مزاروں کے لیے ’’ہی‘‘
دنیا میں جب بھی کچھ ہوتا ہے اور یہ دنیا کبھی آرام سے تو بیٹھی نہیں، ہمیشہ اس میں کچھ نہ کچھ یا کچھ کچھ یا بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے تو ہمارا برا حال ہو جاتاہے کہ اب اس میں ہمیں بھی کچھ نہ کچھ بولنا پڑے گا۔ دانا دانشور لوگ تو دانش کی بوریاں رکھتے ہیں، اس لیے کسی نہ کسی "بوری" سے بورا نکال کر بوریت کا انتظام کر سکتے ہیں لیکن مخمصے میں ہم پڑ جاتے ہیں کہ اب یار لوگ کہیں گے کہ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں اور ادھر اپنا کھسیہ خالی پڑا ہوا ہے۔
اب کے بھی نئے سال کے ساتھ دنیا نے حسب معمول اور حسب تاریخ بہت کچھ کہنا شروع کر دیا ہے، شاید جس بیل کے سینگوں پر یہ دنیا ٹکی ہوئی ہے، اس نے سینگ بدل لیا ہو۔ ایسے میں ہمیں بھی کچھ نہ کچھ تو کہنا پڑتا ہے جس کا ایک بہت اچھا طریقہ ہم نے قصے، کہانیوں اور سیٹیوں بانسریوں میں بات کرنے کا سیکھا ہوا ہے۔ سو اسی کوشش میں ہم آج ایک پشتو ٹپے کا سہارا لے رہے ہیں۔ ٹپہ پشتو کا ایک معروف اور منفرد ذریعہ اظہار ہے۔ یہ ٹپے ہزاورں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں اور آج تک کوئی بھی عالم محقق اور مورخ یہ معلوم نہیں کر پایا ہے کہ یہ ٹپے کون بناتا ہے، کہاں سے آتے ہیں یعنی:
یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانہ ہے
آنکھوں میں جو قطرہ تسبیح کا دانہ ہے
ان ٹپوں میں دنیا کے ہر موضوع پر، انسانی سماج کے ہر پہلو پر اور جذبات و احساسات کے ہر رخ پر ٹپے موجود ہیں جن میں بعض ٹپے وقت کے ساتھ ساتھ بے معنی بھی ہو جاتے ہیں اور کچھ زیادہ بامعنی بھی کیونکہ لوگ اس کے پیچھے کی کہانی بھول جاتے ہیں، ایسے ہی بے معنی ٹپوں میں ایک ٹپہ یہ ہے جسے سن کر اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے مثلاً ان میں سے ایک ٹپہ جو کسی وقت باقاعدہ گیت بن گیا تھا کہ:
زہ میرو لہ زمہ
د موم جامو کلے بیگا لہ ورانومہ
ترجمہ۔ میں ویرانوں میں جا رہا ہوں یا جا رہی ہوں اور رات کو "موم جاموں " کا شہر تباہ کروں یا کروں گی۔ لوگ سن کر سوچتے ہیں کہ جنگل بیابان میں نکلنا اور یہ "موم جاموں " کا شہرکیا ہے؟ لیکن جو لوگ اس کے پیچھے کی کہانی جانتے ہیں، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ جب انگریز اس خطے پر قابض ہو رہے تھے تو لوگ شہر آبادیاں اور گاؤں چھوڑ کرجنگل بیابانوں یا پہاڑوں میں چلے جاتے تھے۔ یہ ٹپہ تو پرانا اور بے معنی ہو گیا ہے لیکن جو ٹپہ ہم اب سنانے جا رہے ہیں وہ سدا بہار ہے۔ ہر وقت ہر زمانے اور ہر خطے میں یہی ہوتا رہا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا سنیے:
خانان بہ بیا سر خانان شی
پکے بہ دل شی د رامیبل چامبیل گلونہ
