ایک بہت بڑی تحقیق
کافی عرصے سے ہم سوچ رہے ہیں کہ آخر اتنی زیادہ بداعمالیوں لوفریوں اور اللے تللے کے باوجود پاکستان کی اب تک بنی ہوئی کیوں ہے اور لوگ
سب سمجھتے ہیں اورسب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
توپھر کیا راز ہے ہم نے توسناہے دیکھابھی ہے اور پڑھابھی ہے کہ آمدنی چونی۔ اور۔ خرچہ اٹھنی کا انجام اچھا نہیں ہوتا پشتو میں کہاجاتاہے کہ
د ھغے سڑی پہ حال ژڑا پکار دہ
چہ پینزہ ئے آمدن او خرس ئے لس وی
یعنی اس آدمی کے حال پر رونا چاہیے کہ جس کی آمدنی پانچ اور خرچ دس ہے۔ لیکن یہاں تو آمدنی ایک اور خرچہ بیس کا تناسب ہے۔ مانا کہ یہاں تیل کے چلتے پھرتے کنوئیں بھی بیس پچیس کروڑ ہیں اور ایسے کالانعام یا لائیواسٹاک بھی۔ جو انڈے بھی دیتے ہیں اور دودھ بھی۔ جن کی اون روزانہ کاٹی جاسکتی ہے اور "کھال" ماہانہ اتاری جاسکتی ہے لیکن پھر "خرچہ"ان سب پر بھاری ہے۔
اب ایسے میں ہماری رگ تحقیق کا پھڑکنا لازم تھا اور وہ پھڑک گئی اور ابھی تک پھڑک رہی ہے۔ آخرسترسال ہوگئے کتنے لوگ آئے اور اس پر ضربیں لگائیں۔ وہ انگریزوں کو بھگاکر جو بے پناہ رقم ہم نے بچائی تھی بلکہ بچا رہے ہیں وہ بھی اور اس کے ساتھ اپنے پر و بال اون اور کھال بلکہ حال کے ساتھ تقریباً اتنا ہی استقبال بلکہ بقول خان بہادر ابوالاثر مصنف شاہنامہ اسلام"جان استقبال"بھی لے گئی۔
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موج مے کی ایک رگ مینا کی گردن میں نہیں
شاہنامہ اسلام اور حفیظ جالندھری کا ایک لطیفہ درمیان میں دُم ہلانے لگاہے وہ بیمار ہوکر ایک حکیم کے پاس گئے۔ حکیم نے دوا دیتے ہوئے پرہیز بتائی کہ کوئی دماغی کام نہ کریں۔ حفیظ جالندھری نے کہا، آج کل "شاہنامہ اسلام"لکھ رہاہوں۔ حکیم صاحب نے کہا وہ کریں لیکن دماغی "کام"نہ کریں۔
ہاں تو سترسال کوئی کم عرصہ نہیں اور اس دوران کم ازکم چالیس گروہ چالیس چوروں کی اور کم سے کم چالیس علی بابا آئے ہوں گے اور کھل جاسم سم۔ بندہوجا سم سم کرکے۔ دساور پہنچا چکے ہوں گے یہاں تک کہ آئی ایم ایف کی یہ بڑی ویٹرنری سرینج سے ان بچوں کا خون بھی کھینچ چکے ہیں جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے یا چوزوں کی طرح پیدائش سے پہلے کھائے گئے ہیں۔
جب کہ دوسری طرف زراعت کا جنازہ کئی سال پہلے نکالا جاچکاہے صنعت کو پالنے ہی میں گلا گھونٹ کرمارا گیاہے مطلب یہ کہ آمدن کا چھوٹا سا ذریعہ بھی زندہ نہیں چھوڑاگیاہے۔ ایکسپورٹ کی چیونٹی پر امپورٹ کا ہاتھی سوار ہے، وزیر، مشیر، سفیر کبیر اتنے کہ آیندہ آٹھ دس سال میں ملک کی آدھی آبادی "سابق"اور لاحق ان ہی پرمشتمل ہوگی پارٹیاں شاید ایک ووٹ ایک پارٹی کے حساب سے چل رہی ہیں، لیڈر ایک ووٹ دس لیڈر کے تناسب سے موجود ہیں۔
خیرات خانے، مہمان خانے، بے نظیر خانے، انصاف خانے اور اسمبلی خانے کے جوئے خانے مسلسل چل رہے ہیں، ضرورت سے دگنے محکمے، چارگنے اسٹاف جنازے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔
منتخب نمائندوں اور ان کے دلالوں کے پورے پورے خاندان اپنے ساتھ بے شمار"منہ"لاکر اس خوان لغما پربٹھائے ہوئے ہیں آدھے ادھورے منصوبے جن کا مقصد ٹھیکیداروں اور ان کے ساجھے داروں کی "فلاح وبہبود"کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، ایسے ہزاروں لاکھوں ملازمین جوکسی "کام" کے لیے بھرتی کیے گئے تھے وہ "کام"توکب کا ختم ہوچکا ہے لیکن تنخواہیں اور پنشن چل رہی ہیں۔ بہرحال یہ ایک لمبا سلسلہ ہے جو پل اور چل رہاہے لیکن پھربھی یہ ملک قائم ہے بلکہ اسے توڑنے مروڑنے نچوڑنے اور ککھوڑنے کی بھی کوششیں چل رہی ہیں لیکن پھربھی یہ زندہ ہے
زہرکھانے کی توعادت ہے زمانے والو
اب کوئی اور "دوا"دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
اگرچہ یہ زندگی کم اور شرمندگی زیادہ ہے پھربھی زندہ توہے اور یہ دورجدید کا سب سے بڑا "سرکل"ہے کہ اتنے زیادہ مارنے والوں کی مار کے باوجود کوئی زندہ رہ رہاہو
چلتی راہوں میں یونہی آنکھ لگی تھی شاید
بھیڑلوگوں کی ہٹادو کہ میں "زندہ"ہوں ابھی
بہت بڑا تحقیقی پروجیکٹ تھا لیکن ہم بھی کوئی ایسے ویسے محقق نہیں نامور اکیڈمیوں کے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تربیت بلکہ پریکٹیکل یافتہ ہیں اس لیے مبارک باد دیجیے کہ ہم کامیاب ہوگئے آئی گاٹ اٹ۔ پالیا پالیا۔ اور آپ یہ سن کرحیران ہوجائیں گے کہ یہ سب "دعاؤں"کی برکت سے ممکن ہواہے
زندگی بھر ہم جولیتے ہیں
زندگی بھر ہم جودیتے ہیں
وہ دعائیں ساتھ چلتی ہیں
ان دعاؤں کی تفصیل میں جانا توممکن نہیں لیکن کچھ موٹی موٹی دعاؤں کا ذکر کرسکتے ہیں مثلاً ہر شہر میں اس وقت 9999بھکاری تو ہوں گے اور وہ سارا دن "دعائیں "دیتے رہتے ہیں ستر سال پہلے جن کے "پودینے"کے باغ تھے وہ آج کل گروپ آف گارنز کے مالک ہیں وہ بھی دعائیں دیتے ہیں۔
بہت سارے گیدڑ تھے جو طاقتور بن گئے ان کی دعائیں بھی شامل کر دیجیے۔ یادش بخیر محترمہ بی بی بی آف پی پی پی جو اپنی جائیداد سے خیرات عامہ کے لیے فنڈ یا ٹرسٹ چھوڑ گئی ہیں اس بہتی گنگا میں جتنے بھی لوگ سرکاری یا غیرسرکاری مستفید ہو رہے ہیں وہ بھی دست بدعا ہیں۔
اس کے بعد کارڈ میں گھر ہیں نوکریاں ہیں یعنی دعائیں ہی دعائیں بلکہ منطقی لحاظ سے دیکھاجائے تو بیس کروڑ بھکاری بیس کروڑ بھکاریوں کو دعائیں دیں گے۔ جوابی طور پر وہ بھی دعائیں دیتے ہیں یوں دعاؤں کا ایک بہت بڑا پیکیج چل رہاہے۔ یہی وہ راز ہے جوہم نے کھوجا ہے کہ صرف دعاؤں ہی کے طفیل سب کچھ چل رہاہے۔ اب اس کورونا کو لے لیجیے کسی اور کے لیے "وباء"ہوگی اپنے لیے دعا ہی دعا ہے۔ کہتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہرچیز دعا سے۔