کورونا سے ’’کورونا ‘‘ تک
بعض اوقات کچھ عجیب وغریب بلکہ امیر و عجیب قسم کے اتفاقات ہو جاتے ہیں، مثلاً اب کے یہ "کورونا" ہے جس کا "رونا" ہے اس کا یہ نام بھی اپنے اندر بہت سارے امیر و عجیب باتیں لیے ہو ئے ہیں۔
اس کا نام یوں تو سنا ہے کہ لایعنی بمعنی "تاج" رکھا گیا ہے جسے انگریزی میں کرائون کہتے ہیں، وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کی خوردبینی شکل تاج کی سی ہے لیکن ہم نے جب اس کی تصویریں دیکھیں تو تاج کی طرح بالکل نہیں ہیں، ویسے تاویل سے تو آپ کسی لیڈر کو بھی انسان ثابت کر سکتے ہیں کہ اس کے انسانوں جیسے کان ہیں، ناک ہے، آنکھیں ہیں بلکہ انسانوں ہی کی طرح اس کے پاس "پیٹ" نام کا کنواں بھی ہے جو کبھی نہیں بھرتا لیکن دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے، کہاں انسان اور کہاں لیڈر۔ یا ووٹوں کے دنوں میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ کا لانعام کو بھی انسان بلکہ باپ دادا اور بھائی بنا لیتے ہیں لیکن یہ محض تاویلات ہیں۔ مطلب یہ کہ "تاویل" وہ چیز ہے جس سے کسی بھی چیز کو کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
مثلاً ہم نے ایک مرتبہ ایک "نمازی" کو بہت زیادہ "اپنا قصیدہ" پڑھتے دیکھا۔ وہ ہر بات کو نماز سے شروع کرتا تھا اور نماز پر ختم کرتا۔ صبح جب میں نماز پڑھ کر نکلا تو، میں نماز کے لیے جا رہا تھا کہ ابھی نماز باجماعت پڑھ کر آ رہا ہوں، وضو میں ہوں، کل مسجد میں نماز کے وقت۔ نماز پڑھ کر میں سونے لگا تو صبح تہجد کی نماز کے لیے اٹھا تو۔ نماز پڑھ کر سلام پھیرا تو۔ صبح کی نماز اور تلاوت کے بعد تھوڑا سا سویا تو۔
ہم نے عرض کیا حضور اس طرح عبادت کا اشتہار دینا تو نمائش میں آتا ہے۔ وہ "تاویل" کا شمشیر بے نیام کرتے ہوئے بولے، نیکی کی نمائش کرنی چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو۔
ایک حاجی صاحب نے بھی یہی تاویلی جواب دیا تھا۔ مطلب کہ تاویل زندہ باد حقائق مردہ باد۔
لیکن چھوڑئیے۔ جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔
کورونا بلکہ کورونا کی بات کرتے ہیں اور اس کے اس نام کی۔ گویا اسے ہم اس وقت "تاجدار عالم" کہہ سکتے ہیں یا جس نے بڑے بڑے تاجداروں کو باجگزار کیا اور شاید اسی لیے صاحبان دانش نے بجا طور پر اس کا یہ نام رکھا ہے جس پر ایک پشتو شاعر نے یوں تبصرہ کیا ہے۔
وائرس دکورونا شو۔ تاجدار دکل عالم
دفخربڑبو کئی دانسان کڑلہ یوپڑس
پہ ستنہ دوائرس
ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اس میں عالم کا تاجدار کورونا ہے جس نے انسان کے غرور کے غبارے کو پھاڑ دیا اور وہ بھی وائرس کی ایک چھوٹی سی سوئی کی نوک سے۔
آگے شاعر نے اور بھی بہت سارے انکشافات کیے ہیں کہ اس کے راکٹوں، ایٹم بموں میزائیلوں ایجادات اختراعات ادویات علاجات کی ایسی تیسی کر دی ہے اور جو گلوبل ویلج بنانے چلا تھا اسے اپنے گھر اور چھ فٹ کے دائرے میں قید کر دیا ہے۔