ترجمہ۔ خوانین ویسے کے ویسے آپس میں خوانین ہی رہیں گے لیکن درمیان میں موتیا رویل کے پھول کچلے جائیں گے۔ اور اس کے پیچھے کہانی ہے۔ وہ یوں ہے کہ کسی مقام پرجو تاریخ اور جغرافیہ میں دونوں میں سے کہیں پر بھی ہو سکتا ہے کہ دو شاہی خاندان تھے جو ایک دوسرے کے مخالف، رقیب اور دشمن تھے۔ ہمیشہ ان میں کھٹ پٹ رہتی تھی۔ کچھ بے نام و نشان پھول اس میں تلف ہو کرکچلے جاتے اور پھر خیر خیریت ہو جاتی لیکن ایک مرتبہ ان میں سے ایک خاندان کے مزارعوں میں ایک بہت بڑا یودھا، واریئر یا ہیرو پیدا ہو گیا جو اپنی بہادری، بے جگری اور ذہانت سے چار دانگ عالم میں مشہور ہو گیا اور اس کی تعریفوں کا ڈنکا بجنے لگا۔
مخالف خاندان خوف سے تھرتھرانے لگا اور اپنا خاندان فخر سے مونچھوں کو تاؤ دینے لگا، باوجود مزارع ہونے کے خاندان کے بڑے بزرگ بھی اسے تعظیم دینے اور تعریف کرنے لگے۔ لیکن اچانک عین عروج کے وقت اسے مخالف خاندان نے بڑی آسانی ماڑ ڈالا، اپنے خاندان نے اس کا سوگ منایا، اعزاز کے ساتھ دفن کر دیا اور اعلان کر دیا کہ وہ اس کے قاتل خاندان کی اینٹ سے اینٹ بجائے گا۔ تیاریاں ہونے لگیں اور آدمی جمع کیے جانے لگے، پورے علاقے میں دہشت پھیل گئی، اکا دکا چھوٹی چھوٹی جھڑپیں بھی ہوئیں، دونوں اطراف کے کچھ لوگ بھی مارے گئے لیکن ابھی بڑی جنگ اور ایک دوسرے کو مٹا ڈالنے کا معرکہ برپا نہیں ہوتا۔ پورے علاقے میں خطرے کی گھنٹی بجی تو علاقے کے سربرآوردہ لوگ بھی سرگرم ہو گئے اور اس عظیم خطرے کو شانت کرنے کے لیے جرگے اور پنچائتیں شروع ہوئے، مذاکرات ہوئے، منتیں سماجتیں ہوئیں اور آخر معززین کی کوششیں کامیاب ہوئیں، دونوں خاندانوں میں پہلے سیز فائر اور پھر سمجھوتہ طے پا گیا۔
رسیدہ بود بلائے ولے بخیرگزشت:
علاقے میں امن ہوا، ہتھیار رکھ دیے گئے اور پھر زندگی کا کاروبار شروع ہو گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد ایک دل جلے، نیم دیوانے اور اول جلول شاعر کوجب اصل حقیقت کا پتہ چلا کہ وہ نوجوان ہیرو نہ صرف دشمن خاندان کے لیے بلکہ اپنے ہی خاندان کے بڑوں کے لیے بھی خطرہ بن گیا تھا کیونکہ اگر اسی طرح اس کا نام اور بول بالا ہوتا رہا تو بڑے تو چھوٹے ہو جائیں گے اور شاید اقتدار بھی ان سے چھین جائے، سو بیک چینل مذاکرات ہوئے، اپنے خاندان نے اس کی پیٹھ تھپتھپا کر کسی کام سے اسے وہاں بھیجا جہاں دشمن خاندان کے قاتل تیار بیٹھے تھے۔ اس دیوانے کو پتہ چل گیا تو وہ اور تو نہ کچھ کر سکتا تھا نہ کہہ سکتا تھا۔ اس لیے یہ "ٹپہ" بنا دیا کہ خانان۔ پھر۔ وہی خانان ہوں گے لیکن بیچ میں موتیا رویل کے پھول تلف ہو جائیں گے۔ لیکن وہ نادان دیوانہ اور پاگل شاعر یہ نہیں جانتا تھا کہ پھولوں کا تو مقدر یہی ہے کہ پیدا ہوتے ہیں، کھلتے ہیں اور پھرکچلے جاتے ہیں۔ کہیں سہروں باراتوں میں تو کہیں مقبروں مزاروں پر۔ کہ کھلتے ہیں گل یہاں، کھل کے بکھرنے کو۔ ان کا بکھرنا کچلنا اور مٹی ہونا طے ہے:
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی