اجالا حضور کا، ڈاکٹر ایوب ندیم
سیرت پاک ﷺ عشق کا وہ زاویہ ہے جس کی رنگینیء تفسیر ہر زینے اور گوشے سے جدا جدا ہے۔ عشق محمد ﷺ کے مختلف رنگ نعت گوئی سے منسلک ہیں جسے فن شاعری کا نگینہ کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک بیش قیمت نگینہ کا نام "اجالا حضور کا" ہے۔ یہ سعادت ڈاکٹر ایوب ندیم کے حصہ میں آئی ہے جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ "در مصطفی سے لو لگائی تو نعت پہ نعت ہونے لگی۔ جب بھی نعت کہتا، سرشاری کا ایک عجب روح پرور احساس ہوتا"۔
دنیا کی آرزو ہے نہ عقبیٰ کی ہے طلب
خوش ہوں کہ لکھ رہا ہوں میں مدحت حضور کی
ڈاکٹر ایوب ندیم جیسی درویش صفت شخصیت باریک بیں شعور سے اس نظر عنایت پر شکر گزار ہیں جن کے صدقے اس کائنات کی تخلیق ہوئی۔
سر عرش بریں کس نے کہا، صلی علی
خدائے لم یزل کی ہے عطا، صلی علی
ہے ان کا امتی ہونا مرا تاج شہی
وہ ہیں خیر البشر، خیر الوری، صل علی
عشق رسول ﷺ وہ سعادت ہے جس کی بدولت زندگی و کائنات کا صحیح فہم نصیب ہوتا ہے۔ یہ وہ لو ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ عشق محمد ﷺ کی شمع انسانیت کے ظاہری و باطنی گوشوں کو منور رکھتی ہے۔ ڈاکٹر ایوب ندیم اس مستقل محبت سے سرشار نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خود بیان کرتے ہیں۔ "میرے لیے یہ مجموعہ سبد گل کی طرح ہے، جس میں، میں نے گل ہائے عقیدت جمع کرکے بارگاہ رسالت مآبﷺمیں پیش کر دیے ہیں، یہی میری زندگی کا کل سرمایہ ہے کیوں کہ اسی سے میرے دل کو زندگی اور ذہن کو تازگی ملی ہے"۔ ان کے نزدیک
مدحت مصطفی ضروری ہے
ورنہ یہ زندگی ادھوری ہے
یہ حقیقت ہے کہ سیرت رسول ﷺ کو مربوط کرنا یا واقعات کی توجیہہ کرنا انسانی دماغ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ یہ ہنر نہیں، عشق ہے۔ محبوب خدا سے عشق۔ سیرت مبارک سے عشق۔ تخلیق کائنات کی بنیاد سے عشق اور اللہ کی محبت کے منتظر دلوں کے لیے راہ کامرانی۔ جمال مصطفی ہو، سیرت مصطفی ہو یا عہد رسالت ﷺ کی خوش بو۔ طمانیت اسی دل کو ملتی ہے جو چاہ مصطفی سے سرشار اور اس محبت میں بے قرار ہو۔ یہ وہ توفیق و سعادت ہے جو بنجر زمین پر آبشار بنا دیتی ہے۔ استاد محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے الفاظ میں، "خداوند قدوس جس سے خوش ہوتا ہے، اسے یہ توفیق حاصل ہوتی ہے"۔
ڈاکٹر صاحب یہ حقیقت سمجھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے عشق ہم پر بیش بہا رحمت خداوندی کا مظہر ہے۔ یہ عشق کائنات کا منبع ہے جس کی تاثیر سے تاحد نظر اور نظر سے باہر زمینوں پر گل و گلزار کی وسعت پھیل جاتی ہے اور انسانیت اس مقدس پیغام کے ابدی اثرات سے مالا مال رہ سکتی ہے۔ یہ مقدس انقلاب جس کے بطور امتی ہم پاسباں ہیں، رحمتوں سے شرابور ہے۔ ڈاکٹر ایوب ندیم وجہ کائنات اور تخلیق کائنات کی غایت کے حضور الفاظ کے نگینے نعت کی صورت پیش کرتے ہیں۔
صراط زندگی مشکل ہے، لیکن رہنما وہ ہیں
درخشاں جس سے یہ دنیا ہوئی، نور حرا وہ ہیں
حرا میں جو دیا تو نے جلایا
اسی سے یہ جہاں روشن ہوا ہے
مرے آقا! جسے تو نے چھوا تھا
وہ اک پتھر زمانا چومتا ہے
ڈاکٹر ایوب ندیم نے اعلی معاشرتی اقدار و تربیت کے لیے حضور ﷺ کی سیرت مبارک کو پیش کیا ہے۔ جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اوصاف حمیدہ سے سجا ہے۔ ان کی نعت میں عہد رسالت کا منظر نامہ ہے جوتا قیامت ہر دور اور خاص طور پر دور حاضر کے مسلمانوں کے لیے زندگی کی دائمی کامیابیوں کے لیے ہدایت نامہ ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں"ایوب ندیم نے اپنی نعت میں سیرت پاک کے عملی پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھی ہے اور اپنے بیشتر افکارو موضوعات سیرت پاک اور عہد رسالت سے اخذ کیے ہیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو جب وہ دور حاضر کے مسلمان کی انفرادی یا ملت اسلامیہ کی اجتماعی حالت زار پر نظر ڈالتے ہیں تو مضطرب ہو جاتے ہیں اور بارگاہ رسالت میں دردمندی کے ساتھ استغاثہ پیش کرتے ہیں۔ ایسی نعتوں میں ان کا کرب اجتماعی دکھ کی صورت اختیار کر لیتا ہے"۔
جو تجھ کو چھوڑ کے رب ڈھونڈے، اس مورکھ کو معلوم نہیں
رب نے تو اپنی مرضی بھی تیری مرضی کے ساتھ لکھی
ڈاکٹر ایوب ندیم عشق رسول ﷺ کو لفظی اظہار تک محدود نہیں سمجھتے ان کے نزدیک یہ عملی محبت ایک بہترین معاشرہ کی تشکیل کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ جہاں باہمی تعاون و تناظر موجود ہو جس کے لیے ضبط و ایثار کے ان زاویوں کی پیروی ہونا ضروری ہے جس کا سبق سیرت پاک ﷺ میں موجود ہے۔
قدم شل تھے، لہو رسنے لگا نعلین سے
انھوں نے پھر بھی دی سب کو دعا، صل علی
اسی ضبط و ایثار کی پیروی سے انسان اپنی ذات سے آگے بڑھ کر نوع انسان سے محبت سیکھتا ہے۔ لہذا اس، حقیقت کو اصول سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی کی تکمیل کا راز، اپنی ذات سے ماورا عشق رسول کی پناہ میں ہے۔ تفسیر قران سے تکمیل انسان کی رہنمائی کی ایک ہی صورت ہے۔ ایک ہی رستہ، ایک ہی زینہ اور وہ نگینہ ہے عشق محمد ﷺ۔ ڈاکٹر ایوب ندیم نقاد و محقق بھی ہیں اور غزل کے عمدہ شاعر بھی۔ انھوں نے نعت گوئی میں بھی تاریخ کے مطالعہ سے مدد لی ہے۔ یہ محبت و عقیدت دلی کیفیات سے معمور ہے۔
وہ دل جس میں مرے آقا بسے ہیں
وہ دل اب دل نہیں، غار حرا ہے
انھوں نے رسول کریم ﷺ کی زندگی کے واقعات انتہائی عظمت و تکریم کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ ہر شعر طمانیت قلب سے گندھا ہے۔ کہیں دور نبوت کے واقعات کی جھلک ہے، کہیں معجزات نبوی کا ہدیہ۔
جھک گئے پیڑ عاجزی کے ساتھ
پاس جب صاحب وقار آئے
تو نے جسموں پہ نہیں، روح پہ مرہم رکھا
اے مسیحائے جہاں ! تیری مسیحائی ہے
عشق محمدﷺ کی تڑپ تکرار کے ساتھ ہر ایک شعر میں عیاں ہے اور "اجالا حضور کا " کی صورت جگمگا رہی ہے۔