صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
بیان دیجیے، بیانیہ بنایے اور خوب تشہیر کیجیے۔ اسے روایت کہیے، جدت سمجھیے یا پھر وقت شناسی۔ لیکن فی زمانا بکنے والا چورن صرف اور صرف بیانیہ ہی قرار پایا۔ ایک دم سے آگ کی طرح پھیلنے والا بیانیہ۔ اب تو جنگل میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال اتنا پھیل چکا تھا کہ شیر بھی پہلے شکار کی لوکیشن ٹریس کرتا اور پھر گوگل میپ کے ذریعہ شارٹ کٹ کا راستہ اپناتا۔ سیہہ اپنے کانٹوں کی مضبوطی کے لیے بیوٹی ایپ پر ویڈیوز دیکھتی۔ لومڑی اپنی چال بازی کو معصومیت دکھانے کے لیے فلٹرز خرید رہی تھی۔ الو نے اپنی آنکھ کے فوائد کا اشتہار شائع کرنے کے پیسے تین قریبی عزیز الو قربان کرکے چکائے تھے۔
سانپ اپنے منکے جمع کر رہا تھا اور گیدڑ نے گیدڑ سنگھیاں محفوظ رکھنے کے لیے ایک غار کرائے پر لے رکھا تھا۔ پرانی کہانی میں اپنے سینگوں کو درخت میں پھنسا دیکھ کر بارہ سنگھا ہر ماہ کی تین تاریخ کو باقاعدگی سے اپنے سینگوں کی trimming کرواتا۔ کم زور جانور ہر روزانہ چارہ میں اسٹریلائزڈ ملا کر کھاتے یا انجکشن کے ذریعہ لیتے۔ کسی قسم کی بدشگونی سے بچنے کے لیے سب جانوروں نے اپنے اپنے کان حفاظت سے گھروں میں رکھ چھوڑے تھے۔ اب وہ صرف دھاڑتے اور مختلف آوازیں نکال کر اپنا غصہ یا خوشی کا اظہار کرنے لگے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے پل سے لوگ نیچے جھانک کر ویڈیوز بنا رہے ہوتے ہیں۔ چونکہ کان بحفاظت گھروں میں محفوظ تھے۔ سو کسی کو بھی آواز سنائی نہ دیتی۔
سچ تو یہ تھا کہ اب جنگل کے کسی جانور میں بھی سننے کا شوق اور دلچسپی ہی نہ رہی تھی۔ سب کو اپنی دھاڑ شیر سے مشابہ لگتی اور فلٹر لگا کر وہ اونچی سے اونچی جمپ لگا سکتے تھے۔ سب کچھ بدل چکا تھا۔ زیرو کا اب صرف تصور باقی تھا اصل اعداد و شمار یکسر تبدیل ہو چکے تھے۔ سازشی ایپ نے ہر بیانیے پر ایسے فلٹر لگا رکھے تھے کہ دو اور دو جمع بھی کئی سو ارب ہو سکتے تھے اور لاکھ جمع لاکھ کا حاصل بھی صفر ہو جاتا تھا۔
یہ ایپ جنگل کے ہر گوشے میں موجود تھی اور خود کار طریق پر کام کرنے لگی تھی۔ اس میں کانوں کا استعمال ممنوع تھا۔ یہ سازش انسانی تاریخ کا ایک قدیم اور پیچیدہ حصہ تھا جو جنگل میں ایک خمیر کی طرح ابلتی۔ ایسا خمیر جس سے جنگل میں بےچینی، فتنہ و فساد، اور بغاوت جیسی صورت حال کی ہوا پھیل جاتی تھی۔ کسی بھی آواز کے پھیلاؤ کا طریقہ اور اس کے اثرات بڑے ہی پیچیدہ اور صرف آواز تک محدود تھے۔ مگر اس کا انجام ہمیشہ ان گنت تباہی کی شکل میں ظاہر ہونےلگا تھا۔ اگر کوئی بھولے سے کان اپنے ساتھ بھی رکھتا تو بھی اسے ہوا پر جھولتی آواز ہی سنائی دیتی۔
