Chalte Ho To Baku Chalte Hain (3)
چلتے ہو تو باکو چلتے ہیں (3)

آرائیول لاؤنج میں انکوائری کاؤنٹر پر خندہ پیشانی سے مسافروں کی رہنمائی کرتی دو خواتین سے موبائل فون سم کارڈ پوچھا تو انہوں نے ایک دوسرے کاؤنٹر کی طرف نشاندہی کی، وہاں جا کر دیکھا تو ایک لمبی لائن تھی، میں پہلے ہی تھکا ہوا تھا، سوچا پہلے ہوٹل چلتا ہوں۔
ڈیپارچر لاؤنج کا بیرونی دروازہ کھولتے ہی خوش گوار ہوا کے جھونکے نے استقبال کیا، ایک طرح ساری تھکن دور ہوگئی، یہاں کی آب و ہوا آلودگی سے پاک ہے، میں انگڑائی لی، لمبا سانس لیکر پھیپھڑوں میں تازہ آکسیجن بھری، سامنے ٹیکسی سٹینڈ میں جیمز بانڈ فلموں میں نظر آنے والی برٹش ٹیکسیوں جیسی ٹیکسیاں ترتیب سے کھڑی تھیں، یہ اندر سے بہت وسیع ہوتی ہیں، درمیانی سڑک کے پار ایک بس کھڑی تھی، آگے بڑھا تو بائیں ہاتھ روزا کی آواز نے مجھے چونکایا "ایش"، اُدھر نگاہ کی تو وہ ہاتھ ہلاتی نظر آئی، خوشگوار حیرت سے اسکی طرف قدم بڑھائے "تم؟ یہاں کیسے؟ ابھی تک گھر نہیں گئی؟"
اس کا جواب حیران کن تھا "تم نے اپنا نمبر نہیں دیا تھا"، میں تاسف سے بولا "تمہاری یہاں موجودگی کی مجھے توقع نہ تھی"، روزا مسکرائی "تم نے سم کارڈ خریدا یا نہیں؟" میں نفی میں جواب دیا "کاؤنٹر پر لمبی لائن تھی"، وہ بولی "سٹی پہنچ کر خرید لینا، ویسے اب ہوٹل کیسے جاؤ گے؟" میں عرض کیا "سامنے بہت سی ٹیکسیاں نظر آ رہی ہیں "، روزا نے ممانعت کی "باکو ایئرپورٹ شہر سے لگ بھگ 26 کیلومیٹر باہر واقع ہے، کرایہ ٹیکسی 15 سے 17 منات، ہر گھنٹے بعد ایک بس شہر جاتی ہے اور کرایہ فقط ایک منات، یہ بس 28 مئی مول کے مین بس اسٹیشن جاتی ہے، وہاں سے ٹیکسی لیکر ہوٹل چلے جانا، بولٹ ٹیکسی سروس بہت سستی ہے، ڈیڑھ سے دو منات کرایہ"۔
یہ معلومات میرے لئے حیران کن تھی، میں اسے پوچھا "تم اپنی خالہ کے گھر کیسے جاؤ گی؟"، وہ بولی "خالہ ایئرپورٹ آنا چاہتی تھی لیکن میں منع کر دیا، اب میں بھی بس میں سوار ہو کر جاؤں گی"، یہ اچھا آئیڈیا تھا لیکن اسے تکلیف میں مبتلا کرکے مجھے ہرگز خوشی نہ ہوتی، میں معذرت کرتے بولا "تمہیں میری وجہ سے خواہ مخواہ تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے"، وہ نظر انداز کرتے بولی "یہاں بہت سے پاکستانی بزنس مین اور سٹوڈنٹ ہیں لیکن جنٹل مین نظر آنے والے بہت کم ہیں"۔
سٹی جانے کیلئے بس کارڈ ضروری تھا جو ہم دونوں کے پاس نہیں تھا، روزا کی رہنمائی میں قریب ہی نصب آٹومیٹک مشین کا رخ کیا اور لمبی لائن میں لگ گئے، وہاں کچھ پاکستانی نظر آئے اور ان سے تعارف ہوا، کامران فرام لاہور، اس کی آذری بیوی اور ساس اس کا استقبال کرنے آئیں تھیں، ہم کارڈ خریدنا چاہتے تھے لیکن وہاں موجود ایک دوسرا پاکستانی جوڑا جو اپنے بچے کے ہمراہ کراچی سے آیا تھا، انہوں نے کارڈ خریدنے سے منع کر دیا "ہمارے ساتھ ہی چلو، دو منات میری طرف سے"، مجھے اچھا محسوس نہ ہوا لیکن انہوں نے اصرار بڑھا دیا، ہم سب بس کی طرف بڑھے، باتوں باتوں میں پہلی بس روانہ ہو چکی تھی اور دوسری بس فوراً آن موجود ہوئی تھی، سامان والے خانے میں اپنا سامان رکھ کر واپس بوتھ کی طرف آگئے۔
