میر کارواں بھی ہو، مثال جاوداں بھی ہو
تعلیمی عمل صرف عمودی و افقی زاویوں پر منحصر نہیں، اس کی بے شمار پہلو اور اطراف ہیں۔ زیادہ تر کالجز کے پرنسپلز اساتذہ سے بھی مجبور و بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ طاقتور تو یونیورسٹی کے شعبہ جاتی ڈین ہیں بلکہ کچھ تو ڈیپریشن کی فیکٹریاں ہیں۔ جہاں حکومت قائم رکھنے کے لیے اپنے ہی طالب علموں کو استاد کا درجہ دے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے۔
ان حالات میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر نیا تعینات ہونے والا وائس چانسلر ہر شعبہ کے بخیے ادھیڑ کر نیا ڈیزائن تخلیق کرے۔ نہ ہی یہ وائس چانسلر کے اختیار میں ہے کہ پرانے تعینات کیے گئے اساتذہ کی ازسر نو تحقیق کروائے۔ لیکن متجسس اور اچھا منتظم ان تمام عوامل کا جائزہ لے کر ایسی پالیسی ضرور وضع کر سکتا ہے۔ جس سے معاملات بہتر ہو سکیں۔
ڈاکٹر شاہد منیر نے یہ کام انتہائی جدید خطوط پر ترتیب دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سربراہ ادارہ کی تمام تر خصوصیات سے مالا مال ہیں اور یونیورسٹیز کی موجودہ صورتحال کا مکمل ادراک رکھتے ہیں۔ جھنگ یونیورسٹی کو انھوں نےاس جدید انداز سے متعارف کروایا کہ وہ اب ڈاکٹر شاہد منیر کے نام سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے۔ انھوں نے یونیورسٹی میں پے در پے کانفرنسز، سیمینارز اور شعبہ آرٹس کی صنعتی اور تصویری نمائشوں کے ذریعہ نہ صرف طلبہ و طالبات میں شعور اجاگر کیا بلکہ کمیونٹی کے اہم اور متحرک اذہان کو یونیورسٹی کے تعارف اور تجاویز میں شمولیت کی دعوت دی۔ جس سے ادارہ کی ساکھ مضبوط ہوئی۔
کمیونٹی کو شامل کیے بغیر کسی بھی درسگاہ کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ ڈاکٹر شاہد منیر نے زمینی حقائق کے ساتھ نفسیاتی تکنیک سے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا اور لاہور کالج یونیورسٹی کا جھنگ کیمپس بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو یقیناََ ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو یونیورسٹی دوسرے شہروں میں اپنے کیمپس قائم کرتی ہے۔ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے اندر انھیں سنبھالنے کی صلاحیت بھی ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر شاہد منیر سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی طلبہ کی گرومنگ کے لیے ہوتی ہے اور وہاں ایسے پروگرام متعارف کروائے جانا چائیں جو طلبہ کی شخصیت کو شعور، تخلیق اور مثبت انداز فکر سے مزین رکھیں۔ ایک متجسس ذہن ہی اس حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کام استاد اور نصاب کے بغیر ممکن نہیں۔ ڈاکٹر شاہد منیر سمجھتے ہیں کہ چھوٹی بڑی ہر یونیورسٹی میں دو پروگرام لازمی شامل کیے جانے چاہیں۔ ایک تو فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام (Faculty development programme) اور دوسرا نصاب پر نظر ثانی۔ جس کا ہمارے ہاں رواج ہے نہ شعور۔
ڈاکٹر شاہد منیر کہتے ہیں کہ اساتذہ کی تربیت وہ چھلنی ہے جس سے استاد کو ہر لمحہ حاصل کردہ علم اور معلومات کی جانچ پر توجہ دینا پڑتی ہے۔ قاسم علی شاہ کی ایک شکایت کہ استاد ٹریننگ پر آمادہ کیوں نہیں۔ پر ڈاکٹر شاہد منیر نے دلیل اور حقیقت حال کی بنیاد پر جس طرح اساتذہ کا دفاع کیا۔ اس سے ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اساتذہ ٹریننگ پر آمادہ بھی ہیں اور اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار بھی۔ اس کا ثبوت PHEC میں سالانہ 2500 اساتذہ کی ٹریننگ ہے۔ جس کی رجسٹریشن اساتذہ نے خود کروائی ہے۔ یہ ٹریننگز جدید نصاب کے مطابق مرتب کی گئیں۔ جس میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال، جدید Apps کی حدود کا تعین اور تحقیق اور دور حاضر میں Apps کے استعمال کی مہارت پر لیکچر دیے گئے۔
فیکلٹی ڈویلپمنٹ کا ابتدائی پروگرام ڈاکٹر شاہد منیر نے جھنگ یونیورسٹی میں بھی شروع کروایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی استاد تیاری کے بغیر کمرہ جماعت میں جا سکے۔ شاید اسی خوف سے کئی اساتذہ نے لاہور آنے کو ترجیح دی۔ کئی یونیورسٹیز میں ایسے ذہنی مریض ابھی بھی موجود ہیں جن کا علاج کسی بھی ٹریننگ سے ممکن نہیں۔ اچھا سربراہ ادارہ ان تمام عوامل کو پیش نظر رکھ کر ہی فیصلہ سازی کرتا ہے۔ سرسری اس جہان سے گزرنے والے یونیورسٹیز کی تباہ حالی میں ذمہ دار ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اساتذہ بخوشی اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں جو خوش آئند ہے۔ بطور چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن انھوں نے اساتذہ کی ٹریننگ کی بنیاد پر Teachers License کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اس حوالے سے اقدامات کیے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں بھی تکنیکی بنیادوں پر فوری اقدامات سے ڈاکٹر صاحب کی انتظامی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ جہاں Quality enhancement cell کے ذریعہ اساتذہ کی ٹریننگ اور دو طرفہ عمل یعنی استاد اور شاگرد کے درمیان تعلیمی عمل کی بہتری کے لیے چائے کے کپ پر استاد کی ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چائے کے کپ پر تفہیم کتنی موثر ہے یہ ڈاکٹر طارق ہاشمی سے بہتر کون جان سکتا ہے جو اپنی ذہانت سے آن لائن نصاب کی تدوین پر کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد منیر نے لگی بندھی ڈگر پر چلنے اور صرف تین سال پورے کرنے کی بجائے یونیورسٹیز کو وہ زاویہ دکھایا ہے جس کی روایت موجود نہیں ہے۔ جانچ اور پرکھ سے حقائق کو منطق کے ترازو میں تولنے، ہر ممکنہ حل پر غور و فکر اوردرست فیصلے کرنے کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر صاحب نے یونیورسٹی میں صرف تعلیمی نہیں، معاشرتی اقدار کی تربیت و ترویج کے اہتمام کو رواج دیا ہے۔
انتظامی صلاحیتوں کے متوازی انھوں نے تعلیم میں بہتر کارکردگی کے لیے استاد کی تربیت اور ٹریننگ کو اہمیت دی اور دائروی دوڑ کی بجائےصحت مند مقابلے کا رحجان پیدا کیا ہے۔ جس کی فی زمانا شدت سے ضرورت ہے۔ ڈاکٹر شاہد منیر کی فیصلہ ساز صلاحیتیں ہر وائس چانسلر کے لیے مشعل راہ ہو سکتی ہیں۔