Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Sajjad Mir
  3. Ertughrul Hum Hazir Hain

Ertughrul Hum Hazir Hain

ارطغرل، ہم حاضر ہیں

خدا خوش رکھے عامرخاکوانی کو کہ اس نے کس نازک مسئلے کی نشاندہی کی ہے وگرنہ نفیسہ شاہ نے کیا وار کیا ہے، اس کا پتا تک نہ چلا۔ سچی بات ہے کہ میں تو ہیرو ورشپ یا شخصیت پرستی کو شرک سمجھتا ہوں۔ مگر یہ مقامی اور غیر مقامی ہیرو کیا ہوتا ہے۔ یہ ہم نے اپنے دل کے کعبے میں کیا لات و منات سجا رکھے ہیں۔ اس تقسیم سے تو ہیرو کی حیثیت ہی دو ٹکے کی ہو جاتی ہے۔ آپ کو ارطغرل پر ڈرامے پر اعتراض ہے کہ وہ غیر ملکی ہے اور ساتھ ہی مقامی ہیرو کی تلاش ہے۔ بتا دیجیے، آپ کا مقامی ہیرو محمد بن قاسم ہے یا راجہ داہر۔ اسی سے پتہ چل جائے گا کہ آپ کا ذہن کیا ہے۔

مجھے یاد آیا سندھ میں ایک انقلابی ہوا کرتے تھے فاضل راہو۔ وہ بڑے پراسرار انداز سے قتل کر دیے گئے۔ ان کی تعزیت کے لئے ملک قاسم پنجاب سے تشریف لائے ملک صاحب اس وقت مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے سربراہ تھے۔ انہوں نے وہاں خطاب کرتے ہوئے مظلوم مزارعوں کو للکاراکہ وزیر شاہی اور فیوڈ الزم کے خلاف مرحوم کے مشن کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ اگلے روز ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کا ایک بیان چھپا کہ ملک صاحب سندھ میں آ کر یہاں کے عوام کو سندھی زمینداروں کے خلاف مت اکسائیں، اپنے کام سے کام رکھیں۔ وہ ایوب کھوڑو کی بیٹی تھیں، مگر باہر سے پڑھی ہوئی تھیں۔ غالباً تاریخ میں پی ایچ ڈی تھیں۔ ان کے منہ سے یہ بات سن کر میں سناٹے میں آگیا۔ اگلے روز کراچی کی ایک تقریب میں مل گئیں۔ عرض کیا کہاں گئی آپ کی لبرلزم اور انقلاب دوستی صرف مسکرا کر رہ گئیں۔

مجھے نفیسہ شاہ سے بھی یہ توقع نہ تھی۔ بظاہر ان کا امیج ایک پڑھے لکھے سیاستدان کا ہے۔ ٹی وی سکرین پر بھی وہ ایک سنجیدگی کا تاثر دیتی ہیں۔ انہیں ارطغرل کے کردار پر اعتراض کیا ہے؟ میں تو اپنی نالائقی یا سستی کی وجہ سے آج کل ڈرامے دیکھ نہیں پاتا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان خاں کے والد کی تاریخ کو ترک فلمساز نے بڑی کاوشوں کے ساتھ لکھ کر نکالا ہے۔ اور اس کا سکرین پلے بھی اسی طرح لکھا ہے کہ اس میں بڑے تخلیقی انداز میں شعائر اسلام کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اسمائے صفات کا ورد ہوتا ہے، نماز کو بڑے تخلیقی انداز میں دکھایا گیا ہے۔ ارطغرل کچھ "بابوں " سے ملتے اور راز و نیاز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بابے رجال غیب یا ابدال وقت ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے صوفی مفکر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا ان سے رابطہ میں دکھایا گیا ہے۔ بھلا یہ باتیں انہیں کیسے ہضم ہوتیں۔ مرے لئے یہ ماننا مشکل ہے کہ میں خلافت اسلامیہ کی تاریخ کو غیر تہذیب سمجھوں اور بالی وڈ کی فلموں میں پوجا پاٹ کو تخلیق کا اظہار کہوں۔ میں موہنجودارو سے نکلا ہوا انسان نہیں ہوں، اگرچہ ہڑپہ کے پڑوس میں پروان چڑھا ہوں۔ مرے بارے مرحوم سراج منیر نے ہجرت کے فیصلے کو یوں بیان کیا تھا کہ جنہوں نے جغرافیے سے جغرافیے میں ہجرت کی ہے۔ وہ پناہ گیر ہیں اور بھلے سے پاکستان کے قیام کو مختلف پیمانوں سے جانچیں، مگر جنہوں نے تاریخ کے ساتھ جغرافیے سے جغرافیے میں ہجرت کی ہے وہ نئی ریاست مدینہ کے مہاجر ہیں۔