مجھے سگریٹ کی طلب ہو رہی تھی لیکن روزا کے سامنے سگریٹ نوشی نہیں کرنا چاہتا تھا، اسے غالباً محسوس ہوگیا تھا "سگریٹ نوشی کیلئے بوتھ کے ساتھ جگہ بنی ہوئی ہے"، ہم وہاں گئے، سگریٹ سلگا کر ایک نظر ایئرپورٹ بلڈنگ پر ڈالی، نہایت شاندار اور فن تعمیر کا شاہکار، آذربائیجان کے سات ایئرپورٹوں میں سے سب سے زیادہ مصروف اور جنوبی قفقاز کا سب سے خوب صورت ایئرپورٹ ہے۔
ایئرپورٹ عملہ کا ایک فرد ہاتھ میں سگریٹ لئے آن پہنچا، میں نے جیب سے لائٹر نکال کر اسے پیشکش کی، سگریٹ سلگا کر اس نے پوچھا "پاکستانی؟"، میں اثبات میں سر ہلایا، اس نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا اور نہایت گرمجوشی سے میرے دونوں گال پر دو بوسے لئے، یہ خوش آمدید کہنے کا مقامی انداز ہے، سگریٹ سلگاتے گپ شپ میں اس نے بتایا "آذری اور ترکش دونوں ایک ہی قوم ہیں، ایک قوم اور دو مختلف ممالک"، میں اسے پوچھا "ترکیہ کا ذکر پہلے آتا ہے"، وہ سینہ پھیلاتے قومی تفاخر سے بولا "ہم پہلے آزاد ہوئے تھے"، میں عرض کی "1917 میں سابقہ سوویت یونین نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا"، اس نے وضاحت کی "1915 میں آذری قوم نے سابقہ سوویت یونین سے آزادی حاصل کرلی تھی لیکن دو سال بعد 1917 میں دوبارہ سابقہ سوویت یونین نے قبضہ کر لیا تھا، 1919 میں خلافت عثمانیہ کا ترکیہ سے خاتمہ ہوا تھا، لیکن وہ خلافت کم اور ڈکٹیٹر شپ زیادہ تھی، اسلام کا نام استعمال کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا تھا، اب یہ تو ممکن نہیں کہ آپ کسی دوسری قوم کے علاقے پر بزور بندوق قبضہ کرو اور اس عمل کو مقامی لوگوں کی خدمت کا نام دو، " یہ بات مجھے بہت اچھی طرح سمجھ آگئی تھی۔
اس نے مزید بتایا "اقوام متحدہ کے چارٹر کی رُو سے اگر ایک قوم اپنی مختلف شناخت و زبان رکھتی ہے تو اسے اپنے علیحدہ وطن کے حصول کا حق حاصل ہے، اگر عربوں نے اپنے اس حق کو استعمال کیا، چاہے وہ برطانیہ یا دوسری اقوام کی مدد سے کیا تو برصغیر کے رہنے والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں، خلافت عثمانیہ درحقیقت سات سو سال پر محیط پشت در پشت بادشاہت تھی، اہل برصغیر خلافت کا نام سنتے ہی ذہنی طور پر 1400 سال پہلے والی خلافت راشدہ سے موازنہ کرنے لگتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے، مشرقی یورپ کے لوگ بہت ساری ناقابل بیان کہانیاں سناتے ہیں جن میں افواج خلافت کا بلقانی و یورپی لڑکیوں کا دن دیہاڑے بزور بازو اغوا کرنا سرفہرست ہوتا ہے"۔