ساری باتیں پانی کے بلبلے ثابت ہوئیں اور نفس نفس چیخنے لگا ہے۔
خیر یہ تو سب مانتے ہیں کہ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے اور اللہ جانے کیا ہو گا آگے۔
لیکن ہم تو اس کے نام میں الجھے ہوئے ہیں، تاج اور تاجداری کا تو ہو گیا ہے کہ کسی بوتل کا دودھ پیا ہے تو سامنے آئے۔
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
لیکن اس کا یہ نام کورونا بلکہ "کورونا" ایک اور لحاظ سے ہمیں حیران کیے ہوئے ہے جو لوگ اس کا یہ نام رکھ رہے تھے ان کو تاج کا تو پتہ تھا لیکن "کورونہ" کا بھی پتہ تھا؟ کیوں کہ یہ خالص پشتو لفظ ہے "کورونہ" کور بمعنی گھر اورگھروں کے لیے جمع کا لفظ ہے "کورونا" اور اس نے سب کو "کورونہ" میں لے جا کر بند کر دیا ہے، کورونہ تک محدود کر دیا، کورونہ سے نکلنا ممنوع کر دیا،
کورونہ میں رہو ورنہ کورونہ۔۔ کورونہ سے کورونا تک۔
ایک اورپشتو شعر یاد آ رہا ہے۔
پہ کور کے تنگ یم اوربہرمے دشمنان اوسیگی
پہ داسے حال کے بہ لاسہ رنگہ انسان اوسیگی
یعنی گھر میں تنگ ہوں اورباہر دشمن پھر رہے ہیں ایسے حال میں کو ئی جئے تو کیسے جئے۔ سٹے ایٹ ہوم۔ سٹے ہیلدی۔
پڑوسی ملک کے مودی نے عوام کو ہدایت کی ہے کہ اپنے گھر کے دروازے پر ایک لکیر کھینچئے اوراس لکیر سے باہر نکلنے کا مطلب ہے کورونا کو گھر میں لانا۔
اسے ہم پشتومیں یوں کہیں گے۔
کورونہ سے قدم باہرنکالنا "کورونا" کو گھر میں لانا ہے، بڑی عجیب وغریب بلکہ امیر و عجیب صورت حال ہے۔ گھر بھی کورونا اور باہر بھی کورونا۔ کورونا ہی کورونا۔
تو اسے کیوں نہ تاجدار عالم کہیے…
رہے ہے یوں گہہ وبے گہہ کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ "دشمن " کا گھر ہے کیا کہیے
بلکہ اگر تھوڑا ساگہرائی میں جائیے اورگھر کے اندر کے سب سے بڑے "دشمن " کو خیال میں لائیے۔ وہی جس کے بارے میں بزرگوں نے کہا ہے کہ شادی کا مطلب ہے "دشمن کے ساتھ ایک ہی بستر میں سونا" آخر کوئی کہاں تک ایک کمرے بلکہ ایک بوری میں گزارہ کرے۔
گھر سے نکلے تھے حوصلہ کر کے
لوٹ آئے خدا خدا کر کے
بلکہ کورونا کورونا کرکے
بڑی خطرناک، المناک، حسرت ناک، وحشت ناک یعنی ناکوں ناک صورت حال اس لیے کہ اس میں سارا زور ہی ناک پر ہے، کیا مصیبت ہے، جس ناک کو بچانے اور اونچارکھنے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے لوگ کیا کیا نہیں کرتے تھے، آج ہی ناک چھپائے پھرتے ہیں، مطلب یہ کہ اردو کے سارے "ناک" والے الفاظ اس ناک تک آ گئے ہیں جسے یا تو کورونا میں ستر پردوں کے اندر رکھنا ہے اور باہر ہر ہر مقام پر برقعہ پوش رکھنا۔ اس موقع پر بچاری ناک کہہ سکتی ہے کہ۔۔
کچھ ایسی بات اڑی ہے ہمارے گائوں میں
کہ چھپتے پھرتے ہیں "ماسکوں " کی چھائوں میں