آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں

جنگل میں منگل کی روایت پرانی بھی ہے اور زبان زد عام بھی۔ یہ روایت پرانی سیاست گری کی طرح خوار ہو چکی تھی۔ اسی لیے اس بار جنگل میں میلا لگا ہوا تھا۔ ویسے تو جنگل میں ہر دن ہی کسی نہ کسی طریق پر گہما گہمی کا سماں رہتا تھا اور تمام جانور ہنسی کھیل سے زیادہ سازشوں میں مست نظر آتے تھے لیکن یہ میلا باقاعدہ اعلان کے بعد ہی منعقد کیا گیا تھا۔
اس میلے کی ممکنہ تصاویر جنگل کے ہر درخت پر آویزاں کی گئیں اور پچھلے کئی دن سے رنگ برنگ اشتہارات چلائے جا رہے تھے۔ جن میں لالچ و دلداری کا سامان دکھایا جا رہا تھا۔ جنگل کے جانور کافی حد تک آن لائن ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھ چکے تھے۔ سارس اور لومڑی نے بھی دعوتی برتن بدل لیے تھے اور ڈسپوزیبل کپ استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔ بہت سے جانور شکار کے لیے بھی اب مصنوعی ذہانت سے مدد لیتے تھے۔ وہ جانور جو بوڑھے اور ضعیف ہو چکے تھے اور ان کے لیے شکار کرنا آسان نہیں رہا تھا۔
ایسے تمام جانور جنگل کے مختلف گوشوں میں آباد مصنوعی ذہانت کے بل پر ہی اپنی بقا پر جتے ہوئے تھے۔ البتہ چالاک اور عقل مند جانوروں نے اصل ذہانت کے استعمال سے طاقتور جانوروں سے ایکا کرکے مصنوعی ذہانت کو بھی مات دے دی تھی۔ اب وہ صرف جال بچھانے کا کام سنبھالے ہوئے تھے۔ یہ جال جنگل کے ہر رستے پر بارودی سرنگوں کی مانند بچھائے گئے تھے اور کم زور شکار اس میں جکڑے جاتے تھے۔ جنگل کا یہ نظام رائج نظام کے متوازی اسی کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔
انسانی معاشرہ میں البتہ مصنوعی ذہانت کی تصاویر کافی حد تک پہچانی جاتی تھیں اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آن لائن فراڈ کی بوگس صورت پر پھر سے لیپا تھوپی کرنا پڑتی تھی۔ جنگل کے برعکس انسانی معاشرہ میں شعور کی دخل اندازی سے کافی حد تک آن لائن فراڈ و ملفوظات کی نقاب کشائی کا عمل جاری کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بے ایمانی و فراڈ کی سطح مرتفع سنگلاخ بھی ہے اور پختہ بھی۔
یہ امکان برقرار ہے کہ مصنوعی ذہانت کے میٹھے پانی میں مسلسل اور بار بار استعمال کیے جا رہے انجکشن کی طرح زہر شامل کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے معصوم بچوں میں بھی ایڈز کے جراٹیم داخل ہو گئے ہیں۔ یہ خندق مزید گہری ہونے کا خدشہ ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں ایف ایم پچانوے کے اشتہار سے پہلی بار پتہ چلا کہ ریڈیو ہاتھوں سے سنا جاتا ہے۔ جب بیوی شوہر سے کہتی ہے کہ وہ کھانا نہیں بنا سکتی کیونکہ اسے ریڈیو سننا ہے۔
