Sunday, 13 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Singapore Mein Guzre Teen Din

Singapore Mein Guzre Teen Din

سنگاپور میں گزرے تین دن

کچھ عرصہ قبل مجھے لاہور کے پی سی ہوٹل میں ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا جو آسٹریلین ایجوکیشن سسٹم کو سکول لیول پر یہاں متعارف کروانے کے حوالے سے تھی۔ پاکستان میں اس سے پہلے برٹش اور امریکن ایجوکیشن سسٹم متعارف ہو چکے ہیں اور گورنمنٹ اداروں میں اپنا تعلیمی سلیبس ہے لیکن اتنے الگ الگ تعلیمی نظام ہونے کے باوجود ہم دن بدن تعلیمی معیار میں نیچے سے نیچے جا رہے ہیں اور قومی اتحاد نام کی چیز بھی ہمیں ختم ہوتی جا رہی ہے۔

ہم اگر برادری سسٹم سے نکل بھی جائیں تو پنجابی، بلوچی، سندھی اور پختون قوموں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ میں چونکہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ ہم اپنے ہی ملک میں تقسیم در تقسیم کیوں ہو گئے؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب مجھے سنگاپور جا کر ملا۔

میں پچھلے سال فروری میں چند دوستوں کے ساتھ سنگاپور گیا۔ میں نے سنگاپور کی ترقی کے بارے میں سن تو رکھا تھا لیکن میں 718 مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل اس ملک کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سنگاپور کے پہلے وزیراعظم "لی کو آن یو" نے صرف تعلیمی شعبے میں مساوات اور پورے ملک میں ایک جیسا سلیبس بنا کر اپنی قوم کو متحد کر دیا۔ سنگاپور کے تمام اسکولز میں ہر کلاس میں مختلف مذاہب کے بچوں کو آبادی کے تناسب سے داخلہ دیا جاتا ہے تاکہ تمام بچوں میں مذہبی ہم آہنگی ہو اور کوئی اپنے مذہب یا فرقے کی بنیاد پر اپنے آپ کو دوسروں سے معتبر نہ سمجھے۔

سنگاپور چونکہ ایک چھوٹا سا ملک ہے اور آبادی زیادہ اس لیے لی کو آن یو نے سنگاپور میں سرکاری عمارتیں ورٹیکل اونچائی میں بنا کر ان عمارتوں میں بھی مختلف مذاہب کو آبادی کے تناسب سے آباد کیا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ تمام مذاہب کے لوگ کسی بھی عمارت میں اگر اکٹھے رہیں گے اور ایک دوسرے سے ملنا جلنا رہے گا تو یہ لوگ مذہب کی بنیاد پر الگ نہیں ہوں گے۔

آج سنگاپور حقیقی معنوں میں ایشین ٹائیگر ہے یہ ملک 1965ء میں آزاد ہوا، اس وقت یہاں کے لوگ بے روزگاری، غربت، کرائم اور ڈرگز کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے لیکن صرف 25 سالوں میں ایک شخص نے اس ملک کو عظیم ملک بنا دیا اور اس شخص کا نام تھا لی کو آن یو۔

سنگاپور سنسکرت زبان کا لفظ ہے جو دو لفظوں "سنگا" یعنی لائن اور "پورا" یعنی شہر سے مل کر بنا ہے، جسکا مطلب ہے شیر کا شہر۔ سنگاپور میں بدھ، عیسائی، مسلمان، ہندو اور اتھیسٹ لوگ زیادہ تعداد میں ہیں۔ صدیوں سے یہ آئل اینڈ تجارت کی وجہ سے مشہور رہا۔ یہاں ڈچ اور پرتگالی بھی قابض رہے اور انڈونیشیا کا مہاراجہ بھی۔ 1819ء میں انگریزوں نے یہاں قبضہ کیا اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک آفیسر تھامس رائفل (Thomous Raffles) نے سنگاپور کو خرید لیا اورایسٹ انڈیا کمپنی نے سنگاپور کو فری پورٹ بنا دیا، یہاں بحری جہاز تیل کے لیے رکتے تھے۔

1941ء تک یہاں کے لوگ بڑی تعداد میں افیون کے عادی بن چکے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 15 فروری 1942ء میں جاپانیوں نے سنگاپور پر قبضہ کر لیا اور یوں اگلے تین سال تک انہوں نے یہاں کے لوگوں پر بے انتہا ظلم کیا۔ 1945ء میں جاپانیوں نے جنگ ہاری اور یوں سنگاپور دوبارہ انگریزوں کے قبضے میں آ گیا لیکن اس وقت تک سنگاپور کے زیادہ تر لوگ نشئی بن چکے تھے۔ تمام عمارتیں ختم ہو چکی تھی اور لوگ عصرت کی زندگی گزار رہے تھے۔

سنگاپور کے لوگ برطانیہ کے زیرنگیں تھے لیکن وہ اس لیے خوش تھے کہ انگریزوں نے جاپانیوں کو شکست دی تھی۔ 1959ء میں سنگاپور میں الیکشن کے بعد لی کو آن یو ملک کا وزیراعظم بن گیا۔ شروع میں لی کو آن یو نے ملائشیا کے ساتھ ملنا چاہا لیکن ملائشیا کی پارلیمنٹ نے سنگاپور کی عوام کی حالت دیکھ کر اپنے ساتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ قصہ مختصر 1965ء میں سنگاپور ایک الگ ملک کی حیثیت سے جانا جانے لگا۔ لی کو آن یو نے سنگاپور کو دنیا کا عظیم ملک بنانے کے لیے کچھ ریفارمز کیں۔ اس نے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات اچھے کیے اور اس نے قانون پاس کر دیا کہ سنگاپور میں ہر ساڑھے 16 سال کا لڑکا ملک کا سپاہی ہوگا اور 18 سال کی عمر میں وہ آرمی کی ٹریننگ ضرور لے گا۔ اس نے سنگاپور میں پرائمری تعلیم لازمی قرار دے دی اور پریکٹیکل سکلز پر زور دیا۔ زیادہ تر عوام جن کے پاس گھر نہیں تھا ان کے لیے سرکاری عمارتیں بنوائیں اور لوگوں کو رہنے کے لیے فلیٹ دیے۔

1990ء میں ایک قانون پاس کیا گیا کہ آج کے بعد سنگاپور میں تمام مذاہب کے درمیان ہم آہنگی ہوگی۔ لہذا اس وقت سے ہر سال 21 جولائی کو سنگاپور میں مذہبی ہم آہنگی کا دن منایا جاتا ہے۔ لی کو آن یو نے ملک کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے 1968ء میں قانون پیش کیا کہ تھوک سے گندگی پھیلانے پر ایک ہزار سے 1500 ڈالرز تک جرمانہ ہوگا اور اسی طرح 1992ء میں چیونگم کھانے پر پابندی لگا دی گئی۔ ملک چونکہ چھوٹا تھا اس لیے ٹرانسپورٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے پورے ملک میں ذاتی گاڑی رکھنے پر بھی بھاری ٹیکس لگا دیا گیا تاکہ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سنگاپور میں قیام کے دوران میں نے ہر جگہ زیادہ تر الیکٹرک بسیں ہی دیکھیں یا لوگوں کو پیدل چلتے دیکھا۔

ہم 30 دوستوں کا گروپ ملائشیا سے بذریعہ روڈ سنگاپور میں داخل ہوا۔ ملائشیاء میں ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا تھا کہ سنگاپور کے لوگ وقت کے بہت زیادہ پابند ہیں اور آپ نے جب گروپ کی صورت میں اپنے گائیڈ کے ساتھ جانا ہے تو آپ نے کہیں بھی لیٹ نہیں ہونا ورنہ وہ آپ کا گائیڈ آپ کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائے گا اور اگلے دن ایسا ہی ہوا۔ سنگاپور کا سٹی ٹور کروانے کے لیے ہمارا گائیڈ جس کی عمر 76 سال کے لگ بھگ تھی وہ گاڑی لے کر صبح ساڑھے نو بجے ہوٹل پہنچ گیا لیکن ہم لوگ اپنےکچھ دوستوں کی وجہ سے لیٹ ہو گئے اور 10 بجے سٹی ٹور کے لیے نکلے، جس پر گائیڈ نے وارننگ دی کہ آپ لوگوں نے آدھا گھنٹہ ضائع کر دیا ہے۔ اس لیے میں اب آپ کو مقررہ مقامات میں سے ایک سیاحتی مقام پر نہیں لے کر جاؤں گا۔

بدقسمتی سے ہم پاکستانی وقت کی قدر نہیں کرتے کسی بھی کام میں دیر کر دینا ہماری عادت ہے لیکن سنگاپور میں اس گائیڈ نے 30 منٹ کی دیری بھی برداشت نہ کی کیونکہ سنگاپور کے لوگ وقت کو دولت سمجھتے ہیں۔ سنگاپور ایک چھوٹا سا ملک ہے جو 43x 23 کلومیٹر ہے۔ ہماری بس سنگاپور کی سڑکوں پر چل رہی تھی اور میں اس شہر کی بلند و بالا عمارتیں، ٹریفک کا نظام اور خوبصورتی دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ گائیڈ نے بتایا کہ سنگاپور میں ٹریفک کے قوانین انتہائی سخت ہیں، اگر کوئی ڈرائیور غلطی کرے تو اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور وہ جرمانہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ یہاں کوئی غلطی سے بھی غلطی نہیں کرتا۔

