بڈھے بڈھیاں ان ٹربل
محبوب خزاں نے کہا ہے کہ
حال ایسا کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
اور ہم کہیں گے کہ ایک "خطرہ" نہیں جس کا ذکر کریں بلکہ چاروں طرف بلکہ شش جہات سے خطرے ہی خطرے ہیں جو ہم "بوڑھوں " کو لاحق ہیں اوپر سے "ڈرانے والے" بھی قدم قدم پر موجود ہیں چنانچہ ان دنوں جس کسی سے فون یا بالمشافہ مگر بغیر مصافحہ اور معانقہ بات ہوتی ہے۔
بھئی خیال رکھنا کورونا بوڑھوں پرزیادہ حملہ آور ہو رہا ہے، بوڑھے زیادہ شکار ہو رہے ہیں، بوڑھے خطرے میں ہیں، بوڑھے احتیاط کریں، بوڑھے ڈینجرس زون میں ہیں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب دو چار بار یہ نہیں سننا پڑتا کہ دیکھو بوڑھے خطرے کی زد میں ہیں بوڑھے زیادہ خیال رکھیں "بوڑھے نہیں آٹے کے گڈے ہوئے۔ اگلے زمانوں کے لوگ خاص طور پر خواتین "آٹے کے گڈے" بنا کر مختلف منتیں پوری کرتی تھیں۔
بارش روکنے یا ہونے کے لیے یا کچھ اور معاملات میں آٹے کے گڈے بنائے جاتے اور خاص خاص مقامات پر رکھے جاتے تھے لیکن ان آٹے کے گڈوں کی ایک پرابلم تھی کہ اندر کمرے میں رکھتے تو چوہے کھا جاتے اور باہر رکھتے تو پرندے انھیں ہڑپ کر جاتے۔ چنانچہ یہ کہاوت مشہور ہو گئی کہ "کمزور" ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا بھئی تم تو آٹے کے گڈے ہو۔ اندر رکھو تو چوہے کھائیں اور باہر رکھو تو چڑیاں۔ اچھا وہ فلاں؟ وہ تو آٹے کا گڈا ہے۔ کسی کو سردی گرمی زیادہ لگتی، یار تم تو آٹے کے گڈے ہو۔ کوئی زیادہ بیمار ہوتا وہ تو آٹے کا گڈا ہے۔
کچھ ایسا ہی حال آج کل ہم "بڈھوں " کا ہو رہا ہے جسے دیکھو ڈرائے جا رہا ہے، ہمدردی کے پردے میں یاد دلا رہا ہے، کہ تم آٹے کے گڈے ہو۔ ذرا کورونا کے چوہوں اور کوئڈ نائنٹین کے پرندوں سے بچ کے رہا کرو۔ بیچارے بڈھے پہلے سے کیا کم "خطرے" میں تھے اپنی اولادوں اور حکومتوں کی نظر میں کہ اب مزید خدا مارے ہو گئے
اب تو آ پہنچے ہیں کچھ اور بھی دشوار مقام
اس کی فرقت میں فقط جی کا زیاں تھا پہلے
پہلے بھی بے چارے بڈھے بقول "شخصے" بزرگ شہری یا سینئر سٹیزن تقریباً قرنطینہ میں تھے۔ ان کے کمرے، برتن کپڑے یاکچھ اور بھی خود سے "دور" رکھے جاتے تھے اور خود ان کو۔ لیکن اب تو ان کو چھ فٹ کے بجائے دس گز ڈنڈے سے چھونا بھی خطرناک ہو گیا ہے
بچ کے رہنا تو بابا۔ بچ کے رہنا تو
تجھ پہ "نظر" ہے۔ بچ کے رہنا تو بابا
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہم بقول کہنے والوں کے بزرگ شہری، سینئر سٹیزن عرف "بڑھوو" لوگ پہلے تو صرف قطرے میں تھے اب خطرے میں بھی آ گئے ہیں خطرے میں بھی اتنے زیادہ ہوں گے یا نہیں لیکن ڈرائے جانے لگے ہیں کہ میاں خبردار پتہ ذرا بھی ہلے تو تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ کیونکہ یہ "خطرہ" خواہشوں اور تمناؤں میں لپٹا ہوا ہے۔ اگر ایسا ہی ہو جائے اگر ایسا ہی ہو جائے یعنی اس "بڑھیا بڑھو" سے کسی طرح نجات ملے۔ شکریہ کورونا مجھے تو دانت درد سے نجات مل گئی۔ پرانے زمانے میں "بدعمل" بیٹے کو دکھتے ہوئے دانت سے تشبیہہ دی جاتی تھی۔
بدعملہ زوئے چہ مڑشی پلار ترے خلاص شی
لکہ غاخ چہ پہ ویستو لہ دردہ خلاص شی
یعنی بدعمل بیٹا مر جائے تو باپ کو یوں نجات مل جاتی ہے جیسے دکھیلے دانت کو نکالنے پر سے مل جاتی ہے۔ لیکن اب سب کچھ الٹ چکا ہے پہلے جو "وہ" تھا اب وہ "یہ" ہے اور جو یہ ہے وہ وہ ہوتا ہے۔ بڑے بڑے بال پہلے "وحشت" کی نشانی تھے اب ماڈرنائزیشن ہے، پھٹے ہوئے کپڑے غربت کی نشانی تھے اب پھٹی ہوئی پتلون الٹرا ماڈرن۔ مرغ پلاؤ اعلیٰ کھانے اور دال ساگ غربت کی نشانی تھے اب معاملہ۔ مطلب یہ کہ ایسا ہل چل گیا ہے کہ اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی اوپر آ گئی۔ اس لیے دکھتے دانت بھی اب بدعمل بیٹے نہیں بلکہ "نیک عمل بڈھے" بن گئے ہیں۔
ہمارے پڑوس میں ایک گھرانا ہے وہاں شوہر کی ماں اور بیوی کی ساس بیمار ہو کرآ گئی، یہ بڈھی بھی چار بیٹوں میں فلم باغبان کی طرح فٹ بال بنی ہوئی تھی ایک کک مارتا تو دوسرے کے ہاں دوسرا مارتا تو تیسرے کے ہاں۔ یہاں لائق و فائق بہونے اپنے چھ بچوں کو سمجھایا کہ "دادی" کی چارپائی کے اردگر کھیلو اور خوب شور مچاؤ۔ بچے کام میں لگ گئے، بڑھیا کی سسکیاں تک اس "شور" میں سنائی نہیں دیتی تھیں تو بیچاری نے اپنا ٹرانسفر اپنی ایک بیٹی کے ہاں کروا لیا۔ اور بہو نے بلا ٹلنے پر قرآن پاک کا ختم کروا لیا۔
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔ لیکن آپ یقین نہیں کریں گے کہ ہمارے گاؤں کے پڑوس میں ایک پہاڑی علاقہ ہے جس کے چار پانچ دیہات میں بڈھے بڈھیاں بالکل نہیں ہوتیں۔ پہلے پہل جب ہم وہاں جاتے توحیران ہو جاتے کہ کوئی بڈھا دکھائی نہیں دیتا تھا نہ بڈھی دونوں اصناف کے جوان اور بچے تو تھے لیکن بڈھے نہیں تھے، خیال آیا کہ ضرور یہاں کے پانی میں کوئی دائمی شباب کی تاثیر یقیناً ہے پھر یاد آیا کہ ہمارے تھانے کا ایک ایس ایچ او یہاں کا پانی منگوا کر پیتا تھا۔ اس نے وہاں آنے والی بسوں کو ڈیوٹی لگائی تھی کہ اپنے ساتھ روزانہ پانی کے کیبن لائیں۔
یہ بات ذہن میں آتے ہی ہم بھی منصوبہ بنانے لگے کہ کس طرح یہاں کے چشموں کا پانی منگوا کراستعمال کر سکتے ہیں لیکن بہت جلد اصل راز منکشف ہو گیا۔ دراصل اس علاقے کے سارے لوگ زمانوں سے باہرممالک میں رہائش پذیرہیں۔
اپنے علاقے میں سوکھے اور بے آب وگیاہ پہاڑوں کے علاوہ اور کچھ تھا ہی نہیں اس لیے ان لوگوں نے باہرکا رخ کر لیا اور اب ایسا خاندان کم ہی ہو گا جس کی شاخ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں نہیں ہو گی جہاں بڈھوں اور معذوروں کو صرف نام کے بزرگ شہری یا سینئر سیٹزن نہیں کہا جاتا بلکہ ان کو وظائف اور دوسری بہت ساری مراعات بھی دی جاتی ہیں چنانچہ اپنے خاندان محلے اور گاؤں کے سارے بڈھے بڈھیاں سمیٹ کر وہاں لے جائے گئے ہیں جو وہاں گزارے سے بھی زیادہ وظائف اور مراعات پا رہے ہیں یہاں تک کہ تنخواہ داروں سے زیادہ آمدنی ان کی ہوتی ہے۔ ہائے ریاست مدینہ اس کے بڈھے بڈھیاں جو ڈینجرس زون میں زندگی کی تہمت بھوگ رہے ہیں۔