتے۔ انہیں صرف اپنا لیڈر عزیز ہے۔
اب کے جو بات کہی گئی، وہ تو اس سے بھی ہولناک ہے یعنی ریاست نہیں لیڈر چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں تو اپنے لیڈر کا دفاع کرنا ہے اس کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کی انا کی تسکین کرنا ہے۔ کراچی کے اس نعرے نے کیا رنگ دکھائے۔ ایک دن آیا کہ خاکم بدہن پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا۔ پھر الطاف حسین لوگوں کے دلوں میں اس طرح نہ رہا جیسے رہا کرتا تھا۔ جب ہمارا مقدمہ آئی ایم ایف کے سامنے پیش تھا اور دن گن رہے تھے ہر روز قربانیاں دے رہے تھے، اس وقت عالمی سطح پر ایسا بیان دینا ناقابل فہم ہے۔
میرے لئے صدمے کی بات یہ ہے کہ چند لوگ جن کی توقیر کرتا ہوں ان میں شوکت ترین ایک ہیں۔ میں ہمیشہ تکریم کرتا ہوں۔ ان کا ذکر ہمیشہ مرے ان پیشہ ور ساتھیوں کے ساتھ آتا ہے جو کوئی نظریاتی ہونے کی وجہ سے عزیز نہیں ہیں، بلکہ پیشہ ورا نہ دیانت کی وجہ سے ان کی مرے دل میں قدر ہے۔ مثلا مرحوم عارف نظامی یا حمید ہارون، شوکت ترین ان کے دوست تھے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے ذریعے جن جن لوگوں سے رہے ہیں وہ میری نظر میں بہت قابل قدر تھے اس لئے صدمہ شدید ہے۔
اس حوالے سے دوسرا صدمہ یہ ہوا کہ ان کے موقف کی حمایت اسد عمر نے بھی کر دی۔ اسد عمر جب بھی اپنی پیشہ ذمہ داریاں نبھارہے تھے تو خبر گرم تھی کہ ہماری سیاست گرم خون لایا جا رہا ہے۔ میری ان کے والد جنرل عمر سے یاد اللہ تھی۔ بلکہ زندگی کے آخری ایام میں تو ان سے بہت رابطہ رہا۔ میرے پاس آتے اور پہروں باتیں کرتے تھے۔ ریڈیو ٹی وی جاتے، مجھے دیکھتے تو انتظامیہ کو کہہ دیتے واپسی کی گاڑی درکار نہیں میں اس کے ساتھ جائوں گا۔ مجھے یہ اچھے لگتے ہیں۔ بلکہ اپنے بھائی سے زیادہ۔ حالانکہ وہ اس پارٹی میں ہیں جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ میں اس کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ سوشوکت ترین کا یہ بیان اس پر اسد عمر کی حمایت مجھے بہت دکھی کر گئی۔ فواد چودھری اگر بڑھ چڑھ کر اس کی حمایت کرتے ہیں تو مجھے کیا۔ وہ اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
عمران خاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے گرد غلط لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ بعض لوگوں کے بارے میں تو یہ تاثر ہے کہ عمران کو اکسانے پر مامور کئے گئے ہیں۔ خیر مجھے اس سے کیا۔ لیکن عمران کے آس پاس ایسے لوگ بھی ہیں جن کی ذہانت اور حب الوطنی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ عمران کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ اس تحریک عدم اعتماد کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، ان سے عمران نے مقبولیت پکڑی یا اور مقبولیت پکڑی۔ اب یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ عمران ہے تو پارٹی ہے۔ پارٹی میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو عمران سے اختلاف کرتے نہیں۔ مگر موجودہ حالات میں یا تو اختلاف کرتے ہیں یا اختلاف کر کے چپ ہو جاتے نہیں یا پھر خوشامدپسندی کو انہوں نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔ آج حامدخاں جو عمران کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے، مجھے اندازہ ہے کہ مختلف اپروچ رکھتے ہیں۔ وہ ایک لمبا عرصہ پارٹی سے ناراض رہے مگر انہوں نے پارٹی کو چھوڑا نہیں۔
سچی بات ہے کہ اگر بات ملک اور کسی لیڈر کی آ جائے تو میرا ووٹ ملک کے ساتھ ہو گا۔ یہ بحث شیکسپیئر نے شروع کی تھی جب اس نے اپنی شہرہ آفاق تقریر میں کہا کہ ایسا نہیں کہ میں اپنے دوست بروٹس سے کم محبت کرتا ہوں مگر میں اپنے ملک یعنی روم سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔ یہ بحث بعد میں چلی بھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی قائد یا کوئی شخص ملک کی سالمیت سے ماورا ہو جائے اور خود کو عقل کل سمجھنے لگے او راس کے ساتھ سب حدود پار کر جائے تو یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہوا کرتا ہے۔
اس وقت یہی مسئلہ میرے سامنے اگر ملک نے مفاد کے خلاف کسی شوکت ترین کے بھی بات کی ہے تو میرا دوست ملک اور ریاست کے ساتھ ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ شوکت ترین بنکار ہیں۔ سیاست دان نہیں۔ پہلی بار سینیٹر بن کرکل وقتی سیاست دان بنے ہیں مگر شاید اس رستے کے پرخار ہونے کا انہیں اندازہ نہیں۔