بزم راحت سخن اور میر انیس کانفرس
ادبی تقریبات کے انعقاد کا مقصد و منتہا اعلی اخلاقی اقدار کی ترویج و تربیت کا اہتمام ہے۔ رثائی ادب کے حوالے سے مجالس کے متوازی ادبی کانفرنس کا اعلان یقینی طور پر ایک حقیق اور متحرک روحانی پکار ہے۔ رثائی ادب ایک مکلف کی حیثیت سےکل اور اس کے اجزا کے تعارف و تفہیم کا فریضہ نبھاہنے کی رسم ادا کرتا ہے۔ ہر مذہب کی بنیاد انسانیت پر ہے اور حسینیت یک جہتی کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر ہر مذہب، ہر گروہ اور ہر قوم و ملت کے افراد مشترکہ اظہار غم کے لیے موجود رہتے ہیں۔ میر انیس اور رثائی ادب باہم مربوط و یک جان ہیں۔ اخلاقیات کے مظاہر و مناظر سے واقفیت کے لیے مراثی انیس سے بہتر شعری مثال نہیں۔ میر انیس نے مرثیہ نگاری کو جادو بیانی کا معجزہ عطا کیا اور اس فن کے ذریعہ بالواسطہ اعلی اخلاقی تربیت گاہ کی بنیاد رکھی ہے۔
مری قدر کر اے زمین سخن
کہ میں نے تجھے آسماں کر دیا
رثائی ادب میں میر انیس کا کلام درس اخلاقیات سے لبریز ہے۔ اس سنہری روایت کے تسلسل کو قائم رکھنے میں میں بزم راحت سخن نے رثائی ادب کی ترویج کا بیڑا اٹھایا ہے۔ میر انیس کے 150 ویں یومِ وفات پر لاہور میں 8 دسمبر 2024 کو عروسِ سخن، خیالِ نو اور بزمِ راحت سخن کے زیرِ اہتمام عالمی "میر انیس کانفرنس" کا انعقاد یقینی طور پر رثائی ادب کے فروغ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ میر انیس کانفرس دنیا بھر میں رثائی ادب سے لگاؤ رکھنے والوں اور خاص طور پر ادبی وقار کے حوالے سے لاکھوں لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
ادب میں توسیعی رحجان کوئی مادی خصوصیت نہیں ہے۔ وزن یا حرارت کے منہاج سے آگاہی کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے تجربے سے استفادہ کر سکیں جو ہمارے استدلال کی لامتناہی پیچیدگیوں میں قدم بقدم ہمارے ہمراہ رہے۔ ہمارا ادراک حقائق کی تفہیم میں مددگار ہو۔ اس خیال کی استقامت میر انیس کانفرس کی بنیاد ہے۔ یہی فصیح و بلیغ محاسن اقدار کو پروان چڑھانے کا عزم بزم راحت کا مشن ہے۔ جہاں رثائی ادب کے تحت غم کدہ جوان رکھا جائے گا۔ اس ادبی تنظیم کی بنیاد دو سال قبل رکھی گئی اور اس کا نام معروف ادیب و انسائیکلوپیڈیا آف میر انیس کے مصنف جناب مولانا راحت حسین ناصری صاحب کی نسبت سے تجویز کیا گیا تھا۔
بزم راحت کے سرپرست اعلی ڈاکٹر بلال نقوی صاحب ہی بزم کے نام کے تجویز کنندہ ہیں۔ بزم کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دوسالہ قلیل عرصے میں 30 سے زیادہ مجالس و محافل کا انعقاد اس حسن خوبی سے کروایا گیا ہے کہ سنجیدہ حلقوں میں اس کی توانا گونج 2023 میں "یادگار انیس" کے سیمینار سے "میر انیس کانفرس" تک آ پہنچی ہے اور خوب زور و شور سے سنائی دے رہی ہے۔ گویا بزم راحت کے زیر سایہ سیمینار و کانفرس رثائی ادب کو سینچنے کا چرخہ ہے جو بنائی پہ مگن ہے۔ واقعہ کربلا کے حوالے سے یہ دھاگہ سلجھتا ہی جا رہا ہے۔
