مسٹر غین غین
ہماری ملاقات اس نابغہ روزگارشخص سے اس کے اخبار کے دفترمیں ہوئی، ویسے یہ دفترتو چارفٹ کی ایک گلی میں تھا لیکن اس پرجوجہازی قسم کا بورڈلگاہوا تھا، اس پر لکھاتھا۔
دفاتر روزنامہ "محافظ پاکستان"
(شمال مغربی پاکستان کاسب سے کثیر الاشاعت اخبار)
پشاور شہر کے ان "کثیرالاشاعت" اخباروں کا ذکرتو میں اکثرکرتا رہا ہوں جو پانچ عدد کی کثیرتعداد میں چھپتے تھے لیکن ان کے مالکان، مدیران، مینجرز، رپورٹرز، پبلشرز وغیرہ کاذکر کم کم کرسکاہوں، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ سارے کے سارے تقریباً ایک ہی جیسے تھے لیکن جس عجیب الخلقت، عجیب الخصلت اورعجیب العادت شخص کاذکرکرناچاہتاہوں، وہ ہرلحاظ سے لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ایک تھا۔
شکل ایسی کہ تیس سیکنڈ سے زیادہ مسلسل دیکھی نہ جاسکے کیوں کہ آنکھوں کودھونا ضروری ہوجاتا تھا اوراگرکوئی دل کڑاکرکے دیکھنا شروع کرتا توکم ازکم دوگھنٹے تو اس کاچہرہ دیکھنے میں لگ جاتے تھے، کوئی ایک بھی ایسا داغ نہ تھا جو اس چہرے کی بد صورتی میں حصہ دار نہ ہو۔ دونوں آنکھوں میں حد درجہ اختلافات پائے جاتے تھے، دانت بھی سارے افراتفری کاشکار ہوکر غلط مقامات پر نصب ہوگئے تھے، دودانتوں پر چاندی اورایک پر سونے کاخول چڑھاہوا تھا جو میلے ہونے کے سبب کسی پھوہڑزرگرکی دکان کا پتہ دیتے تھے۔
دراصل اسے پتہ چل گیا تھا کہ میں صحافت کی دنیا میں تازہ وارد ہوا ہوں لیکن میری زبان بڑی زہریلی اورقلم اس سے دگنا زہریلاہے، اس لیے میرے آزار سے خود کومحفوظ رکھنے کے لیے اس نے مجھے لنچ پر مدعوکیا تھا۔ سب سے پہلے تواس نے مجھے اس تصویر کے بارے میں بریف کیا جو اس کی کرسی کے پیچھے عین سرکے اوپرٹنکی ہوئی تھی جس میں وہ ایوب خان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس کے سر پرچھتری تانے ہوئے تھا۔
اس کے نیچے کی تصویر میں وہ گورنر مغربی پاکستان ملک امیرمحمد خان کے ساتھ ہاتھ ملائے ہوئے تھا۔ ایسی ہی اوربھی کئی فریم کی ہوئی تصاویردیواروں سے لٹکی ہوئی تھیں جن میں ایک تصویر قائد اعظم کے ساتھ کسی بزرگ کی تھی جس کاچہرہ نظر نہیں آتاتھا لیکن نیچے کیپشن میں لکھا تھا، وہ موصوف ایڈیٹر، پبلشرکے والد محترم تھے۔ لنچ نہایت ہی فصیح وبلیغ تھا، ایسا لگا جسے پشاور شہر کی پوری نمک منڈی ہمارے سامنے بچھی ہوئی ہو، تکہ، بوٹی، کڑاہی گوشت، بھنی ہوئی چانپیں، پٹے تکے، سیخ کباب گویا۔
وہ کیا آئے میری خلوت میں مے خانہ چلاآیا
لب لرزیدہ، لرزیدہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
طعام توفصیح وبلیغ تھا لیکن موصوف کاکلام بہت ہی غیرفصیح وبلیغ تھا، اس وجہ سے نہیں کہ ساری کہانیوں کے بہ نفس نفیس ہیرو وہ خود تھے بلکہ " ووکل ساؤنڈ بکس" میں کوئی ایسا مینوفیکچرنگ فالٹ تھاکہ بات سرکے باہرہی باہررہ گئی لیکن تھوڑی دیرمیں ہم نے اس کاکوڈ پالیا، وہ ہرلفظ میں ایک فالتو "غین" کسی نہ کسی طرح گھسا لیتے تھے جسے مجھے صحافت کاچالس سالہ تجربہ ہے، لیکن اس کے غین والے مخرج سے یوں نکلتاتھا۔ "مغجھے چغالیس سغال کغاغجربہ ہے" بہت سارے "غین" مارنے کے بعد وہ گریز کرتے ہوئے نشیب پر آکر بولا۔
مغیں، اغاب، کغو اغیک، رغاز کغی، بغات بغتاتاہوں (میں آپ کو ایک رازکی بات بتاتاہوں)
اغس سٹغوری کغو دغنیا کغے سغارے اغبغاروں نے لغیا تھا(یعنی اس اسٹوری کودنیا کے سارے اخباروں نے لیاتھا)۔
اسٹوری کیاتھی؟ ہم نے پوچھا۔ ایک بلند آہنگ قہقہ۔ بلکہ قغقغہا لگا کر بیک وقت گلے سے پندرہ بیس "غ" نکالتے تھے۔
رغوسی بھغڑ۔۔ مطلب روسی بھڑ
وہ دراصل مجھے یہ گرکی بات سمجھا رہاتھا کہ کامیاب صحافت کے لیے ایسی اسٹوریاں اڑانا بہت ضروری ہے جن کی تصدیق یا تردید کوئی نہ کرسکے اوراس میں مال مسالہ اتنا ہوکہ ہراخباراسے لے اورہرپڑھنے والا پڑھے۔
پھر اس نے غین کی کثرت کے ساتھ مجھے وہ اسٹوری بھی سنائی جو شہزادی خاٹول(اس کے مطابق خغاٹغول)سے متعلق تھی۔ شہزادی خٹول شہزادہ احمد شاہ کی نوبیاہتا بیوی اورظاہرشاہ کی بہوتھی۔ بلاکی خوبصورت تھی، اس لیے اخباروں میں اس کی تصاویر اکثرآتی رہتی تھیں، شہزادی سے زیادہ اس کانام خوبصورت تھا۔ "خٹول"ٹیولپ کو کہتے ہیں، یہ لفظ پشاور، مردان میں غاٹول بولاجاتا ہے، ٹیولپ آف ہالینڈ سے یہ پھول کم نہیں لیکن یہاں قدرتی اورخودرو ہوتاہے۔
شغزعادی خغاٹخول کے لغاردے مغیں پشغوری اڑغائی تغی، کہ وہ پشاورکے گول گپے بہت پسند کرتی ہے۔