بلبلوں کی تڑپ اور عامل بابا

ہمارے ہاں بابے ایسے ہی ملتے ہیں جیسے چائے کے ڈھابے۔ ہر گلی، ہر محلے اور ہر چوراہے پر کسی نہ کسی بابا کا اشتہار ضرور چسپاں مل جاتا ہے۔ کوئی رشتہ کروانے والا بابا۔ کوئی کالا علم کا ماہر، کوئی جنات کا قابو پانے والا یعنی جن اتارنے والا اور کوئی محبوب کو قدموں میں لانے والا۔ لیکن ان سب میں ہوائی بابا کا مقام کچھ اور ہی ہے۔ ان کا مشہور دعویٰ اگر سن لیا جائے تو خوش امید افراد کو اپنے محبوب کے تڑپنے کی تصویر واضح نظر آتی ہے۔ یہ چتاؤنی ہر دیوار پر نوشتہ تقدیر کی مانند درج ہے۔ "محبوب قدموں میں۔ بابا جی کے عمل سے محبوب مچھلی کی طرح تڑپے گا"۔
یہ دعویٰ پڑھ کر ایک سنجیدہ صحافی کے دل میں کھدبد مچ گئی۔ آخر کب تک لوگ بغیر تحقیق کے بابوں کے جال میں پھنسے رہیں گے اور پھر صحافت و حکومت صرف تقریروں کرنے کا تو نام نہیں۔ سو وہ بغرض تحقیق بابا کے آستانے پر جا پہنچا۔ بابا جی حسبِ روایت لال شال اوڑھے، آنکھوں میں سرمہ لگائے، سامنے رکھا حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ صحافی نے مؤدبانہ سوال کیا: بابا جی! یہ کرشمہ بھی دکھا دیں کہ محبوب کیسے تڑپتا ہے۔ آخر یہاں پانی کی مچھلی والی تڑپ کہاں نظر آتی ہے؟ کوئی زندہ مثال دکھا دیں۔
ہوائی بابا جی نے ٹیڑھا میڑھا کش کھینچا اور ایڈیٹڈ (edited) قہقہہ لگا کر گویا ارشاد کیا۔ بیٹا! پورے شہر میں دیکھ لو۔ جہاں لوگ تڑپتے اور پھڑکتے دکھائی دیں۔ سمجھ لینا کہ یہ سب میرے کامیاب عمل اور تعویذات کا ہی نتیجہ ہے۔ صحافی نے حیرت سے بابا کو دیکھا اور پھر شہر کی گلیوں کا رخ کیا۔ مگر وہاں جو کچھ دکھائی دیا، اس نے بابا کے "روحانی عمل" کو سماجی حقیقت بنا کر رکھ دیا۔ ہوائی بابا کا دعوی نئے رنگ میں سامنے تھا۔
شہر کی گلیوں میں مچھلیاں ہی مچھلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ ارے نہیں، یہ دریا یا سمندر کا کنارہ نہیں تھا بلکہ بازار کی پگڈنڈیاں اور پٹرول پمپ کی قطاریں تھیں۔ ہر کوئی تڑپ رہا تھا۔ کسی کا دل بجلی کے بل دیکھ کر مچھلی کی طرح اچھل رہا تھا۔ کوئی پٹرول کی نئی قیمت سن کر پھڑک رہا تھا۔ کوئی اسکول کی فیس کا کاغذ دیکھ کر آکسیجن کو ترسی مچھلی بن چکا تھا۔ کہیں تنخواہ کی پرچی نے لوگوں کو پانی سے باہر اچھالی ہوئی مچھلی بنا دیا تھا۔ تو کہیں اشیائے خورونوش نے غریب کے جسم کو قینچی کی طرح کاٹ دیا تھا۔ یہاں سب کو "تڑپنے" اور "پھڑکنے" کی سہولت بن مانگے میسر عطا تھی۔ یہ "تڑپنا" اور "پھڑکنا" کوئی عام الفاظ یا شاعرانہ تشبیہ سے ترقی پا کر ہماری قومی پہچان بن چکے تھے۔ ہر دوسرا آدمی تڑپ کا اشتہار لگ رہا تھا۔ محقق صحافی کو یوں لگا کہ کسی بڑے سیٹ پر ایکٹنگ چل رہی ہے۔ پس منظر یہ شعر پڑھا جا رہا تھا۔