کتنے ہی جانوروں کے کان تو چوری بھی ہو چکے تھے لیکن انھیں بیانیہ بآواز بلند سنائی دیتا تھا۔ فلاں چور، فلاں ڈاکو سے نکل کر بات فلاں گستاخ، فلاں مشرک، تم گستاخ اور تم توہین کے مرتکب، تم راندہ درگاہ کی آوازیں سپیکر پر نشر کی جاتیں اور سدھائے ہوئے جانور شکار پر پل پڑتے۔ جنگل کی فضا افواہوں سے اٹی پڑی تھی۔ یہاں تک کہ فوسل فیولز بھی واہی تباہی کے درپے تھے۔ کھاد اتنی زہریلی اور تعفن زدہ تھی کہ ہر فصل آلودگی سے پر تھی۔ آوازوں کی افواہ سازی اب جنگل میں صنعت کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ بیس منٹ کے مظاہرہ نے سب توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ جانور بھی شکار کو بیس منٹ دیکھنا عبادت سمجھنے لگے تھے۔
خاموش آواز کے پھیلاؤ کا سب سے موثر ذریعہ میڈیا اور سوشل میڈیا تھا اور سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں اور گمراہ کن معلومات کے ذریعے جانوروں کو ہانکا جاتا تھا۔ ڈائناسور تک اپنے ڈھانچوں سمیت فرقہ واریت کی اس جنگ میں شامل ہونے کو بے قرار تھے۔ انھیں جنگل میں آگ لگانے کے لیے افواہ سازی کی سازش ہی موثر ہتھیار نظر آ رہی تھی۔ جو انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک ہر ریوڑ کو مفلوج کر سکتی تھی۔ مور کے ناچ سے مورنی کے آنسوؤں میں گھلی آواز فتح یاب ہونے کو بے قرار تھی۔ لومڑی سے لے کر بندر تک سازشی ایپ نے طبقہ بندی اور فرقہ بندی کے دھاگے باندھ رکھے تھے۔ اپنی اپنی خواہشات کے یہ دھاگے اب اتنے الجھ گئے تھے کہ دانتوں سے بھی نہ کھلتے۔ اتنے تجربات اور ترامیم کے بعد بھی زندگیوں کے لالے پڑ گئے تھے۔ جنگلی حیات خطرے سے دوچار تھی۔
سازشی نظریہ سازوں کے نزدیک تاریخ عالم کے تمام اہم حادثات کسی پس پردہ کوشش یا سازش کے نتیجہ میں وقوع پزیر ہوئے تھے اور جنگل بھی کسی پس پردہ سازش کی زد میں تھا۔ جنگل تو جنگل اب معاشرہ بھی سازشوں سے اٹا پڑا ہے۔ ہم سب بھی کانوں کے کچے اور آوازوں کے پکے ہو چکے ہیں۔ استاد سے طالب علم تک اسی سازشی تھیوری کے ہاتھوں جتھا بن جاتے ہیں اور امڈ پڑتے ہیں۔
مانا دریا کا پانی گدلا ہے لیکن ہمارے دماغ بھی فلٹر کے شعور سے محروم ہیں۔ کہیں مریم نواز کو پولیس افسر سے معذرت سکھائی جاتی ہے اور کہیں پولیس افسر مجمع کنٹرول کرنے کے لیے امن کے بجائے جلتی پر تیل چھڑکنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان جھوٹے واقعات کے ذریعہ نوجوانوں کو شعور سے محروم کون کر رہا ہے۔ پس پردہ عزائم کیا ہیں۔ کیا جنگل کی ہوا یہاں تک آ پہنچی ہے؟ ہمیں دن اور رات، اچھے برے، کالے اور سفید کی تفہیم سے عاری کیوں کیا جا رہا ہے۔ ہر منظر، ہر چیز کو دیکھ کر ہمارے اندر بیٹھا جج سونے جاگنے کے شعور سے محروم کیوں کیا جا رہا ہے۔
نظریات سیاسی ہوں یا مذہبی دیرپا ہوتے ہیں۔ اعلامیے سے اعلانیے تک عقائد کی پرورش و پرداخت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ضابطے بنائے نہیں جاتے لاگو کیے جاتے ہیں۔ آپ کہاں تک چیک اینڈ بیلنس کرتے رہیں گے۔ سوچ سالوں میں بنتی ہے اور اس کا اطلاق لمحوں میں ہوتا ہے۔ بس اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ نے منظر کیا دیکھا اور منظر نے آپ کو کیا دکھایا۔
وقت کا پتھر بھاری ہوتا جاتا ہے
ہم مٹی کی صورت دیتے جاتے ہیں
(باقی صدیقی)