ابھی تک ہوا بادبانوں میں ہے

آزادی اظہار جو کہ انتہائی بنیادی ضرورت بھی ہے اور ترجیح بھی، کی بنیاد گویائی ہے۔ بچہ بولنے میں دیر لگائے تو والدین پریشان ہو کر مختلف ٹوٹکے آزماتے ہیں یا ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تا کہ بچہ اپنی زبان سے اظہار کرے۔ اسی طرح اگر کسی کی زبان صاف نہ ہو یا زبان میں لکنت ہو تو سپیچ تھراپی (speech therapy) کی مختلف تکنیکس سے مدد لی جاتی ہے۔ ایسی کسی بھی صورت میں خاموشی کو عبادت یا حکمت نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ زبان کا صاف ہونا یا اہل زبان ہونا باعث فخر ہے۔
پہلوانوں میں لنگوٹ کا پکا ہونا اور مردوں میں زبان کا پکا ہونا ظرف کی علامت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی زبان سے نہیں پھرتا۔ آزادی اظہار کے مراحل گویائی کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ اس امر میں بچوں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے کہ کیا اور کب بولنا ہے۔ کون سی بات سب کے سامنے کہی جا سکتی ہے اور کون سی بات صرف ماں یا باپ کو بتائی جانا چاہیے۔ اسی لیے مائیں اپنے بچوں کی بہت سی باتیں باپ کو نہیں بتاتیں۔
اسی طرح باپ بھی بچوں کو یہ پابند کرتے ہیں کہ یہ باپ ماں کو بھی نہیں بتانی۔ اس کا قطعی مطلب کوئی سازشی تھیوری نہیں۔ بلکہ رشتوں کے احترام، سماجی رویوں، تعلقات میں بہتری اور امن کے لیے یہ ضروری ہے کہ زبان کے آگے خندق نہ ہو۔ یا کھلے لفظوں میں زبان کو قابو میں رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ دور حاضر میں ایک اور محاورہ بھی ایجاد ہوا ہے۔ "زبان پر ٹامی باندھنا"، ہماری دیہاتی زبان میں اس ٹامی پر کوئی پردہ نہیں رکھا جاتا اور نک نیم کی بجائے اصلی نام لے کر اصلیت کھولی جاتی ہے۔ زبان کے انہی کارناموں کے پیش نظر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی زبان کھل گئی ہے یا پہلے اس کی تو زبان بند کرو۔
آج بھی کئی جگہوں پر ساس یا بہو کے لیے زبان بندی کے تعویذ کروائے جائے ہیں۔ ہمارے ایک پیر صاحب نے تو شوہروں کو بھی ایک تعویذ دانتوں کے درمیان رکھنے کی تاکید کی ہے۔ ایسے عملیات و تعویذات کے پس پردہ یہ خواہش ہے کہ ہم چاہتے ہیں، صرف ہماری بات سنی جائے۔ ہماری ناک اونچی رہے۔ ہماری پگڑی سر پر رہے اور صرف اور صرف ہمیں اہم تسلیم کیا جائے۔ ہمارے سیاست دانوں نے تو عوام کی اجتماعی زبان بندی کر رکھی ہے۔ جمہوری حکومت میں وہ اپنے فیصلے سنا کر مائیک بند کر دیتے ہیں۔ ٹاک ٹاک ہو یا ویڈیوز ہر جگہ صرف تشہیر کا مطمع نظر ہے۔ جہاں آواز نہیں وہاں صرف تصویر سے کام چلا لیا جاتا ہے۔
تری تصویر باتیں کر رہی ہے
میں اس کے سامنے غم صم کھڑا ہوں
اور ہمارا جواب ہے
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
سیاست میں نہ تو وعدوں کی اہمیت ہے نہ عوام کو ریلیف دینے کی کوئی خواہش۔ ایسے بہت سے معاملات ہیں جہاں وزیر جس زبان سے وعدہ کرتا ہے اسی زبان سے مکرنا ہنر اور مہارت سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر تعلیم اور صحت کے معاملات میں وہ دواؤں کی طرح زبان بدلنے کو علاج کا نام دیتے ہیں۔ سچ ہے کہ "لاکھ لکھیرے کے ہاں یا لپاڑی کی زبان پر" اس کا مطلب ہے۔ مقدور سے زیادہ مانگنا، جھوٹی لن ترانیاں، بے بنیاد شیخی، کسی مہاجن کے گماشتے نے چٹھی بھیجی کہ ایک لاکھ روپے بھیج دو اس نے جواب دیا، ایک لاکھ والے کے پاس ہے یا گپّی کی زبان پر۔
اہل سیاست بھی یہی زبان استعمال کرتے ہیں اور ان کے پروگرام جاری و ساری رہتے ہیں اور سرکاری ملازم کے لیے سہولیات کے "پروگرام وڑ جاتے ہیں"۔ یہی زبان ہے جو مجاہد کا درجہ بھی دلوا سکتی ہے اور یہی زبان رتبہ شہادت پر سرفراز بھی کروا سکتی ہے۔ یہی زبان آزادی بھی دلواتی ہے اور کالا پانی بھی بھیجتی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ زبان ہی ہاتھی پر چڑھاوے، زبان ہی سر کٹواوے۔ یعنی زبان ہی ترقی و اقبال کا سبب ہے اور زبان ہی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے۔ تاہم نہ ہی زبان بدلنا اچھا سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی زبان سے پھرنے کو اخلاقی طور پر درست سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ دل کو تسلی دی جاتی ہے کہ
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
دوسری طرف زباں بندی کو آزادی اظہار پر پہرے سمجھا جاتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اُڑالی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مِل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
سرکاری ملازموں کے لیے کچھ حکومتی فیصلے زبان کے تیروں سے کم نہیں ہوتے جو دل، جگر کیا روح تک زخمی کر دیتے ہیں۔ زبان پر چاپ چڑھائے ہر ایک کو ایک ہی خانے میں رکھنا بصیرت ہے نہ بصارت۔ ایسا ہی ایک فیصلہ 2021 میں کیا گیا اور یونیورسٹیز بربادی کی راہ پر گامزن ہیں۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
اساتذہ کے بقایاجات کے نام پر چار، پانچ لاکھ کی کھلی کرپشن زبان کے تیروں سے زیادہ زہریلی ہے۔ ایک سروے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کتاب نہ پڑھنے والے افسران لفظوں کی تاثیر سے بھی ناواقف و انجان اور ہیر پھیر کے عادی ہوتے ہیں۔ گویائی ہو یا آزادی اظہار کی خواہش، معلوماتی تیقن جوہر یا (essence) ہے اور یہ قیمتی احساس کتاب پڑھے بغیر، شعر سنے بغیر، موسیقی جذب کیے بغیر ناممکن ہے۔ اس کے بغیر بصیرت و بصارت پتھر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ ایسے کتنے پتھر ہیں جو کارکردگی کےصنم کدے ویران کیے ہوئے ہیں۔

