ایک گیان، ڈاکٹر فلیحہ کاظمی
ایک متبسم، متحرک اور مثبت تخلیقی وفور کی حامل شخصیت اپنی صلاحیتوں سے جادو جگا کر ادارہ کو ترقی کی راہ دکھا سکتی ہے۔ خواہ وہ لاہور کالج یونیورسٹی میں ہو یا پھر ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں۔ دونوں عمارات میں ڈاکٹر فلیحہ کاظمی کا تعارف قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت ہے۔ جو نہ صرف بہترین منتظم اور عمدہ محقق ہیں۔ بلکہ ان کی خصوصی صفت یہ ہے کہ وہ ہر خاص و عام کو اپنے قافلہ کا جزو بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
لاہور کالج یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کی خوش قسمتی کہ ڈاکٹر صاحبہ کی انتظامی صلاحیتوں کی جگمگاہٹ شعبہ فارسی کو ممتاز کیے ہوئے ہے۔ شعبہ فارسی کے قریب سے گزر ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ چھوٹا سا دبستان شان سے اپنی قامت دکھا رہا ہے۔ لیکن یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ ہوم اکنامکس یونیورسٹی کی شدید خوش قسمتی ہے کہ تین سال کی بے حرکت لیڈر شپ کے بعد وی سی شپ کا چارج ڈاکٹر فلیحہ کاظمی کے ہاتھ میں آیا۔
پہلے انتظامی امور جو صرف ایک شعبہ میں چھپ دکھا رہے تھے۔ اب ڈاکٹر صاحبہ کے سامنے ایک بے رنگ محرومی کی شکایت کرتا وسیع میدان تھا۔ جو نہ صرف بنیادی ضروریات سے محروم تھا بلکہ انتظامی امور بھی بے قدری کی زحمت سے معمور اور بہت سے معاملات میں معذوری کی حد تک شکایت کنندہ تھا۔ ڈاکٹر فلیحہ نے ان معاملات کو اجالنے کی بجائے ان کے حل کی طرف قدم بڑھایا۔ بورڈز آف ڈائریکٹرز کے نوٹیفکیشن سے بورڈ آف سٹڈی کی تشکیل نو۔! بلکہ پوری تعلیمی حکمت عملی از سر نو زندہ کی گئی۔
عمارت کو یونیورسٹی کی شکل دینے کے اقدامات سے عمارت کی تزئین نو نے ہوم اکنامکس یونیورسٹی کو یونیورسٹیز کی قطار میں کھڑا کر دیا۔ ڈاکٹر فلیحہ کاظمی اجتماعی شعور کی قائل ہیں۔ ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں نیوز لیٹر کا اجرا اسی اجتماعی ورثہ کو محفوظ رکھنے کی حکمت عملی ہے۔ ایسی حکمت عملی جو لگن، استقامت اور فضیلت کے بل پر معاشرتی تربیت کے حوالے سے با معنی مثبت شراکت ہے۔
ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں پہلی بار کمپیوٹر کانفرنس منعقد کی گئی اور کمپیوٹنگ نمائش میں سائینس و ریاضی کے تکنیکی و سماجی پہلو پیش کیے گئے۔ مختلف زبانوں میں پروگرامنگ، جدید گیمز اور مختلف پزلز کی ایپلی کیشنز متعارف کروائی گئیں۔ ظاہر ہے یہ تمام منازل طے کرنے میں وی سی صاحبہ ڈاکٹر فلیحہ کاظمی کی دوررس دانش و انتظامی صلاحیتوں کا سہارا موجود رہا۔
ڈاکٹر صاحبہ نے نہ صرف طالبات کے لیے بلکہ اساتذہ کے لیے بھی حسن کارکردگی کے حوالے سے جدید تیز رفتار در پیش مسائل پر مکالمہ کیا اور تعلیمی شعور کے چیلینجز سے کامیابی سے نبرد آزما ہونا سکھایا۔ یونیورسٹی کو انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سماجیات اور صنف مطالعہ کی طرف گامزن کیا۔
پانچ نئے ریسرچ جرنلز کی منظوری سے واضح ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ تعلیمی اداروں میں تحقیق کے لیے سازگار ماحول کی کی خواہش مند ہیں۔ ان نئے تحقیقی جرائد میں الگ الگ محکموں سے وابستہ سماجی نفسیات اور وومن ایمپاورمنٹ کی تفہیم کے ذریعہ معزز سی ایم مریم نواز شریف کے وژن کو تقویت ملی ہے۔ ڈاکٹر فلیحہ کاظمی بخوبی سمجھتی ہیں کہ ایک یونیورسٹی ہی خواتین میں مثبت تعمیری شعور کو اجاگر کر سکتی ہے اور یونیورسٹی تعلیم و تربیت کے وسیع تر مفہوم کی آئینہ دار ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے لاہور کالج یونیورسٹی میں بھی کانفرنسز اور سیمینارز کی طرح اس خوش اسلوبی سے ڈالی تھی کہ رنگا رنگ اذہان کے درمیان سماجی روابط اور مکالمہ کا رستہ کھلا۔ اس کے لیے ڈاکٹر صاحبہ نے رومی، فردوسی، سلطان باہو جیسی انسان دوست شخصیات کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں الگ سے محکمہ اطلاعات قائم کیا اور پہلی بار ایڈمنسٹریشن کو ریسرچ ایوارڈز دیے گئے۔ ان تحقیقی ایوارڈز کا خاکہ ڈاکٹر فلیحہ کاظمی نے خود مرتب کیا تا کہ تحقیق ایک ثقافتی منبع کی حیثیت اختیار کر سکے۔
ڈاکٹر عظمت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ ذاتی تشہیر و خود نمائی سے بے نیاز روشنی کا کارخانہ سجا لیتی ہیں۔ ان کا امتیاز ظرف یہ ہے کہ وہ تحقیق کے سفر میں اپنے جونئیرز کو نہ صرف شامل رکھتی ہیں بلکہ ان کی تربیت بھی کرتی ہیں۔ صبح سے شام تک مصروف کار ڈاکٹر صاحبہ کی بشاشت میں کمی نہیں آتی۔ ڈاکٹر فلیحہ کاظمی کو دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ ہماری دنیا میں روشنی اس حد تک نایاب نہیں ہوئی کہ کسی کرن کی تلاش میں نظر دوڑائیں اور وہ چمکتی ہوئی نظر نہ آئے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے ہوم اکنامکس یونیورسٹی میں تحرک کی بنیاد رکھی اور اس حرکت کا رخ مثبت سرگرمیوں کی طرف موڑ دیا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے۔ اس تمدن، جس کی بنیاد ڈاکٹر فلیحہ کاظمی نے رکھ دی ہے۔ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ روشن اذہان قومی تعلیم کی خوب صورتی عیاں کر سکیں۔
ڈاکٹر صاحبہ اصول و قواعد اور راستی میں نیت و عمل کی چاشنی سے مستحکم تعلیمی ادارے کی بنیاد پر یقین رکھتی ہیں اور اسے یقینی بنا کر سرخرو ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کھنڈرات کو تحقیقی آبادی سے روشن کر دیا ہے۔ یہ ذہنی انقلاب اتنا پر اثر ہے کہ اسے اپنی سطح پر احیائے علم سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