دنیا پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری

اس وقت دنیا کا 33 فیصد رقبہ مسلمانوں کے زیر اقتدار ہے۔ مشرق میں انڈونیشیا سے لے کر مغرب میں مراکش تک مسلم ملکوں کا طویل سلسلہ ہے۔
افغانستان جس پر طویل عرصہ سے سامراجی طاقتیں یلغار کرتی آرہی ہیں معدنیات سے مالا مال ملک ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے پہاڑوں میں ایک لاکھ ٹن سونا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں بالخصوص ہائیڈروجن بم بنانے کے لیے میتھٹم کی ضرورت پڑتی ہے۔ افغانستان مستقبل میں دنیا کا واحد ملک ہوگا اور دنیا کے کسی اور ملک کے پاس میتھٹم نہیں ہوگا۔ اسی طرح افغانستان میں ٹائی ٹینیم کی بھی وافر مقدار پائی جاتی ہے جو میزائل بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔
افغانستان کے کل چھ لاکھ مربع میل رقبہ میں ایک لاکھ مربع میل سے زائد زرعی زمین ہے جس میں پھل، خشک میوہ جات، انار، انگور، سیب اور خوردنی تیل کی کاشت ہوتی ہے۔ کاپر کے ذخائر دنیا بھر میں سب سے زیادہ افغانستان میں ہیں۔ افغانستان میں 71مقامات ایسے ہیں جہاں لوہے کے دس ارب ٹن سے زائد ذخائر ہیں۔ گیس بھی وافر مقدار میں ہے۔ روس نے افغانستان پر اپنے قبضہ کے دوران اربوں ڈالر کی گیس نکالی تھی اس کے باوجود قدرتی گیس کے ذخائر اس قدر زیادہ ہیں کہ سیکڑوں سال استعمال کے باوجود ختم نہیں ہوں گے۔
صومالیہ ایک چھوٹا سا غریب ملک ہے۔ لیکن وہاں بھی یورینیم، آئرن، ٹن اور جپسم کے ذخائر ہیں۔ الجزائر بھی قدرتی ذخائر سے مالا مال ملک ہے۔ لوہا، تیل، گیس، زنک وغیرہ کی بھرمار ہے۔ سوڈان میں کیلشیم، تانبہ، پیٹرولیم مصنوعات کافی مقدار میں موجود ہیں۔ اسی طرح انڈونیشیا میں تیل، تانبہ، گیس اور خام تیل کے ذخائر وافر مقدار میں ہیں۔ پھر عام معدنیات سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ نے مسلم ممالک کو سیال سونے (پیٹرولیم) سے مالا مال کر دیا ہے۔ اس وقت صنعتی ترقیات کا سارا انحصار پٹرول پر ہے جس سے عرب ممالک لبالب ہیں۔
دنیا میں اس وقت تیل پیدا کرنے والے 11 بڑے ممالک میں سے دس مسلم ممالک ہیں۔ الجیریا، انڈونیشیا، ایران، عراق، کویت، لیبیا، نائیجریا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور وینزویلا۔ سعودی عرب کے پاس2 لاکھ 62ہزار 7 سو 47 ملین بیرل خام تیل کے ذخائر ہیں جبکہ کہ 6ہزار ایک سو 64بلین کیوبک میٹر قدرتی گیس ہے۔ وہ روزانہ 7 ہزار 5سو 48 بیرل تیل اور 64ہزار 2 ملین کیوبک گیس نکالتا ہے۔ سعودی عرب ہر سال 44ہزار 439 ملین ڈالر کا تیل فروخت کرتا ہے۔ سعودی عرب کے بعد تیل اور پٹرول ذخیرہ میں عراق کا نمبر آتا ہے۔
عراق میں ایک لاکھ 21 ہزار 5سو ملین بیرل تیل اور 3 ہزار ایک سو 88کیوبک میٹر گیس ہے۔ عراق پر امریکی یلغاریوں ہی نہیں ہوئی۔ امریکا عراق کا تیل ہڑپ کرنے کے لیے اپنے قبضہ کو طول دیتا رہا ہے اور اب بھی امریکی فوج کی بڑی تعداد عراق میں موجود ہے۔ ایران بھی تیل ذخائر میں نمایاں ملک شمار ہوتا ہے۔ اس کے پاس 39ہزار ایک سو ملین بیرل تیل اور 22ہزار 3 سو 70بلین کیوبک میٹر گیس ہے۔ الجیریا میں 11ہزار 5سو 10بلین کیوبک میٹر گیس ہے اور یہ ملک بھی تیل ذخائر سے مالا مال ہے۔
انڈونیشیا میں 4ہزار 980ملین بیرل تیل اور 4ہزار 4سو بلین کیوبک میٹر گیس ہے۔ افغانستان کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وہاں تیل کے آٹھ کنوئیں ایسے ہیں جن سے کئی سو سال تک تیل اپنے پریشر سے نکل سکتا ہے۔ کویت و قطر، دبئی، لیبیا میں بھی تیل کے وافر ذخائر ہیں۔ اس قدر قدرتی ذخائر کے باوجود آج عرب ممالک دنیا میں بے وزن ہیں ان کے اسلامی بھائیوں کے ساتھ مظالم ڈھائے جاتے ہیں مگر وہ اس کے خلاف اُف تک نہیں کر سکتے۔
اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ایک اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی خداداد دولت اور قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ قدرتی ذخائر تیل پٹرول سے وہ مالامال ہیں لیکن ان وسائل پر دوسری طاقتوں کا کنٹرول ہے۔ دوسرے ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا راج ہے۔ اس وقت سارے عرب ممالک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عرب ممالک کے قدرتی وسائل کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا بھر میں کس طرح اپنا جال پھیلاتی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف کاربونٹڈ واٹر کا کاروبار 2 سو ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ سال گزشتہ اس کمپنی کی مصنوعات کی فروخت کا اندازہ چھیالیس ارب ڈالر لگایا گیا۔ یہ کمپنی اسرائیل کے تعاون میں کس قدر پیش پیش ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1979ء میں اسرائیل نے اس کی خدمات کے اعتراف میں اسرائیل ٹریڈ ایوارڈ عطا کیا تھا۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں مسلم ممالک کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع سے اسرائیل سے تعاون کرتی ہیں۔ اسرائیل کے لیے دنیا بھر میں پروپیگنڈا کا فریضہ بھی یہی کمپنیاں ادا کرتی ہیں۔ فروری 2002ء میں کوکاکولا کمپنی نے منسوٹا یونیورسٹی کے اشتراک سے اسرائیل کی حمایت میں پروپیگنڈا کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم شروع کی تھی اس کے لیے ایک لیکچر کا اہتمام کیا تھا۔
یہ ساری بڑی کمپنیاں اسرائیل اور اسرائیل کے ہمنوا افراد کے زیراثر ہیں، ان کمپنیوں کی مصنوعات دنیا بھر کے مسلمان استعمال کرتے ہیں جب کہ یہ کمپنیاں اسرائیل کے زیراثر رہنے کے سبب اپنے منافع کا ایک حصہ اسرائیل کو ادا کرتی ہیں۔ سگریٹ اور کولڈ ڈرنک دنیا بھر کے مسلمان استعمال کرتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کی ساڑھے چھ ارب آبادی میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب ہے اور اس ڈیڑھ ارب آبادی میں چالیس کروڑ مسلمان سگریٹ نوشی کے عادی ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی سگریٹ ساز کمپنی فلپس مورس ہے جو یہودیوں کی ملکیت ہے۔ اس کے بارے میں ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ کمپنی اپنے منافع کا 21فیصد اسرائیل کو ڈونیٹ کرتی ہے۔ اس طرح مسلم دنیا سے 800ملین ڈالر روزانہ فلپس مورس کو جاتے ہیں جس میں کمپنی کا اوسطاً منافع دس فیصد یعنی 80ملین ڈالر یومیہ ہے اس کے 21 فیصد کے حساب سے 6.9 ملین ڈالر یعنی یومیہ 69 لاکھ ڈالر مسلمان صرف سگریٹ نوشی کی مد میں اسرائیل کو ادا کر رہے ہیں اس سے ہٹ کر کولڈ ڈرنک کی مد میں بھی روزانہ لاکھوں ڈالر اسرائیل کو مل رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر مسلم ممالک کب تک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجہ میں جکڑے رہیں گے۔ آخر کب تک ملت اسلامیہ وقتِ خواری کے دن کاٹتی رہے گی؟ آخر کب تک ہمارا اصل سرمایہ دشمنوں کے منصوبوں کے لیے استعمال ہوتا رہے گا۔ عالم اسلام کے معدنی ذخائر یا تو زمین میں دفن ہیں یا پھر ان سے دوسری اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو اپنے عیش و عشرت سے فرصت نہیں ہے۔
ان کے یہاں تو ملکی ترقی کا معیار بس یہ ہے کہ شاندار سڑکیں بن جائیں، شاپنگ کمپلیکس اور کھیل کود اور عیش و عشرت کے اسباب فراہم ہوں۔ سڑکوں پر ہمہ اقسام کاریں دوڑنے لگیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے یہ چیزیں معیار نہیں ہوتیں۔ ملک کی ترقی کا اصل معیار معاشی اور دفاعی طاقت ہوتی ہے۔ اس کے لیے مسلم ممالک کو تعلیم و ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دینی ہوگی اور ایسے ادارے اور افراد تیار کرنے ہوں گے جو ملک کے قدرتی وسائل کا بہتر استعمال جانتے ہوں۔