کسی پہلو نہیں چین آتا ہے عشاق کو تیرے
تڑپتے ہیں فغاں کرتے ہیں اور کروٹ بدلتے ہیں
(ہریش چندر)
صحافی نے کئی ایسے لوگوں کو بھی مچھلی سے زیادہ تڑپتے دیکھا جن میں محبوب تو کیا عاشق تک بننے کی صلاحیت نہ تھی۔ دوسری طرف کئی ایسے لوگ بھی تھے جو بن پانی کی مچھلی سے زیادہ اور مسلسل تڑپ رہے تھے۔ ہوائی بابا نے بتایا کہ ان کے پیچھے کتنے ہی لوگوں کا عمل ہے۔ یہ بیک وقت کئی لوگوں کے محبوب ہیں سو ہر تعویذ پر تڑپتے ہیں۔ ان تعویذات کا شکار زیادہ تر سرکاری ملازمین تھے۔ لوگ بلوں کے بوجھ، قسطوں کے شکنجے۔ دوا اور علاج کے خرچ اور بے روزگاری تلے کچلے تڑپ رہے تھے۔
کئی ایسے بھی تھے جو اپنی ہی انا اور حسد کے بوجھ سے تڑپن میں مبتلا تھے۔ جو تڑپنے سے بچ جاتا وہ اچانک "پھڑک" اٹھتا تھا۔ پٹرول کی نئی قیمت سن کر۔ سبزی والے کا ریٹ دیکھ کر یا سکول کی فیس کا پرچہ ہاتھ میں آتے ہی۔ یوں لگتا تھا جیسے سب collectively کسی بڑے فرائی پین میں ڈال دیے گئے ہوں اور جیسے ہی آگ تیز ہوتی تو کوئی تڑپتا، کوئی پھڑکتا اور کسی سوختہ جاں کو جب الٹا پلٹا جاتا تو وہ غالب کی زبان میں چلاتا
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
کسی کے منہ میں زبان نہ تھی کہ وہ کہتا "ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا" کبھی کبھی کوئی دل جلا چلا اٹھتا
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگرمیں ہے
صحافی نے سوچا: واہ رے بابا! تیرے مرید ہرے بھرے رہیں۔ ہوائی بابا کو کوئی عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شہر کی حالت ایسی تھی کہ ہر دوسرا آدمی پہلے سے ہی مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ ہوائی بابا نے "اندر کی خبر" کو "روحانی پیش گوئی" بنا دیا تھا۔ سب حالات کے مارے بن پانی کی مچھلی بن چکے تھے۔ ایسے ہی جس طرح بڑے بڑے منصوبوں پر صرف تختیاں لگا کر خواص نجات پا چکے اور عوام کو قرض تلے تڑپایا جا رہا ہے۔ صحافی نے نوٹ بک بند کی اور سوچا کہ محبوب بھی غریب ہو کر حالات کے قدموں میں پڑے ہیں۔ اب کسی میں اٹھنے کی سکت باقی نہیں۔ وہ سب کو کہنا چاہتا تھا۔
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے
(شاد عظیم آبادی)
لیکن نئے بسمل تڑپنے کے فن سے نا آشنا تھے اور پھر دیوانے جتنا بھی تڑپتے، چیختے چلاتے۔ بالآخر تھکا ہار کر گر جاتے۔ صحرا میں لہو کی چھینٹ تک دکھائی نہ پڑتی۔
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
(چکبست برج نرائن)
یوں لگتا تھا کہ شاید یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں خود مچھلی بھی پانی میں سکون کا سانس لے کر کہتی ہوگی: "شکر ہے، میں انسان نہیں، ورنہ کب کی پھڑک پھڑک کے بھن گئی ہوتی۔