وہ گائیڈ ہمیں بتانے لگا کہ سنگاپور میں عام مزدور کی تنخواہ بھی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ہم جس بس میں سفر کر رہے تھے اس کے ڈرائیور کی طرف اشارہ کرکے اس نے بتایا کہ اس کی تنخواہ پاکستانی روپوں میں 15 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کے ایک مزدور بھی سنگاپور میں لاکھوں روپے کماتا ہے۔ سنگاپور کی سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے میں نے کہیں بھی کوئی اہلکار نہ دیکھا کیونکہ جگہ جگہ کیمرے نصب تھے اور ان کیمروں کی مدد سے پورے سنگاپور کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

گائیڈ نے ہمیں سنگاپور کی پارلیمنٹ کی خوبصورت بلڈنگ دکھائی اس نے ہمیں بتایا کہ سنگاپور میں وزیراعظم کے علاوہ 25 وزراء اور ان کے سیکرٹری ہوتے ہیں جو پورے ملک کے نظام کو دیکھتے ہیں۔ جبکہ ان وزراء کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ یہاں کوئی کرپشن کے بارے میں سوچتا تک نہیں لیکن اگر کوئی وزیر بدعنوانی کے الزام میں یہاں پکڑا جائے تو سزا اتنی سخت ہوتی ہے کہ وہ بجائے سزا بھگتنے کے وہ خود کشی کو ترجیح دیتا ہے۔

سنگاپور کے وزیراعظم کی تنخواہ بھی اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے وزرائے اعظم سے زیادہ ہے۔ میں نے ایک بات یہ بھی نوٹ کی ہے کہ ہر ملک کے بڑے شہروں میں کوئی نہ کوئی ایک عمارت ایسی ہوتی ہے جہاں سے پورے شہر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ لندن میں گولڈن آئی، استنبول میں گلاٹا ٹاور، سری لنکا میں ٹیولپ ٹاور اور باکو میں ایک بڑا گولڈ رنگ۔ اسی طرح سنگاپور میں بھی سمندر کے کنارے ایک بہت بڑا سرکل نما جھولا بنایا گیا ہے جس میں بیٹھ کر پورے سنگاپور کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے قریب ہی سنگاپور کا مشہور سیاحتی مقام موجود ہے جہاں ایک شیر کا بہت بڑا اسٹیچو بنایا گیا ہے۔ جس کے منہ سے پانی کا فوارہ نکل رہا ہے۔ یہ جگہ دراصل سنگاپور کی پہچان ہے۔ یہ جگہ سمندر کے کنارے پر ہے اور اس کے بالکل سامنے سنگاپور کا مشہور مرینہ ہوٹل ہے جس کی ٹاپ کو ایک مچھلی کی شکل میں بنایا گیا ہے۔

شاید ہی کوئی سیاح ہو جو سنگاپور آئے اور مرینہ ہوٹل نہ دیکھے۔ لیکن مرینہ ہوٹل میں قیام کرنا بہت مہنگا ہے، وہاں ایک رات قیام کے لیے کمرے کا کرایہ تقریباََ پاکستانی 60 لاکھ روپے کے قریب بنتا ہے۔ سنگاپور میں ہم نے چائنہ ٹاؤن بھی دیکھا جہاں تمام دکانوں پر بڑے بڑے ڈریگن بنائے گئے تھے۔ ان دنوں چونکہ چائنیز کی عید کی چھٹیاں تھیں اس لیے چائنہ ٹاؤن کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ سنگاپور میں ہم نے لٹل انڈیا کا علاقہ بھی دیکھا جہاں زیادہ تر انڈین کمیونٹی آباد ہے۔ وہاں میں یہ سوچ رہا تھا کہ کاش یہاں ایک علاقہ لٹل پاکستان کے نام سے بھی موجود ہوتا لیکن وہاں کوئی ایسا ٹاؤن موجود نہیں تھا۔

دوپہر کو جب ہم دن کا کھانا کھانے کے لیے اسکائی ٹاور کے قریب رکے تو میں نے اپنے گائیڈ سے پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں تو اس نے بتایا میرا ایک بیٹا ہے مگر سنگاپور میں اب نئی جنریشن شادی کرنا بھی پسند نہیں کرتی بلکہ وہ اب سنگل رہنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے سنگاپور کی مقامی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ یہاں بچے پیدا نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ بھاری ٹیکس بھی ہیں۔ اس ملک میں جہاں تنخواہیں بہت زیادہ ہیں وہیں ٹیکس کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔

سنگاپور میں میرا زیادہ تر وقت نامور موٹیویشنل اسپیکر علی عباس اور ساجد خان باطور کے ساتھ گزرا جو پاکستان میں ڈیو ٹرانسپورٹ کمپنی کے صدر ہیں، یہ دونوں شخصیات ہی بہت باکمال ہیں۔ یہ دونوں ہی چونکہ امریکہ، انگلینڈ، یورپ اور دیگر کئی ممالک کا سفر کر چکے ہیں اس لیے مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ سنگاپور واقعی ہی کمال ملک ہے جسے دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کوئی بھی معاشرہ یا ملک کیسے ترقی کرتا ہے۔

Check Also

Allah Taala Koo Khat Likhnr Ki Sachi Kahani

By Muhammad Saqib