Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Saadia Bashir
  3. Cloudburst Aur Hamara Ijtimai Zawal

Cloudburst Aur Hamara Ijtimai Zawal

کلاوڈ برسٹ اور ہمارا اجتماعی زوال

پانی صرف آنکھوں یا دریاؤں میں نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی آسمان بھی روتا ہے اور جب بہت زیادہ ظلم ہو جائے تو یہ رونا بارش نہیں۔ کلاوڈ برسٹ بن جاتا ہے۔ بےقابو۔ وحشی۔ حد سے گزرا ہوا۔ جیسے سچائی دہاڑنے لگی ہو۔ ہماری صرف سڑکیں، راستے اور گھر اس کلاوڈ برسٹ میں ڈوبنے کا نوحہ نہیں۔ بلکہ ماتم یہ ہے کہ ہماری غفلت۔ بےحسی اور منافقت ان پتھروں سے لپٹی بقا کی جنگ میں فاتح ٹھہری ہے۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں سب چہرے چٹخ چکے ہیں۔ ایسی کتنی تصاویر ہیں جو ہمارے سماجی نظام، مذہبی تضادات، قانونی بےبسی اور نفسیاتی غلامی کی نمائندہ تصویریں ہیں۔

یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں انسان ہی انسانیت کا دشمن ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں حضرت بی بی زینبؑ نے بازاروں میں غیرت کا ماتم کیا تھا۔ جہاں بی بی فاطمہؑ نے درِ عدالت پر حق کی صدا دی تھی۔ کربلا فقط تاریخ میں نہیں۔ ہم میں برپا ہو رہا ہے۔ ظلم کے ضابطے اور ریاستی بےحسی نے اس ماتم کو دوآتشہ کر دیا ہے۔ ہمیں بچپن سے سکھایا گیا کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ مگر یہ کیوں نہیں سکھایا گیا کہ انصاف گونگا نہیں ہونا چاہیے۔ واقعہ اخلاق باختگی کا ہو یا اخلاقی گراوٹ کا۔ شہر ملتان ہو، سیالکوٹ ہو، فیصل آباد یا ڈیرہ غازی خان ہو۔ درجنوں، سینکڑوں، ہزاروں بے نام عورتیں جو کبھی رپورٹ نہ ہو سکیں اور وہ مرد جو ذلت کے طمانچے چہرے پر سجائے زندگی ڈھو رہے ہیں۔ کسی کس کو روئیں جو ان سانحات کے بیک گراؤنڈ میں موجود ہیں۔ یہ ظلم کا ایک منظم نظام ہے۔ جہاں قانون طاقتور کے در پر سجدہ ریز ہوتا ہے۔

جہاں تھانے، عدالتیں اور اسمبلیاں۔ سب اسٹیج ہیں اور اصل کھیل کہیں اور لکھا جا رہا ہے۔ کیا ہم مردہ قوم ہیں کیونکہ ہمارے رویے مردہ ضمیر کی علامت ہیں۔ صرف ویڈیو بنانے والے ہاتھ اور موبائل کے سگنل زندہ ہیں مگر اندر انسان مر چکا ہے۔ ہمیں وہ خبریں زیادہ متاثر کرتی ہیں جو معاشرتی سانحہ کی شکل اختیار کر لیں۔ درد میں لپٹی کہانیاں ہمارے دل کو زیادہ چھوتی ہیں۔ موچی کی بیٹی ٹاپ کر گئی۔ تندور والے کا بیٹا سی ایس ایس پاس کر گیا۔ یہ خبریں ہم بار بار شیئر کرتے ہیں۔ ان پر واہ واہ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے ترقی کو خواب سمجھ لیا ہے اور کامیابی کو معجزہ۔

ہمیں خوشی کم، ترس زیادہ متاثر کرتا ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم نے اجتماعی طور پر یقین کھو دیا ہے کہ کامیابی ہمارا بھی حق ہے۔ ہم نظام کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ سوال کرنے سے کتراتے ہیں۔ ہم اپنی بے عملی پر ایک آنسو بہا کر مطمئن ہو جائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہو۔ روایتی خبروں سے ہمارا لگاؤ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں رونا آسان لگتا ہے۔ لیکن لڑنا مشکل۔ اسی لیے ہر موقع پر ہم صرف موبائل نکالتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر فرد کو یکساں مواقع میسر نہیں۔

ریاستی ادارے سب کے لیے ایک جیسا کام نہیں کرتے۔ سی سی ڈی کے لیے سٹیٹس کی بنیاد پر فیصلے کرنا ممکن ہے۔ اس سے اوپر ان کے پر جلتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں کرپشن کے کانٹوں پر وزیر موصوف دفاع کے مورچہ پر محتسب بنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم، انصاف اور ترقی کا خواب بھی فلٹر لگا کر دکھاتا ہے۔ وائرل کہانیوں میں حقیقت چھان کر پیش کی جاتی ہے۔ خاموش تماشائی صرف بھیڑ نہیں ہوتے۔ وہ بھی شریکِ جرم ہوتے ہیں۔ مگر ظالم کا مذہب نہیں ہوتا۔

نہ مظلوم کا لباس ہوتا ہے۔ ہم نے کیا پہن رکھا تھا۔ کس وقت نکلی تھی۔ کیوں باہر تھی۔ جیسے سوالوں کوظلم کے جواز میں بدل دیا ہے۔ مسجدوں سے لے کر مدرسوں تک۔ اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک۔ کہیں بھی کردار سازی کا کام نہیں ہو رہا۔ سب کچھ ظاہری ہے۔ ظاہر میں نمازی، باطن میں شکاری۔ ظاہر میں استاد، باطن میں بلیک میلر۔ ظاہر میں صفائی۔ باطن میں کٹائی۔ کتنے طالب علم اپنی ڈگری کے حصول میں خوار ہو رہے ہیں۔ اس پر کتنی بار لکھا گیا لیکن سویا ہوا محل جاگنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

جب قومیں خاموش ہو جائیں تو پھر صرف آسمان روتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک عجیب جذباتی کشمکش کا شکار ہے۔ کلاوڈ برسٹ ہم پر نہیں۔ ہم سے ہو رہا ہے۔ ہم ایک خاموش قبرستان میں سانس لے رہے ہیں۔ جہاں چیختی صدائیں دفن ہیں اور زندہ لوگ صرف چالاکی کی زبان سمجھتے ہیں۔ معاشرتی برائیاں ظلم و ڈھٹائی کے پتھر لیے شعور کے بادلوں میں برسنے کو تیار بیٹھی ہیں۔ ہم نے ان کا نوحہ نہیں لکھا۔ صرف ان کے ساتھ جینا سیکھا ہے۔ جھوٹ اب صرف زبان کا ہنر نہیں، کردار کی بنیاد ہے۔ ظلم اب بے چہرہ نہیں رہا۔ وہ قہقہے لگاتا اور جواز دیتا ہے اور ہم اس کے ساتھ ہنستے ہیں۔

صرف زمین نہیں ڈوبی ضمیر بھی ڈوب چکے ہیں۔ ضمیر کے قبرستان میں یہ بادل پھٹ کر کہیں بکرا، کہیں انسان اور کہیں آئین و اصول خدا کے نام پر قربان کر رہے ہیں۔ ہر جھوٹ، ظلم اور تماشا کے پس منظر سے انسانیت کی نئی لاش نکل آتی ہے۔ رحمان فارس نے اس صورت کو یوں بیان کیا ہے۔

گمشدہ صدیوں کے گرد آلود نا آسودہ خوابوں کے
کئی عفریت بستے ہیں

مری خوشیوں پہ روتے ہیں مرے اشکوں پہ ہنستے ہیں
مرے ویران دل میں رینگتی ہیں مکڑیاں غم کی

تمناؤں کے کالے ناگ شب بھر سرسراتے ہیں
گناہوں کے جنے بچھو

دموں پر اپنے اپنے ڈنک لادے
اپنے اپنے زہر کے شعلوں میں جلتے ہیں

یہ بچھو دکھ نگلتے اور پچھتاوے اگلتے ہیں۔

(رحمان فارس)

ظلم کی گرج، چمک کے جلو میں بے بس سکوت ہے۔ یہ کلاوڈ برسٹ اجتماعی شعور نگل گیا ہے۔ جب تک ہم اپنی ذاتی خاموشی کا تجزیہ نہیں کریں گے۔ اجتماعی تبدیلی محض خواب رہے گی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا:

کیا ہم اس طوفان سے پہلے جاگیں گے؟ یا تب جاگیں گے جب صرف پچھتاوے کی کچی مٹی بچی ہوگی۔ کب تک ہم صرف تالی بجاتے رہیں گے اور تبدیلی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ ہمیں اپنی سوچ، نظام اور ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ تب جا کر معجزے عام ہوں گے اور ہم صرف رونے کے لیے نہیں۔ خوشی منانے کے لیے بھی خبریں دیکھیں گے۔

رہے نام اللہ کا

Check Also

Israr Ul Haq Majaz Se Majaz Lakhnavi Tak Ka Safar

By Rehmat Aziz Khan