تو ہے اک ہجرت کدہ شہر مدینہ کی طرح

میں کہا کرتا تھا کہ میں ساہیوال کا رہنے والا ہوں ایک ہاتھ اٹھاتا ہوں تو ہڑپہ پہ پڑتا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھوں تو سامنے بابا فریدؒ کا مزار نظر آتا ہے اور دوسری طرف دیکھوں تو دیپالپور کی عظیم سلطنت ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو میری تہذیب و تاریخ کا حصہ ہے۔ احمد خاں کھرل ہے، ملکہ ہانس کی وہ مسجد ہے جہاں بیٹھ کر وارث شاہ نے ہیر لکھی تھی۔ یہ سب میری تاریخ ہے اور میں اس کا حصہ ہوں۔ میری پشت پر بنو امیہ کی فتوحات بھی ہیں۔ عباسیوں کی علمی کاوشیں بھی ہیں۔ عثمانیوں کی حریت پسندی بھی ہے اور مغلوں کا شکوہ بھی ہے۔ میں کسی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ جو لوگ خود کو جغرافیے میں محدود کرنا چاہتے ہیں وہ اس طرح حمیدہ کھوڑو اور نفیسہ شاہ کی طرح تنگ نظری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ علاقائی اور مقامی شاونزم اسی طرح پیدا ہوا کرتے ہے۔ کیا خیال ہے ترکوں پر آپ سے کم سیکولرزم اور لبرل ازم بیتی ہو گی۔ انہوں نے اس میدان میں طویل جنگ لڑی ہے۔ قربانیاں دی ہیں۔ وہ جن مراحل سے گزرے ہیں، اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اپنے آپ کو تنگنانے میں بند نہ کرو، سکڑ کر رہ جائو گے۔ میں ہندوستان میں اجمیر شریف، تاج محل اور بستی نظام الدین کو اپنی تہذیبی میراث سے کاٹ نہیں سکتا چاہے جغرافیائی طور پر وہ آپ کاحصہ نہیں ہیں۔ اس طرح میں کیسے عثمانیوں کی حریت پسندی سے منکر ہو سکتا ہوں۔ حیرانی کی بات ہے جو لوگ لبرل، سیکولر اور ترقی پسند بنتے ہیں، بلکہ جمہوریت دوست کہلاتے ہیں، وہ کن تنگ نظریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بات کو دور تک لے جانا مناسب نہیں ہے۔ ضرورت ہوئی تو یہ بھی کر لیں گے۔ یہ سب سیاست کی دین ہے کہ ہم قوم پرستی اور شاونزم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وگرنہ تہذیبی انسان تو تاریخ کے گہرے پانیوں میں اتر کر موجیں مارتا ہے۔

ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا میں شخصیت پرستی یا ہیرو ورشپ کا قائل نہیں ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کو حضورؐ کی سیرت اور اسوہ حسنہ سے جو عشق ہے، اس میں کسی کو غلط فہمی ہو جائے کہ ہم ہیرو ورشپ کے قائل ہرگز نہیں۔ مسلمان تو اس بات سے چڑتے ہیں کہ انہیں محمڈن کہا جائے۔ انگریز نے بہت کوشش کی، مگر بات چل نہ پائی۔ اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جو وحی کے تصور کا قائل ہو، صرف وہی اندازہ کر سکتا ہے کہ اسلام میں نبی اور رسول کا تصور کیا ہے اور نبوت سے وابستگی دراصل توحید تک پہنچنے کا دروازہ ہے۔ وحی سے حاصل تعلیمات کی رہنمائی کے لئے قرآن کے بعد جو اہمیت نبی کی ذات اور سیرت کو حاصل ہے، اس کا مفہوم تخلیقی سطح پر سمجھے بغیر آپ جان نہ پائیں گے کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ ہم بتوں کو نہیں پوجتے، مگر زندگی کے درست راستے پر رکھنے کے لئے اس لائحہ عمل پر چلتے ہیں جو ہمیں وحی الٰہی کے ذریعے سکھایا گیا ہے اور اس لائحہ عمل پر چلنے کے لئے لازم ہے کہ ہم رسولؐ کی محبت کا دامن تھامے رہیں ہمارے ہاں حضورؐ کی زندگی کو قرآن کی عملی تفسیر کہا گیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ہماری زندگیوں میں ہڑپہ، موہنجو داڑو یا ٹیکسلا کے جو اثرات ہوں گے، وہ کہیں دور گہرائی میں ہوں گے۔ یہ سب تاریخ کے وہ نقش قدم میں جن پر پائوں رکھ کر ہم آج یہاں تک پہنچے ہیں۔ اس ملک کلچر اور تہذیب کی یہ بحث کئی بار ہوئی ہے۔ بھٹو صاحب کی آمد پر بھی بڑی دھوم دھام سے ہوتی تھی جس میں آپ نے اپنے بڑے بڑے جغادری جھونک دیے تھے۔ ہر بار یہ بحث پٹ جاتی ہے، مگر ہم تازہ دم ہو کر دوبارہ آنے لگتے ہیں۔ آئیے، بسم اللہ، ایک بار پھر سہی، ہم حاضر ہیں۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam