Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Saad Ullah Jan Barq/
  3. Pehli Tarjeeh Nao Hazar Nao Sao Ninave

Pehli Tarjeeh Nao Hazar Nao Sao Ninave

پہلی ترجیح نو ہزار نو سو نناوے

یہ"سن کر آپ بھی "سن"ہوکر رہ جائیں گے بلکہ ہماری طرح سارے جسم میں "سنسنی"پھیل جائے گی دل ودماغ میں "سناٹا"چھا جائے گا کہ ہماری حکومت کے پی کے یعنی "خیر پہ خیر"کا حوصلہ ان نامساعد حالات میں بھی بے پناہ بلند ہے اور اس کا اندازہ باتدبیراعلیٰ کے اس بیان سے ہوجاتاہے جس میں انھوں نے اپنی حکومت کی "پہلی" ترجیح نمبر نوہزار نوسو نناوے لانچ کرتے ہوئے فرمایا کہ ضم اضلاع کی تیزرفتار ترقی ان کی "اولین" ترجیح ہے۔ نامساعد حالات سے ہمارا مقصد وہ حالات نہیں ہے جو کورونا عرف کوئڈ نائنٹین کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں وہ تو ایک طرح نعمت اور دوھیل گائے بن گئی ہے یا بنادی گئی ہے۔ بلکہ کچھ اور ہے

قاطع اعمار میں سارے نجوم

وہ بلائے آسمانی اور ہے

بے شک ہم محقق ہیں اور پاکستان کی پھر خیر پخیر اور پھر اسلام آباد اور پھر پشاور کی ساری "اکیڈمیوں " کے تعلیم یافتہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تربیت یافتہ رجسٹرڈ محقق ہیں۔ لیکن آج تک اس "اولین ترجیح"کاپتہ نہیں لگاپائے جو ان "پہلوں " میں سب سے زیادہ "پہلی"ہے

ہر منزل غربت پہ گمان ہوتا گھر کا

بہلایا ہے ہر گام ہمیں دربدری نے

ہم بڑی محنت سے اور اپنا ٹٹوئے تحقیق دوڑا کر کسی پہلی ترجیح تک پہنچتے ہیں لیکن جب وہ پلٹ کر دیکھتی ہے تو اس کی پیشانی پر ایک نمبر لکھا ہوا دکھائی دیتاہے پہلی ترجیح نمبر11.22.33.44.55.77.88یا نناوے سو اوراس سے آگے پیچھے بے شمار۔ جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی کے مطابق ہم پھر لگ جاتے ہیں اس سلسلے میں اب تک ہم تقریباً اتنی ہی پہلی ترجیحات دریافت کرچکے ہیں، جتنے ان سترسالوں میں "وزیر" لاحق اور سابق ہوئے۔

اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظرکہاں

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں

جہاں تک ہمیں یاد ہے کہ انصاف کے اس دور انصاف اور تحریک انصاف کی پہلی ترجیحات کی تعداد بھی تین ہندسوں میں ہے۔ تبدیلی یا نیا پاکستان، ریاست مدینہ، عمران خان کا"وژن"اور پھر آگے۔ گویا ترجیح۔ جدھر دیکھیے ترجیح ہی ترجیح۔ بلکہ چہرے نام اور وقت بدلتاہے لیکن ترجیحات اپنی جگہ قائم ودائم رہتی ہیں بلکہ ساتھ ہی مزید پہلی ترجیحات کی اولادیں بھی برابر پیدا کرتی رہتی ہیں۔

ویسے حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ پہلی ترجیح یا ایک ہزار ایک سو ایک پہلی ترجیحات صرف اوپر والوں کی ہوتی ہیں نیچے والے یا نیچے والے ہاتھ کی صرف ایک ترجیح ہوتی جو پہلی بھی ہوئی ہے اور منچلی بھی اور آخری بھی اور ترجیح چار حرفی ہوتی ہے

