یہ صناعی
مرکزی ہال میں اس بار ادبا و شعرا کے بجائے متاثرین ادب پہ نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سٹیج پہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ انتظامیہ کے انتہائی ذہین افراد نے طے شدہ مقامات کی باہمی تبدیلی سے یہ مسئلہ بخوبی سلجھا لیا تھا۔ اب صورت یہ تھی کہ چند سامعین سٹیج پر براجمان نیچے ہال کی کرسیوں پر بیٹھے مہمانان گرامی کو گن بھی رہے تھے اور سن بھی۔
کئی مواقع پر نیم ذہین افراد سنی ان سنی بھی کرتے پائے گئے۔ جس پر بار بار متاثرین ادب کی جانب سےreminderبھیجے گئے کہ سامعین توجہ فرمائیے۔ کئی بار خصوصی توجہ کے ہارن بھی بجائے گئے۔ یہ اعلان بھی ہوتا رہا کہ پروگرام کے اختتام تک توجہ کی کمی کو مذہبی کم زوری تصور کیا جائے گا۔
سامعین و حاضرین اب اپنا اپنا ایمان سنبھالے اسے بچانے کی کوشش میں تھے۔ ایک صاحب اچانک ہڑبڑا کر اٹھے اور سٹیج یعنی ہال سے بھاگنے لگے تو میزبان نے روک لیا۔ انھیں جانے کی اجازت صرف اس شرط پر ملی کہ وہ مذہب کو کسی محفوظ مقام پر رکھ کر واپس ضرور آئیں گے۔ تا کہ دوسروں کے مذہب کو بھی توانائی فراہم کی جا سکے۔ کفر و الحاد کے تمام گانے اور موسیقی ممنوع قرار دی گئی۔ اور "تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے" کی بجائے "آ سینے نال لگ جس ٹھاہ کرکے" پر اکتفا کیا گیا۔ یوں سب نے اپنا اپنا نام گروہان ادب میں رقم کروانے کی سعی کی۔
سب سے پہلے شاعری سے محبت کرنے والے افراد کو ایک ایک کرکے اظہار کی دعوت دی گئی۔ یہ دعوت ایسی ہی تھی جیسے شادی میں کھانا کھلنے کی نوید ہوتی ہے۔ اور اظہار خیال میں دیگیں لڑھکتی پائی گئیں۔ سمجھ میں یہ ہی آ سکا کہ شاعری عین عبادت ہے اور ہر وقت تسبیح ہاتھ میں نظر آنا چاہیے۔ یہ اقوال زریں اتنا مشہور ہوا کہ ادب سے سیاست تک، درویشی سے گداگری تک اور شاہین سے گدھ تک پھیل گیا۔ دریا و سمندر حیران تھے، صحرا ششدر کہ آخر اس نمائش میں اتنی جان کہاں سے آئی کہ ذرے پہاڑ دکھائی دینے لگے۔
خیر یہ خبر تحیر غم تو جنون کو بھی مات دے رہا تھا۔۔ روداد کو وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ ایک صاحب اپنی آپ بیتی کا کچھ حصہ نذر آتش اوہ سوری "نذر سامعین" کر رہے تھے۔ صاحب کتاب نے بتایا کہ وہ دو سال کے تھے جب سے وہ مصوری کا ذوق رکھتے ہیں۔ پورے دو سال کی عمر میں پہلی بار انھوں نے فیڈر کی تصویر بنا کر والدہ سے دودھ کی فرمائش کی۔ والدہ تو نہال ہوگئیں۔
اس زمانے میں فیس بک نہ تھی ورنہ والدہ انھیں فیڈر دینے سے پہلے تصویر فیس بک پر آپ لوڈ کرتیں۔۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے آبائی گھر سے ہی اشعار سارے شہر میں تقسیم کیے جاتے تھے اور ان اشعار پر ہی اس لڈو کا محاورہ تخلیق ہوا تھا جسے بعد میں شادی کے لڈو سے موسوم کیا گیا۔ قلیل سامعین کی واہ واہ کی چیخوں سے ہال کی دیواریں لرز رہی تھیں۔ ایک صاحب نے صرف تصویری آپ بیتی پیش کی۔ ان کی presentation لاجواب تھی۔
غالب سے اقبال تک اور شیکسپیئر، گوئٹے، ملٹن کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ان کی تصاویر نے ہنگامہ خواہشات برپا کر دیا تھا۔ انھوں نے غالب کے وہ اشعار بھی سنائے جن کے متعلق وہ دعویدار تھے کہ غالب نے یہ اشعار ان کے پڑدادا کو تحفے میں دیے تھے اور اب وہ ہی اس تصویری گنج گراں مایہ کے تن تنہا وارث تھے۔ اس امتیاز سے حاسدین کے چہرے اتر گئے۔ کاش ان کے پڑدادا بھی غالب کے دوست ہوتے تو آج وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکتے اور یہ شعر پڑھتے۔
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
ایک صاحب نے شعر نذر کرنے کے بجائے "معاشی نذر" پر توجہ مرکوز کرنے کی اہمیت جتلائی۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ لگتا تھا کہ پریم چند کے افسانے "ادیب کی عزت " میں بھیrenovation کی ضرورت ہے۔ اور حضرت قمر اپنے دعوی میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ انھوں نے وہ تخلیق لکھ ڈالی ہے جس کے سب منتظر تھے۔ اپنی اپنی ڈفلی کے تحت متاثرین ادب نے متفقہ طور پر زمانہ عصر کے شعرا و ادبا کی لسٹ نہ صرف جاری کی۔ بلکہ سنہرے حروف کے نام سے اس کے کارڈز بھی چھپوائے گئے۔ چلتی پھرتی اور ناچتی دروغ گوئی نے چائے کے کپ میں طوفان اٹھا رکھا تھا۔
متاثرین ادب کو ادب اور بے ادبی میں حد فاضل نے کہیں کا نہیں رکھا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے نصابی کتب کی ری سائیکلنگ کے عمل میں متن کی طرف کسی کی توجہ تک نہیں گئی اور صفحات کو آگے پیچھے کرنے کو نئے نصاب سے موسوم کیا گیا۔ مغربی اصول اس تبدیلی کے بھتہ دار تھے۔ یوں سمجھیے متاثرین ادب اور متاثرین سیاست کے پاس ایسا شوربہ تھا جس میں نمک مرچ بھی ملائی جاتی تو تصویر آلو گوشت کی لگتی۔ کچھ بھی کہیے دفاعی مورچے مضبوط ہیں اور دفاعی امداد سے لیس بھی۔
قلم کو مسواک اور لاٹھی بیک وقت استعمال کرنے کی خصوصی اجازت بھی فراہم کی گئی۔ قلم سے کیا کام لیے گئے اس میں گدی نشینوں اور پردہ نشینوں کے نام صرف بیٹری والے بلب سے ہی جگمگائے جا سکتے تھے۔ حقیقت اب ننگی نہیں، شفاف تھی اور رنگ بدل کر صناعی کی تخلیق میں مگن تھی۔