اس حسن اعتراف کا ثبوت "یادگار انیس" کے موقع پر میر انیس ایوارڈ کی کی صورت ڈاکٹر اسد اریب صاحب کو پیش کیا گیا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بزم راحت کو رثائی ادب کی تربیت گاہ کا درجہ حاصل ہے۔ اسی بزم کے پلیٹ فارم سے بہت سے نئے مرثیہ نگار شعرا اور تحت اللفظ خواں حضرات کا تعارف بھی کروایا جا چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ مرثیہ کا صحیح نقاد وہ ہے جس نے کسی اچھے مرثیہ نگار کو تحت اللفظ مرثیہ پڑھتے سنا ہو اور ایک خاص فضا میں رسی بسی خوش بو کے ساتھ اس مرثیہ سے لطف اندوز بھی ہوا ہو۔ اس اعتبار سے بزم راحت نہ صرف رثائی ادب کا راحت کدہ بلکہ کندن بنانے والی خانقاہ ہے۔ جہاں سے نگیں اور موتی ڈھل کر روشنی بکھیر رہے ہیں۔
مرثیہ کو دنیا کی قدیم ترین نسل انسانی کی مشترک صنف کلام قراد دینا غلط نہیں ہے۔ کہیں آسمان رو رہا ہے اور کہیں زمین آہ و بکا میں مگن ہے۔ بزم راحت اپنے اراکین سمیت رثائی ادب کے حوالے سے نئے اسالیب میں ارتقاء کا سلسلہ جوڑے رکھنے پر آمادہ عمل ہے۔ دو سال کے قلیل عرصہ میں یہ کامیابیاں بے مثل ہی نہیں۔ ادب کے ساتھ گہری وابستگی کا اظہار بھی ہیں۔
میر انیس کانفرس بھی رثائی و تقدیسی ادب آداب کا سلسلہءآب رواں ہے۔ جس کا نمک ہر آنکھ میں گھلا ہے۔ اخلاق فاضلہ کی تعلیمات ہر مذہب میں موثر ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ اخلاقیات سے بعید قومیں غورو فکر سے محروم اور فہم و ادراک سے عاری ہوتی ہیں۔ رثائی ادب تفہیمی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے اور میر انیس کی شاعری واقعہ کربلا کے حوالے سے رحم، خوف، شرافت نفس اور حقانیت کے جذبات پیدا کرتی ہے۔
استادہ آب میں ہے یہ روانی، خدا کی شان
پانی میں آگ، آگ میں پانی خدا کی شان
بزم راحت کے خاندان کا تعارف بھی جاہ و حشمت سے لبریز ہے۔ بزم کے صدر محمد علی ظاہر، نائب صدر کاظم ناصری، معتمد خصوصی آغا جون حیدر اور مشاورتی کابینہ کے ارکان میں ڈاکٹر عرفی ہاشمی، پروفیسر جوہر عباس، سید محمد باقر زیدی اور عادل مختار صاحب شامل ہیں۔ بزم راحت کے اعزازی ارکان میں سید ندیم رضوی۔
مصطفی علی، سید کمال زیدی اور حسیب چشتی شامل ہیں۔ بزمِ راحت سخن مرثیے کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے تحت الفظ خواں کاظم ناصری نے لاہور کی فضا کو پھر سے مرثیے کے لیے سازگار بنا دیا ہے۔ جادو بیانی کے وصف سے مالا مال کاظم ناصری نے رثائی ادب کے حوالے سے بہت مختصر وقت میں جو خدمات انجام دیں ہیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ سیمینار اور مجالس و محافل کے پے درپے انعقاد کے حوالے سے نہ صرف کمال زیدی صاحب بلکہ صدر سے اراکین کی ادبی اور انتظامی خدمات کے حوالے سے کاوشیں قابلِ داد ہیں۔
امید واثق ہے کہ 8 دسمبر کو منعقد ہونے والی میر انیس کانفرس حساسیت کے چشموں کو رواں رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