ایک نایاب پرندہ
دنیا میں طرح طرح کے نایاب اورعجیب وغریب پرندے ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کے "سرپرپائوں " ہوتے ہیں اورایک جن کے سرپرپائوں نہیں ہوتے ہیں لیکن پھربھی بڑے قیمتی ہوتے ہیں، نام آپ نے بھی سنے ہوں گے، عنقا، سرخاب، ہما، قفیس، سی مرغ وغیرہ۔
ان ہی میں وہ پرندہ بھی تھا جو سونے کاانڈہ دیتا تھا اب یہ کوئی ماہرلمیوزی بتا سکتاتھاکہ اس کے پیٹ میں کوئی مشین تھی یاسنگ پارس کہ عام خوراک کھا کر اس کاانڈہ بن جاتا۔
اس سلسلے کی ایک کہانی ہمیں یاد ہے ایسا ہی ایک پرندہ تھا جو ایک بدمعاش نے اتفاقاًپکڑ لیا لیکن وہ حریص آدمی تھا۔ سونے کے انڈے سے بھی اسے تسکین نہیں ہوتی تھی پھر اس نے کسی سے سناتھا کہ اگر اس پرندے کو ذبح کرکے کھایاجائے تو اس کادل کھانے سے آدمی زردار، مالدار اوسرمایہ داربن جاتاہے اورسر کھانے سے آدمی تاجدار شہریار صاحب اختیار یعنی نمبرون بن جاتاہے۔ چنانچہ اس نے اپنے کچھ بدمعاش ساتھیوں کو ساتھ ملا کر اس پرندے کو شکار کرلیا اوراس کاسراوردل دونوں کھا کر تاجدار شہریارمالدار اورزردار بن گیا،
یہ توخیرکہانیوں اورداستانوں کے افسانوی پرندے تھے لیکن ہم واقعی ایک ایسے پرندے کو جانتے ہیں جس کے سر۔ پر۔ اورپیرنہیں ہیں لیکن سروالوں سے زیادہ سردار ہے۔ پر نہیں رکھتا لیکن آواز سے زیادہ تیز رفتار اڑتاہے۔ پیربھی نہیں ہیں لیکن پہیوں سے بہت تیزچلتاہے لیکن اس پرندے کاتعارف کرانے سے پہلے ہم آپ کو ایک بلکہ کچھ اورپرندوں کی کہانی سناتے ہیں، یہ کہانی مشہورصوفی بزرگ مشرف الدین عطار نے منطق طیرکے نام سے لکھی ہے جوتصوف کی منازل کاایک استعارہ ہے۔
کہانی کے مطابق ایک مرتبہ پرندوں کوخیال آیا کہ سب کے بادشاہ ہیں لیکن ہم پرندوں کاکوئی بادشاہ نہیں ہے لیکن بادشاہ کسے بنایا جائے یہ مسئلہ سامنے تھا، آخر کسی نے ان کو بتایاکہ فلاں مقام پر ایک وادی میں ایک پرندہ سیمرغ رہتاہے جو تمہارا بادشاہ بننے کے قابل ہے، پرندوں نے آپس میں مشورہ کرکے ایک قافلہ ترتیب دیاجوبادشاہ لانے کے لیے سفرپرنکل گیا، راستے میں ان کوسخت مشکلات سے بھرپورسات وادیوں سے گزرنا پڑا، حکیم عطار نے سات وادیوں کے استعارے میں تصوف کی سات منازل کاذکرہے جوصوفی کے لیے طے کرنا ضروری ہیں۔
پرندوں کاقافلہ ان وادیوں سے گزرتارہا اور ہر وادی میں کچھ پرندے تلف ہوجاتے تھے آخر کار بڑی مشکلوں سے آخری وادی میں پرندے پہنچ گئے لیکن وادی میں کچھ بھی نہ تھا، ان لوگوں نے سیمرغ کوپکارا اور آوازیں دیں کہ ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنانے آئے ہیں ہم پر ظاہرہوکرہمارے ساتھ چلو اورہمارا بادشاہ بن جائو۔
آخر وادی میں ایک آواز گونجی کہ سیمرغ کوئی نہیں بلکہ تم خود سی مرغ ہو تم نے منازل کو طے کیاہے خود کو پہچان لو اورجاکر خود پر حکومت کرویہی سی مرغ ہے۔
شریف الدین عطارنے اس مثنوی منطق الطیر میں تصوف کے سارے رازورموز بیان کیے ہیں کہ انسان کوکن مراحل سے گزرکر خود پرحکومت کرنے کی سعادت مل جاتی ہے اورہم جس پرندے کاذکر کرنا چاہ رہے ہیں اس سے "سیاست" کی منازل کاپتہ لگ جاتا ہے، ویسے اس پرندے کے بہت سارے نام ہیں لیکن اصلی اورذاتی نام اقتدار ہے اورعوام نام کی مرغی کے انڈے سے نکلتاہے، اس کی بھی سات منازل ہیں جن کی تفصیل میکیاولی اورچانکیہ نے اپنی کتابوں میں دی۔
پہلی منزل اس کی "جھوٹ" ہے جب اس منزل میں طاقت ہوجائے تو اگلی منزل بھی جھوٹ کی ہے اوراس سے اگلی بھی۔ یوں سات منزلیں جھوٹ کی طے کرنے کے بعد ہی آدمی اقتدارکی وادی میں داخل ہوجاتا ہے۔
اس سلسلے کے اکثر علماء نے کہاہے کہ یہ مرتبہ حاصل کرنے کے لیے سات چیزیں ضروری ہیں ایک جھوٹ دوسرابھی جھوٹ اورسات کے سات جھوٹ۔ کیوں کہ کسی نے صرف یہی کام سیکھ لیا تو اس نے سب کچھ سیکھ لیا کہ باقی سب کچھ اسی ایک پرندے کے پیٹ میں ہوتاہے، سونے کے انڈے بھی بادشاہت بھی اورزرومال بھی۔ یعنی…
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد