فوڈ کارڈ اورآدھی روٹی
بہت بڑی خبر ہے بلکہ آپ اسے میگا "خوسخبری" بھی کہہ سکتے ہیں کہ صوبہ خیبرپختون خوا میں انصاف فوڈ کارڈ کا اجرا ہو گیا، خبر کے مطابق وزیراعلیٰ کو کارڈ پیش کیا گیا ہے، ساتھ ہی محکمہ خوراک اور خیبر بینک کے درمیان معاہدہ بھی ہو گیا کہ دس لاکھ خاندانوں کے اکاونٹ کھولے جائیں گے۔
یہ "دس لاکھ خاندان" کون ہوں گے اور کس کی منظوری سے انھیں کارڈ دیا جائے گا، اس پر کچھ نہ کہنا ہی بہت کچھ کہنا ہے۔ صرف ایک واقعہ ہی کافی ہوگا جو آدھا ہماراچشم دید ہے اور آدھا گوش شنید ہے۔ یہ اس سیلاب کا واقعہ ہے جو عوام کی بدقسمتی اور افسروں اور سیاسی لوگوں کی خوش قسمتی سے آیا تھا، اس سیلاب کا شکار ہونے والوں کے لیے "وطن کارڈ" کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس سے متعلقہ دفتر میں تعینات ہمارے ایک دوست نے یہ واقعہ سنایا تھا بلکہ ہم نے اس سے کہا تھا کہ ہمارا گائوں تو سیلاب سے متاثر نہیں ہوا تھا، پھر اس میں یہ تین سو باسٹھ سیلاب زدگان کہاں سے آگئے؟
جواب میں اس نے بتایا کہ جب ہم کارڈ بنوا رہے تھے تو طریقہ یہ تھا کہ گائوں کا ایک معزز، ایک پٹواری اور ایک یونین کونسل کا ممبر تینوں خود ہی جائزہ لے کر سیلاب سے متاثرین کی فہرست بنائیں گے۔ وہ تو ہمیں یاد تھا کہ اپنے گاوں کی اس سہ رکنی کمیٹی میں ہم بھی تھے اور ہم نے متفقہ طور پر صرف دو متاثرین کا اندراج کیا تھا حالاں کہ وہ بھی سیلاب سے متاثر نہیں تھے بلکہ ان ہی دنوں کسی اور وجہ بارش یا فرسودگی سے ان کی ایک ایک کچی دیوار گری تھی لیکن کارڈز کی تقسیم کے وقت تین سو باسٹھ سیلاب زدگان نکل آئے اور یہی بات سمجھاتے ہوئے اس شخص نے بتایا کہ جب ہم متاثرین کی فہرست بنا رہے تھے تو یہاں ایک ایم این اے کے حلقے کے گائوں کا آدمی بھی کسی اور کام سے آیا تھا، اس نے ہم سے پوچھا کہ اس میں ہمارے گائوں کے کتنے آدمی ہیں، ہم نے بتا دیا کہ تمہارا گائوں پہاڑ کے اوپر ہے وہاں تو کسی نے سیلاب کو دیکھا تک نہیں ہے، وہ شخص چلا گیا، دوسرے دن ایم این اے صاحب کا فون آیا کہ میں اسی آدمیوں کی فہرست بھیج رہا ہوں، وطن کارڈ کے لیے فہرست میں ڈال دو۔ ہم نے ڈال دیے، کیا کرتے۔
اب یہ جو انصاف کارڈ جاری ہو رہا ہے اس کا نام "انصاف فوڈ" کارڈ بتایا جا رہا ہے۔ پہلے جب ہم نے زبانی یہ نام سنا تھا تو کانوں میں فوڈ کے بجائے "فول" آیا تھا لیکن تحریری طور پر پتہ چلا کہ فول نہیں "فوڈ" کارڈ ہے۔
انصاف کا جب پہلے پہل بول بالا ہوا تھا تو اس وقت بھی کچھ کارڈ ایشو ہوئے تھے، معلوم نہیں اس کا نام "کونسا کارڈ" تھا البتہ یہ اچھی طرح یاد ہے کہ وہ کارڈ تحریک انصاف کے مجاہدوں کے ذریعے تقسیم ہوئے تھے، ایک ہزار فی کارڈ کے حساب سے البتہ تعداد معلوم نہیں کیوں کہ دو تقسیم کاروں میں پھڈا پڑ گیا تھا اور دونوں ایک دوسرے پر یہ الزام لگا رہے تھے کہ اس نے زیادہ کارڈ فروخت کیے ہیں۔ اب یہ جو "فوڈ"کارڈ ہیں جو یقینی طور پر "فول" کارڈ نہیں ہیں کیوں کہ آیندہ الیکشن کسی بھی وقت ہوا چاہتے ہیں، اس لیے نوٹ دے کو ووٹوں کا سلسلہ بھی اس میں ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور حقیقہ یاد آرہا ہے جو "واقعہ" بھی ہے اور "واقع" بھی کیوں کہ یہ "واقعہ" پشاور میں واقع بازار قصہ خوانی کے ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہوگا۔ قصہ خوانی میں ایک لبما تڑنگا پاگل پھرا کرتا تھا، اس کا کرتا ٹخنوں تک ہوا کرتا تھا اور نیچے شلوار وغیرہ کا تکلف نہیں کرتا تھا، وہ کبھی کبھی اچانک یادگار شہیدان کے پاس یا کابلی تھانے کے پاس فٹ پاتھ پر کھڑا ہو جاتا تھا اور کہتا تھا " کسی کو کچھ کہناہے۔ " کسی کو بھی اس میں "کچھ کہنا" نہیں ہوتا تھا۔ صرف منہ دوسری طرف کر لیتے اور ہمیں بھی نہ اس واقعے پر کچھ کہنا ہے نہ کسی کارڈ پر اور ان سے متعلقہ بیانات پر۔ کیوں کہ سب کو پتہ ہے۔
مرکزی، صوبائی، ضلعی، مقامی ہر قسم کی حکومتیں اور ان کے چٹے بٹے سب کے سب۔ اور سب کچھ "جھوٹ" کہہ رہے ہیں۔ البتہ اسی اخبار میں اسی صفحے پر جہاں وزیراعلیٰ کو بھی کارڈ پیش کیا جا رہا ہے، محمد علی سیف بھی طالبات کے ساتھ فوٹو کھنچوا رہے ہیں وہاں ایک سرخی یہ بھی ہے۔ آدھی روٹی کھائیں گے لیکن آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کریں گے۔ (وزیراعلیٰ)
یہاں میں یہ وضاحت تو نہیں کر سکتا کہ جناب وزیراعلیٰ کب سے "آدھی روٹی" کھانا شروع کریں گے لیکن یہ بات ظاہر ہے اور مزید ظاہر اس وقت ہو جائے گی جب اس پر "بیرسٹر سیف" اپنے حاشیے چڑھائیں گے، کہ یہ "کارڈ" وغیرہ کے "گل" کھلائے ہوئے کس کے ہیں اس پردہ زنگاری کے پیچھے وہی چہرہ تو ہے جسے آئی ایم ایف کہا جاتا ہے۔
اپنے گائوں کا وہ شخص ہمیں بار بار یاد آ رہا ہے جس نے اپنے بڑے بھائی کا ناروا جھوٹ سن کر کہا تھا توبہ توبہ آدمی اتنا جھوٹ بولے کہ۔
اسے کوئی ریل توکھینچ سکے۔