کھڑا ہوں آج کی"روٹی"کے چار حرف لیے

سوال یہ ہے"کتابوں "نے کیا دیا مجھ کو

کتابوں کے ساتھ آپ خادموں رہنماؤں رہزنوں اور باتدبیروں کو بھی شامل کرسکتے ہیں، ان نیچے والوں بلکہ نیچے ہاتھ والوں کی ترجیح بھی۔ بلکہ "ہم" نیچے والوں کی ایک اور"پہلی ترجیح"بھی ہوتی ہے جو سترسال سے بدستور چلی آرہی ہے لیکن اس کے بارے میں ہم بتانا نہیں چاہتے کہ جو چیز ممکن ہی نہ ہو اس کا دہرانا کیا۔ اور نہ ہمارے اتنے نصیب ہیں کہ گردن کے پھڑوں سے بغیر سرجری کے چھٹکارا پاسکیں

گولی بغیر مر نہ سکا لیڈر اے اسد

بچپن میں وہ پیے ہوئے بلی کا دودھ تھا

یہ راز کی بات ہمیں ایک بوڑھی دایا نے بتائی ہے۔ جواکثر بڑی بڑی ترجیحات کی زچگیاں ساری عمر کراتی رہی تھی اس نے ہمیں یہ راز کی بات بتائی کہ ان بڑی بڑی ترجیحات کے ہاں نومولودکو سب سے پہلے "بلی"کا دودھ اور چیل کے انڈے کھلائے جاتے ہیں واللہ اعلم۔ لیکن لگتاایسا ہی ہے۔

بہرحال پہلی ترجیح یا پہلی ترجیحات یا مجموعہ پہلی ترجیحات پربات کرتے ہیں۔ اس "دریکتا" اور گوہرنایاب"اولین ترجیح"کے معاملے میں یوں تو سارا ملک مالا مال اور لدا پھندا ہے یہاں تک کہ ہرشاخ پرکوئی نہ کوئی"اولین ترجیح"بیٹھاہواکسی اوراولین ترجیح کے "پٹھے"کو اولین ترجیحات سکھا رہاہے۔ لیکن ہمارا صوبہ کے پی کے عرف"خیرپہ خیر"تواتنا غنی ہے کہ کسی گٹر میں بھی ہاتھ ڈالوتو آٹھ دس اولین ترجیحات اچھل کر آجائیں گی۔ اور حکم میرے آقا کا ورد کرنے لگیں گے۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں مٹی زرخیز، آب ہوا موافق اور لوگ نہایت ہی اصلی سچے اور نجیب الطرفین احمق ہیں، ثبوت درکار ہوں تو ذرا کورونا عرف کوئڈ نائنٹین سے پوچھو کہ ساری دنیا کی یہ"آخری ترجیح" بھی یہاں آکر"اولین ترجیح"بن گئی ہے، جسے دیکھیے مرنے کے لیے اسی کو "اولین ترجیح"بنائے ہوئے ہے۔

اور یہ سب کچھ یہاں کے نادر ونایاب عقائد نظریات و خیالات کا نتیجہ ہے جن کی تعمیر میں پہلا نمبرحکومت اور اس کی اولین "ترجیحات" عرف وزیروں مشیروں کا ہے ہر دوسرے فرد کے اس عقیدے کا ہے کہ "سب کچھ خدا کرتا ہے" انسان توصرف ترجیحات کا پتلا ہے۔ اور اس میں سب سے زیادہ کردار "یوگ دان"" ان تلقین شاوں "کاہے جو خود کو"کاردنیا"کے ماہرین سمجھتے ہیں لیکن سال میں چند روز دوسروں کو یہ ازبر کرتے ہیں کہ سب کچھ خداکرتاہے ہم نہیں کرتے حالانکہ سارا سال خود وہی کرتے ہیں جو خدا نہیں کرتا

بہ بانگ چنگ می گوئیم آں حکایت ہا

کہ ازنہفتن آن"دیگ"سینہ می زدجوش

یعنی میں وہ بنسری کی زبان میں کہہ رہاہوں جس دیگ کی ابال سے میرا سینہ جل رہاہے۔

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed