یک طرف جلتا ہے دل اور یک طرف جلتا ہوں میں
چھوٹا سا بچہ بہت ہشیار تھا ہر بات کا پٹاخ سے جواب دیتا، کئی بار تو یہ جوابات تہذیب کے تقاضے بھول جاتے، لیکن بزرگوں کا گروہ ہر جواب پر کھکھلا کر ہنس دیتا۔ یہ وہ چھوٹے پٹاخے ہیں جن کو ایٹم بم کا پرمٹ دیا گیا تھا۔ خاندان میں کسی کو برا بھلا کہنا ہوتا، رشتہ داروں کو طعنہ مارنا پڑتا یا کسی کا ٹھٹھااُڑانا ہو، یہ چھوٹے پٹاخے خوب میدان سنبھالتے ہیں۔ کہاوت اپنا چولا بدل چکی ہے کہ گُڑ سے مرنے والوں کو زہر کی کیا ضرورت۔
یہ چھوٹے پٹاخے اسی لیے تو تخلیق کیے جارہے ہیں۔ نیم مُلّا کے فتووں پر تنقید کرنے والے بزرگ "چھوٹے پیر"کے ہاتھ چومنے لگتے ہیں۔ موسیقی اور رقص کو حرام کہہ کر چیخ پکار کرنے والے چھوٹے پٹاخوں کی ہر ادا پر ہنس پڑتے ہیں۔ چھوٹے پٹاخوں کو اتنا چارج کیا جاتا ہے کہ انھیں بم بننے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اسے جدت کے تقاضے کہیے یا ذہنی کم زوریاں۔ شر پسندی دھیرے دھیرے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ زمانے کو قیامت کی چال کہہ کر دوڑنے والوں میں دھیرے دھیرے ایٹم بم کی خصوصیات شامل ہوتی جا رہی ہیں۔ ہونہار بروا کے چکنے پات، ٹک ٹاکر بن کر معاشرت اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں انقلاب لانے پر مصر ہیں اور بچوں کے بچپن کی محرومیوں پر بات کرنے والے دانشور خاموش تماشا دیکھ رہے ہیں۔
آنکھ جو دیکھ رہی ہے وہ لب پہ آنا دشوارہے، لیکن حیرت نہیں کہ دنیا کس طرف جا رہی ہے۔ یہ سب ٹک ٹاک کے بونے پُر جوش ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ بارود بننے کے لیے آتش گیر مادہ جننا پڑتا ہے۔ وہ رویّوں اور شعورمیں گندھک، کوئلہ اورپوٹاشیم نائٹریٹ کی راکھ کر دینے والی تاثیر پیدا کرتے ہیں۔ ویسے تو بارود، پوٹاشیم نائٹریٹ اور کوئلہ ملانے سے بھی بارود بن سکتا ہے مگر سلفر کے بغیر اس کی توانائی ناتواں رہتی ہے۔
پہلے انسانوں کو سبق سکھانے کے لیے بارودی طاقت ضروری تھی، اب ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بارود کی یہ شکل ٹک ٹاک کی صورت میں رائج ہو چکی ہے۔ حال ہی میں ٹک ٹاک ایپ پر پابندی کا بل امریکی ایوانِ نمائندگان سے باآسانی منظور ہو چکا ہے۔ اگر ہم تھوڑا غور کریں تو اس کے دُور رس نتائج سمجھ آ سکتے ہیں۔ دراصل یہ دو طاقتوں کی لڑائی ہے۔ ایک طرف امریکہ ہے اور دوسری جانب چین۔ ان کے درمیان پرورش پانے والی اسرائیلی ریاست ہے جسے کھلم کھلا نہ سہی، ٹک ٹاک پر ضرور مزاحمت کا سامنا ہے۔
یہ صورتِ حال تو تھی اہلِ مغرب کو درپیش مسائل کی جس میں بڑی بڑی طاقتیں برسرِپیکار ہیں۔ اب آتے ہیں اہلِ مشرق کی جانب جہاں بارود کی یہ قسم بونوں کے ہاتھ لگ چکی ہے۔ ہمیں غزہ اور فلسطین سے کوئی سروکار نہیں۔ آئی ایم ایف کی امداد کو ترستے ہوؤں کے لیے یہ جملہ کافی ہے۔ دور موئی تجھے اپنی روٹی ٹکیہ سے مطلب۔ ہم تو اپنی نوخیز نسل کو نہیں بچا سکتے، جن کے ہاتھوں میں فیڈر کے بجائے موبائل ہوتے ہیں۔ ایٹم بم بنانے پر پابندی ہے لیکن"آئٹم بم" کی صنعت زوروں پر ہے۔ چھوٹے غبی دماغوں کی بن آئی ہے۔ نہ پرمٹ کی پابندی۔ نہ ingredients کی چیکنگ اور نہ ہی وقت اور مقام کی قید و بند کی صعوبتیں۔
ہاتھ میں پتھر اور دماغ میں بحیرہ مردار کے اثرات لیے چھوٹے بڑے پٹاخے جہاں جی چاہتا شعلہ جلا دیتے ہیں۔ ایسی انارکی! سوری انار پھوٹتے ہیں کہ خلقت اپنی اپنی وال پر شئیر کرکے ثواب حاصل کرنے میں سبقت لے جانا چاہتی ہے۔ ایک جیسے پٹاخے بھی الگ الگ خصوصیات سے لبریز ہیں۔ کوئی گا کر، کوئی شعر پڑھ کر، کوئی جہالت بھری دانشوری انڈیل کر، کوئی رو کر اور کئی پٹاخے تو نقاب تلے پھوٹتے رہتے ہیں۔۔ کون جیتا ہے، کون مرتا ہے، یہ سوال بے معنی ہے۔ اب سبسکرائب کی آپشن پہ تماشائی لپکتے ہیں۔ تماشا بجھ رہا ہے اور تماشائی سہ طرفہ جلن میں مبتلائے داغ ہیں۔ بقولِ غالب ؔ
شمع ہوں لیکن بپا در رفتہ خارِ جستجو
مدعا گم کردہ ہر سُو ہر طرف جلتا ہوں مَیں
ہے مساس دستِ افسوس آتش انگیز تپش
بے تکلف آپ پیدا کرکے تُف جلتا ہوں مَیں
ہے تماشا گاہِ سوزِ تازہ ہر یک عضو تن
جوں چراغانِ دوالی صف بہ صف جلتا ہوں مَیں
دروازے کھلے ہیں۔ بیڈ روم سے باتھ روم تک حملہ آور جو چاہے اُٹھا سکتے ہیں۔ تباہ شدہ انفراسٹرکچر پر مزید سبسکرائبر کی گنجائش موجود ہے۔ عوام الناس کے سامنے یہی روشنی ہے جس سے چولہا بھی جلتا ہے اور کاروبارِ زندگی بھی۔ عوام ہے تو وہ بارودی سرنگ بن چکی ہے۔ جس کسی کا پاؤں مجمع کے پاؤں پر پڑتا ہے وہیں یہ بارود پھٹ جاتا ہے۔ زندوں کو مرنے والے کا احساس نہیں اور مرنے والے زندوں میں شمار نہیں ہوتے۔ صبحِ بے نور میں اتنی طاقت کہاں کہ روشنی کا سامنا کر سکے۔ دل کے آبلوں کی طرح ہر روز کوئی چھوٹا پٹاخہ پھوٹ جاتا ہے اور سماجی رویّوں کی کرچیاں گردو پیش کو لہولہان کرتی رہتی ہیں۔