لینا ہی لینا،اور دینا کچھ نہیں
بات گھوم گھام کر، پھر پھراکر موڑ مڑاکر اسی زوج پر آئے گی جس کا ذکر ہم کرتے رہتے ہیں وہی "جوڑے"جو رب کائنات کے اس کارخانے کی بنیاد ہیں۔ چنانچہ لینا اور دینا یا لین اور دین بھی ایک زوج اور ایک جوڑا ہے اور جب بھی جوڑے ٹوٹتے ہیں یا بگڑتے ہیں یاباقی نہیں رہتے توایک دھماکا ہوتاہے جوکبھی توسنائی دیتاہے لیکن اکثرسنائی نہیں دیتا اور سب سے خطرناک اور تباہ کن دھماکا یہی بے آواز دھماکا ہوتاہے۔
ہر ہر جوڑے کے ہرہر رکن کاکام لینا اور دینا دونوں ہوتے ہیں۔ مثلاً دکاندار کافرض ہے کہ وہ خریدار کو کوئی ضرورت کی چیز مہیا کردے یہ دکاندار کا "فرض"اور خریدار کا حق ہے اس کے بدلے میں خریدار کا "فرض"ہے کہ دکاندار کا "حق"یعنی قیمت معاوضہ ادا کرے۔ اگر اس جوڑے میں کوئی ایک بھی فریق اپنا حق تولیاکرے اور اپنا فرض ادا کرکے دوسرے کا حق ادا نہ کرے تویہ زوج یارشتہ ٹوٹ جاتاہے۔
اسی حساب سے شوہر اور بیوی کے بھی اپنے اپنے حقوق ہوتے ہیں مزدور اور مالک کے بھی فرائض وحقوق ہوتے ہیں کسان اور صارف، والدین اور بچوں، بھائیوں، بہنوں، پڑوسیوں، دوستوں مطلب یہ کہ ہرہر فرد کے حقوق و فرائض ہوتے ہیں جواگر دونوں مل کر ادا کرتے رہیں توجوڑا یازوج برقرار رہتاہے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق توجانتے بھی ہیں بڑھ بڑھ کرلیتے بھی ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ لینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ چھینتے ہیں لیکن اپنے فرائض سے قطعی بے خبر رہتے ہیں یا ادا نہیں کرتے یا ان میں ڈنڈی مارتے رہتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کاسب سے بڑا زوج جسے مدر زوج یامرکزی جوڑا کہہ سکتے ہیں بگڑا ہواہے، اس کا ایک پلڑا آسمان کوچھو رہاہے اور دوسرا زمین پرپڑا ہواہے اس لیے تمام ازواج بگڑے ہوئے ہیں۔
کوئی زوج کا رکن صحیح نہیں ہے اور یہ سب سے بڑا زوج یا جوڑا حکومت اور عوام کا یا اشرافیہ اور عوامیہ کاہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں دیکھتے رہتے ہیں کہ حکومت اپنے حقوق توزیادہ سے زیادہ وصول کرتی ہے جو ٹیکسوں، واجبات فیسوں اور بعض اشیا کی قیمتوں کی شکل میں ہوتے ہیں، طرح طرح کے جائز ناجائز وصولیاں کرتی ہیں اور یہ سب کا سب عوامیہ کا فرض ہوتے ہیں کہ حکومت کو ادا کریں۔ یوں عوامیہ تواپنا فرض ادا کر دیتی ہے یا حکمرانیہ اس سے وصول کرلیتی ہے لیکن جو عوامیہ کے حقوق اور حکمرانیہ کے فرائض ہوتے ہیں ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتیں اگر کہیں کہیں ان سے "فرائض"کی ادائیگی کی اداکاری کی جاتی ہے تو وہ بھی اسی کے پالے ہوئے نکھٹوؤں کے درمیان ہی تقسیم ہوجاتے ہیں، طریقے ہی ایسے رکھے گئے ہیں کہ حکومت اور عوامیہ کے دو فریقوں میں سے کسی کو بھی کچھ نہ ملے۔ عوامیہ کے یہ حقوق اور حکمرانیہ کے فرائض ہم اکثر بیان کرتے رہتے ہیں۔