آخری بات نے مجھے حیران کیا لیکن بعد میں ملنے والے افراد نے اس کی تصدیق کی، میں اسے ایک پرانا سوال پوچھا جو میں سیمی میں دوران طالب علمی اکثر مقامی لوگوں سے پوچھتا تھا "کیا سابقہ سوویت یونین کا دور اچھا تھا یا اب والا؟" وہ سگریٹ کا ایک لمبا کش لگا کر دھواں ہوا میں تحلیل کرتے میری طرف دیکھ کر مسکرایا "سمجھدار لگتے ہو، ہم تین نسلوں تک سابقہ سوویت یونین کے زیرنگین رہے ہیں، اسلام، قرآن، نماز و روزہ پر پابندی تھی لیکن لوگ چوری چھپے نماز اور قرآن پڑھتے تھے، آپ کو یہاں ایسے بہت سے بوڑھے افراد ملیں گے جنکی نظر میں سابقہ سوویت یونین کا دور اچھا تھا، لیکن آزادی کے بعد سے ہماری حکومت اپنے دستیاب ملکی وسائل ہماری قوم پر دل کھول کر خرچ کر رہی ہے، بہت ترقی ہوئی ہے، ذرائع آمدورفت کو بہتر بنایا گیا ہے، عوام کو روزگار ملا ہے، لائف سٹائل پروان چڑھا ہے، مفت تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولت، سیکیورٹی کی صورت حال بہت اچھی ہے، کرپشن کی شرح بہت کم ہے، ہمارا ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے"، سگریٹ ختم ہوا تو وہ الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے دوبارہ میرے گالوں پر بوسے لیکر رخصت ہوگیا۔
ہم بس کی طرف بڑھے، کراچی والے لڑکے نے اپنا کارڈ بس میں نصب کارڈ مشین پر دو مرتبہ پنچ کیا اور دو منات منہا ہوگئے، اب ہم دو افراد بس میں سفر کر سکتے تھے، بس ابھی آدھی خالی تھی، دو خالی سیٹیں دیکھ کر میں اور روزا بیٹھ گئے، ڈرائیور کی عین پشت پر دو سیٹیں خالی نظر آئیں تو میں نے روزا سے کہا "آگے چل کر بیٹھتے ہیں، میں باکو دیکھنا چاہتا ہوں "، وہ مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ تھام کر اٹھی "ابھی تو باکو شروع ہوا ہے، ابھی تو بہت کچھ دیکھنا باقی ہے، باکو بہت خوب صورت ہے، تمہیں یقیناََ پسند آئے گا"۔
ہم دونوں مطلوبہ سیٹوں پر جا بیٹھے، مقررہ وقت پر ڈرائیور نے مسافروں کو انتبہ کیا اور بس روانہ ہوئی، چیک پوسٹ پر ایک بیریئر کراس کرنے کے بعد بس دو تین چکر کاٹ کر ایئرپورٹ کی حدود سے باہر موٹر وے پر نکلی، بہت منظم ٹریفک، شاندار روڈ، کوئی گاڑی سوار جلدی میں نہ تھا، راستے میں فٹبال سٹیڈیم اور حیدر علی قالین میوزیم کی عمارت نظر آئی، اس کے بعد باکو سرکٹ ایریا شروع ہوا، ایک ہفتہ پہلے اس ایریا میں مشہور زمانہ فارمولہ ون ریس منعقد ہوئی تھی اور رپورٹس کے مطابق لگ بھگ دو ملین افراد اسے دیکھنے باکو آئے تھے، یہاں لگ بھگ بیس بیس منزلہ عمارتوں کی قطار در قطاریں، یہ سب سوویت یونین دور کی بنی ہوئی ہیں، کامران کا گھر یہاں پر واقع تھا، سٹاپ پر وہ اپنی بیوی اور ساس کے ہمراہ اتر گیا اور ہمارا سفر جاری رہا، بس اپنے مقررہ راستے پر دو مرتبہ رکی اور کچھ سواریاں وہاں اتریں، کچھ دیر بعد مصروف علاقہ شروع ہوا تو روزا نے اٹھنے کا اشارہ کیا، اس کی خالہ کا گھر اب قریب تھا، میرا واٹس ایپ نمبر اپنے موبائل میں درج کرکے بس رکنے پر وہ اٹھی، گرمجوشی سے ہاتھ ملایا، دوبارہ ملنے کا وعدہ لیا اور باہر ہولی، ڈرائیور نے سامان نکالنے میں اسکی مدد کی اور سفر دوبارہ جاری ہوا۔۔
جاری۔۔