اسی طرح اے آئی کی مصنوعی ذہانت سے بنے اشتہارات نے بہت نہیں تو زیادہ تر زیر و زبر کر رکھا ہے۔ بنک(Bank) بے ناک ہو چکا ہے اور خشک کو خوشک پڑھا اور سمجھا جا رہا ہے اور آن لائن جوان نما شیطان موبائیل کمپنیوں سے ڈیٹا لے کر صبح سے شام تک کبھی ڈگریوں، کبھی اکاؤنٹ اور کبھی سم رجسٹریشن کی ویریفیکیشن کے نام پر لوٹ مار میں مشغول ہیں۔ شنید ہے کہ یہاں سائبر سیکیورٹی کے پر جلتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی جنگل میں منعقد میلے کی۔ یہ میلا بھی طاقتور ضعیف جانوروں نے مصنوعی ذہانت کے بل پر ترتیب دیا تھا۔ جہاں وہ جنگل کے تمام جانوروں کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔ ایک بڑی سکرین اسی مقصد سے جنگل میں موجود بانس کے درختوں پر نصب کی گئی تھی۔ تاکہ بے وقوف جانوروں کو بانس پر چڑھانے کا عمل آسان ہو سکے۔ شوگر کوٹڈ دعوت کا سلسلہ ہائے کوہسار چینی کی درآمدی و برآمدی پر پیچ گزرگاہوں کی بدولت فی الحال موخر تھا۔ کسی نہ کسی بہانے کتنے ہی بے وقوف جانور بانس پر نصب سکرین پر دیکھے جانے کے خبط میں مبتلا جان سے جاتے تھے۔
تمام جانوروں کی نظریں سکرین پر جمی تھیں۔ لیکن سکرین پر سب کو اپنا ہی عکس نظر آ رہا تھا۔ یہ میلا منعقد کرنے کا مقصد ہی ظاہری سدھار تھا۔ جانوروں کے لیے فی الحال میلے کے اغراض و مقاصد سے زیادہ اہم یہ تھا کہ وہ پردہ سکرین پر کیسے دکھائی دے رہے ہیں۔ سب جانوروں نے اپنی اپنی ڈیوائسز آن کیں اور خوب صورت و دلکش نظر آنے والی ایپس (Apps) ڈاؤن لوڈ کرنا شروع کیں تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ خوب صورت نظر آ سکیں۔ سکرین پر بے ایمانی، ہوس، جلد بازی، وحشت، عدم برداشت، ظلم و بربریت کے خون میں نہائے جانور اپنے رنگین لبادوں میں جلوہ افروز تھے۔ اب موقع تھا کہ انھیں انسانی معاشرہ میں داخلہ کا ٹکٹ جاری کیا جاتا۔ سب گڈ مڈ ہو رہا ہے۔
تہذیب کے قَفَس میں ہیں انسان جانور
ہم لوگ قَید، دہر کے اِس چِڑیا گھر میں ہیں
(سید سبط علی صبا)
مصنوعی ذہانت کے ممکنہ نقصانات میں غلط اور گمراہ کن معلومات کا تیزرفتاری سے پھیلاؤ، تعصب اور تفریق میں اضافہ، غیر اخلاقی اصطلاحات کے بل پر نگرانی اور ذاتی زندگیوں میں بے جا مداخلت، ہراسانی، دھوکہ دہی اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیاں شامل ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال اداروں پر اعتماد میں کمی لانے، سماجی ہم آہنگی کو کمزور کرنے اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرات پیدا کرنے کا خطرناک وائرس بن چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت نے تہ و بالا کر دیا ہے۔
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ ہنوز دغا پڑھ رہے ہیں اور جو لوگ دغا کر رہے ہیں وہ اس بات پر مصر ہیں کہ ہم ان سے ہی دوا لیں اور اس دعا ہی تصور کریں۔ ساقیا محفل میں آتش پر سوز نہیں، گلشن کی جمیعت پریشان ہے اور ہماری کابینہ میں ایک کے بعد ایک وزرا کی آمد جاری ہے۔ بے چارے مرجھائے پھول منتظر ہیں کہ کب باد بہاری کا پیغام آئے اور مصنوعی ذہانت کی تابانیاں حقیقی آزادی کی تصاویر دکھاتی چلی جا رہی ہیں۔
رہے نام اللہ کا۔