عوامیہ کی جان مال اور عزت کا تحفظ، عوامیہ کی صحت کا تحفظ، عوامیہ کوتعلیم دینا اور روزگار یا روزی روٹی کا ذریعہ مہیا کرنا۔ یوں فرض کرلیجیے کہ حکومت دکاندار ہے اور اس کی ذمے داری اپنی خریدار عوامیہ کویہ چار اشیا مہیاکرنا ہے بلکہ اکثر دکاندار پہلے خریدار کواس کی مطلوبہ چیز دیتا ہے، پیسے بعد میں لیتاہے لیکن یہاں پیسے تولیے جاتے ہیں اور جی بھر کر منہ مانگے لیے جاتے ہیں لیکن دیا کچھ نہیں دیا جاتا۔ اگرکسی نے اپنی جان مال یا عزت کا تحفظ کیا توکیا ورنہ حکومت کی طرف سے کچھ بھی نہیں بلکہ لٹنے کے بعد جو ادارے تحفظ کے نام پرقائم ہیں اور عوام سے وصول کرکے بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں وہ تحفظ دینے کے بجائے لٹیروں سے بھی زیادہ لوٹ لیتے ہیں۔
تھانے سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک کہیں بھی کوئی ایسا مقام نہیں جہاں ان کی دادرسی ہو بلکہ دادرسی کے لیے ان کو مزید خود کو لٹوانا پڑتا ہے، قاتل کوقاتل ثابت کرنے کے لیے مقتول کوبار بار قتل ہونا پڑتا ہے عصمت وآبرو لٹنے والے کو بار بار بے آبرو ہونا پڑتاہے اور دادرسی کے اعلیٰ مقامات تک پہنچنے کے لیے دولت کی سیڑھیاں بنابناکر چڑھنا پڑتا ہے۔ لیکن مظلوم، مقتول مضروب اور لٹنے والا توپیدائشی خدامار اور اپنی اشرافیہ کا لٹاہوا ہوتاہے اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کے پاس دولت کے ڈھیر ہوتے ہیں بلکہ دولت کی فراوانی ہی نے ان کوکاہل، عیاش اور بدمعاش بنایا ہوتا ہے۔
چنانچہ دادرسی کے تمام ہفت خوان آسانی سے سرکرکے بے گناہ اور معصوم ثابت ہوجاتاہے اور مقتول ہی اپنا قاتل، مالک دکان ہی اپنا چور اور بے آبرو ہونے والا ہی اپنا مجرم ثابت ہوجاتاہے اور مجرم باعزت بری ہوجاتا ہے۔ صحت کے معاملے میں، تعلیم کے معاملے میں اور روزگار کے معاملے میں یہ تمام باتیں ہم بار بار دہرا چکے ہیں اور ہرکسی کوحق الیقین کی حدتک معلوم ہے کہ صورت حال کیاہے یہ سب کچھ خریدنا پڑتا ہے یعنی عوامیہ اپنا فرض ادا کرکے حکمرانیہ کے حقوق ادا کردیتی ہے لیکن حکمرانیہ سے اپنے حقوق خریدنا پڑتے ہیں وہ بھی اشرافیہ کی مرضی کی قیمت پر، گویا ہمارے ہاں حکمرانیہ وعوامیہ اور حقوق وفرائض کا جوڑا ٹوٹ چکا ہے، لنگڑا ہوچکاہے کہ صرف ایک "پیر" پرسارے وجود کا انحصار ہے۔ ایسا معاشرہ اور نظام قدم قدم پر لنگڑائے گرے گا نہیں تو کیا کرے گا۔ اور اس لنگریٹ کانام ہے جرائم منشیات، تشدد کرپشن اور چھینا چھپٹی۔
درمیان قعردریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیارباس
یعنی تم نے مجھے دریاکے بیچ میں بھنوروں کے درمیان ایک تختے سے باندھاہواہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار اگر دامن کو بھگویا تو؟ دامن تو بھیگے گا اور اچھی طرح بھیگ چکا ہے۔