ہائے کیا کیا نہ شکایات دل زار کو ہیں

یوں لگتا تھا کہ اس شہر کے باسی ہیں تو زمین پر لیکن جی کہیں اور رہے ہیں۔ ان کا ہنسنا، رونا، جینا، مرنا، رومانس سب مصنوعی پن کے مدار میں زور دکھا رہا تھا۔ جمالیات پر فلٹرز کے پردے صمد بانڈ سے چپکائے گئے تھے۔ بس دل تھے جو دھڑا دھڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہے تھے۔ دل کے سو ٹکڑوں میں بھی مکمل پن کے تار سے بندھے تھے۔ ہر عدالت الیکٹرک شاک کی زمینوں پر قائم تھی۔ ہر قسم کا انصاف بھی صرف آن لائن ہی دستیاب تھا۔ اب انسان کی پہچان اُس کے کردار سے نہیں، فالورز کی تعداد سے ہوتی تھی۔ اس لیے نہ صرف اہل سیاست بلکہ ہر محکمہ کے افسران بھی بالا ہی بالا الیکٹرک تاروں پہ دوڑ رہے تھے۔
گفتگو کے لب و لہجے سے علم کے چراغ روشن کرنا پرانے پن کا خاصا تھا۔ اب صرف ویڈیو کے بیچ "چیلنجنگ تھمب نیل" دیکھ کر ہی دانشور، رہنما یا متاثر کن شخصیت قرار دینے کا حتمی فیصلہ ہو چکا تھا۔ چنو جو روز شام محلے کی دکان کے باہر بیٹھا رہتا تھا اور جس سے راہ چلتے لوگ نگاہ چرانا بہتر سمجھتے تھے۔ اب انٹرنیٹ پر "سوشل فینامینا" کے نام سے شہرت سمیٹنے میں مصروف تھا۔ جب بھی کوئی اس سے ملنے جاتا تو معلوم پڑتا کہ وہ آن لائن گیا ہوا ہے۔ واپسی کی خبر کوئی نہیں بتا سکتا تھا۔
اُس کی روزمرہ زندگی، غیر معیاری مزاح اور سطحی گفتگو لاکھوں دلوں پر راج کررہی تھی۔ وہ جو حقیقت کی دنیا میں کمتر سمجھا جاتا تھا، ڈیجیٹل دنیا میں عزت و دولت کےکتنے ہی تاج پہنے بیٹھا تھا۔ ایسا نہیں کہ اس نے کوئی بڑی علمی یا اخلاقی خدمت سرانجام دی ہو۔ نہیں! بس اُس کے پاس چوری کا ایک فون کیمرہ تھا، دو جملے یاد کرنے کی ہنر مندی اور وہ سب کچھ کرنے کی بے شرمی جو معاشرہ کبھی معیوب سمجھتا تھا۔
یہ صرف کہانی صرف چنو کی نہیں۔ سب کی کہانی تھی۔ ایک ایسا معاشرہ جو اب دماغ سے نہیں، وائی فائی سگنلز سے سوچ رہا تھا۔ جہاں علم سے زیادہ کلک بیٹ، کردار سے زیادہ کیمرہ اینگل اور حق سے زیادہ ہیش ٹیگ بک رہے تھے اور قبولے بھی جارہے تھے۔ زندگی آن لائن ہو چکی تھی۔ کبھی صحن میں بیٹھے بزرگوں کی دعاؤں سے بگڑی تقدیر سنورتی تھی، اب فیس بک پوسٹ وائرل ہوتی تو پولیس، میڈیا، این جی اوز سب اپنے اپنے کیمرہ فون لیے پہنچ جاتے تھے۔ کبھی عدالت کے باہر سالوں انصاف کی دہائی دی جاتی تھی۔ اب ایک وائرل ویڈیو ہی کافی تھی۔ انصاف اپنے کیمروں کے ساتھ دروازے پر پہنچ جاتا تھا۔
نئے عدالتی نظام میں آن لائن تصاویر گواہ بنتیں اور کئی بار ویوز اور لائکس مقدمے کا فیصلہ کرتے۔ سیاسی اسٹیج کے نمایاں کردار بھی بھونپو باندھے بیٹھے تھے۔ کبھی دلائل سے مکالمہ جیتا جاتا تھا اب صرف آواز کے ہائی والیم سے ہر شخص مقدر کا سکندر تھا۔ کبھی تقاریر میں فصاحت، بلاغت اور تدبر ہوتا تھا، اب محض طنز، طعنہ اور الزامات کا شور سننے والوں کے لیے "دلچسپ مواد" بن چکا تھا۔ عوام دلیل کے بجائے بس شور، غصہ اور ویڈیو میں لال آنکھیں دیکھ کر سچ محسوس کر رہے تھے۔
فیک نیوز، جعلی کردار اور مصنوعی جذبات پوری نسل کی سوچ کو یرغمال بنا چکے تھے۔
فیس بک پہ منصفوں کی اس قدر بھر مار ہے
عدل اپنے ضابطوں کی گود میں آزاد ہے
(سعدیہ بشیر)
یہ صرف اخلاقی انحطاط نہیں، یہ تہذیبی خودکشی تھی۔ دانشوروں کو کونے میں دھکیل کر وی لاگرز استاد بن چکے تھے۔ خوشی جب تک آن لائن نہ ہوتی۔ خوشی نہ سمجھی جاتی۔ غم کو جذباتی کیپشن کے ساتھ پیش کرکے ہمدردی کے سکے چھنک رہے تھے۔ حتیٰ کہ دعائیں بھی تب تک "کامل" نہیں سمجھی جاتیں تھیں جب تک ان پر تبصرہ اور شئیر نہ کی جاتیں۔ کتابوں کی جگہ سکرولنگ نے لے لی تھی اور سب سے بڑھ کر لوگوں نے آئینے سے نظریں ہٹا کر فرنٹ کیمرہ کو حقیقت کا معیار مان لیا تھا۔ اصل المیہ یہ نہیں تھا کہ سب کچھ آن لائن شفٹ تھا۔
اصل المیہ یہ تھا کہ سب نے خود کو حقیقی سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔ دکھاوے کے سمندر میں مگر مچھ اور چھوٹی بڑی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ آن لائن گیمبلنگ میں مگر مچھ مچھلیاں کھا کر ہی زندہ تھے۔ یہ وہ نہج تھی جہاں روح کی گہرائی سوشل میڈیا کے ڈیپ فلٹر سے کم معتبر رہ گئی تھی۔ اب حقیقت کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی تھی۔ ہر حقیقت یا جھوٹ کو جانچنے کا آلہ صرف کیمرہ تھا۔ اب انسان کی قدروقیمت اُس کی نیت یا عمل سے نہیں بلکہ اُس کے ڈیجیٹل اثر و رسوخ سے طے کی جا رہی تھی۔ زیادہ تر انسان "کانٹینٹ کریئیٹرز" بن چکے تھے۔ زندگی کی اصل صورت "ریلز" میں جاگ رہی تھی۔ لوگ زندہ نہیں صرف وائرل تھے۔ خالد عرفان نے کیا خوب صورت تصویر کھینچی ہے۔
نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے
سرچ انجن ہے بڑی چیز کنواروں کے لیے
کام مکتوب کا ماؤس سے لیا جاتا ہے
آہ سوزاں کو بھی اپلوڈ کیا جاتا ہے
عاشقوں کا یہ نیا طور نیا ٹائپ ہے
پہلے چلمن ہوا کرتی تھی اب اسکائپ ہے
فیض کی غزل میں اب محبوب کو آنکھ بھر دیکھنے کے لیے فیس بک پہ ہی قیام کیا جاتا۔ خراب حالوں سے لے کر بربادی کے سب برانڈز یہیں موجود تھے۔ فیس بک کی گلی میں چشم ناز بھی تھی اور شعر و شاعری کے معجزات سے لے کر شف شف کے کرتب بھی۔ باتوں سے پھول آن لائن جھڑتے اور فلٹر زدہ ستارے بھی آن لائن شئیر ہوتے۔ ایک طرف قبرستان تھے جہاں لوگ کچھ پل کے لیے اپنی جھلک دکھاتے اور ماتم کے کربلا میں چھوڑ جاتے۔ کئی گھنٹوں سے انتظار کرتے سوالی کی باری تبھی آتی جب کیمرا آتا۔ اسی طرح بھوکے کا کھانا، سڑکوں کی صفائی، سائل کی فائل سب کچھ کیمرے کے انتظار میں گھنٹوں محو یاس رہتے۔ یہاں تک کہ فون کے سگنل اور فون کال تک اسی شبھ گھڑی میں ملتی جب کیمرہ کے لینس آن ہوتے۔
کیمرہ ہی ناخدا اور کیمرہ ہی نجات دہندہ تھا۔ کیمرہ منصف اور کیمرہ ہی گواہ تھا۔ اسی کی بخشش زدہ ویڈیوز کے بل پر عہدے ملتے اور مصاحب بنائے جاتے۔ کیمرہ دوست بھی تھا اور دشمن بھی۔ کئی لوگ بھونپو باندھے کر کیمرہ میں زندگی بھر کی کمائی جھونک دیتے اور دوسروں کو ننگا کرنے کے چکر میں سر تا پا اپنی غلاظت دکھا جاتے۔ اس پر بھی وہ معتبر ہی ٹھہرائے جاتے۔ دشت سے لے کر حشر تک کے مناظر اپنے بہاؤ میں مگن تھے۔ اصل قیامت کیا تھی یہ کسی کو علم نہ تھا۔
رہے نام اللہ کا

