منفرد قیدی
ماں باپ اور بیوی بچے کسی بھی انسان کی وہ کل کائنات ہوتی ہے جس سے اس کی جذباتی وابستگی اٹوٹ ہوتی ہے۔ ان رشتوں میں سے کوئی بھی اس موڑ پر آپہنچے جہاں اس کی جدائی کا کرب امتحان لینے کو تیار کھڑا ہوتا ہے تو یہ زندگی کے مشکل ترین مواقع میں سے ایک بے رحم موقع ہوتا ہے۔ اس امتحان سے کارل مارکس کو بھی اپنے نوعمر بیٹے کی موت کی صورت گزرنا پڑا۔ اس کے اس امتحان کا ذکر دو خطوط میں ملتا ہے۔ ایک وہ خط جو خود مارکس نے اپنے دوست جرمن فلاسفر فریڈرک اینگلز کو لکھا اور دوسرا وہ جو مارکس کی بیوی جینی نے اپنی سہیلی کو لکھا۔ اینگلز کے نام اپنے خط میں مارکس نے لکھا"میں نے پڑھا تھا کہ عظیم لوگ دنیا اور اس کے مسائل میں اتنے منہمک ہوتے ہیں کہ انہیں ذاتی صدمے اور دکھ زیادہ رنج نہیں پہنچاتے۔ مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں بالکل بھی عظیم شخص نہیں ہوں۔ اس بچے کی وفات نے مجھ سمیت پورے گھر میں صف ماتم بچھادی ہے اور کچھ بھی کرنے کو جی نہیں کرتا۔"اسی بچے کی موت کے حوالے سے مارکس کی بیوی جینی نے سہیلی کے نام اپنے خط میں لکھا۔"تم یہ مت سمجھنا کہ مارکس کو اپنے اس بچے سے محبت نہ تھی۔ اسے اس سے محبت تھی مگر وہ قوم کے بچوں سے زیادہ محبت کرتا تھا، اسے ان کی زیادہ فکر تھی"مسلم لیگ نون کے تاحیات قائد میاں نواز شریف کو بھی زندگی کے مشکل ترین امتحانات میں سے ایک کا یوں سامنا ہے کہ جب ان پر پانامہ کا کیس چل رہا تھا تو عین انہی لمحوں میں قدرت نے بھی امتحانی پیپر یوں ترتیب دیا کہ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو کینسر جیسے موذی مرض سے دوچار کردیا۔ جس پاکستان میں سزاؤں اور مقدمات سے بچنے کے لئے خود ساختہ جلاوطنیوں کا اس حد تک رواج رہا ہو کہ خود محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی دو بار اس کا فائدہ اٹھا رکھا ہو وہاں عتاب کی گھڑیوں میں عدالت سے فرار کا یہ معقول ترین موقع تھا۔ نواز شریف چاہتے تو علیل اہلیہ کے علاج اور تیمارداری کے بہانے لندن میں مستقل ڈیرے ڈال سکتے تھے اور یہی ان کا سب سے پہلا امتحان تھا۔ وہ اس امتحان میں سو میں سے سو نمبر لے کر یوں کامیاب رہے کہ اہلیہ کے علاج اور تیمارداری کے نام پر عدالت سے فرار نہ ہوئے بلکہ اس کے کٹہرے کا سامنا کیا۔ وہ نوے کے لگ بھگ پیشیوں میں عدالت کے روبرو ہوئے۔ امتحان کا مشکل ترین مرحلہ تو اس وقت آیا جب وہ لندن میں تھے اور پیچھے سے سزا سنا کر انہیں "رضا کارانہ جلاوطنی" کی آپشن دی گئی۔ یہ وہی نواز شریف ہے جس پر الزام ہے کہ وہ جنرل مشرف سے تحریری سمجھوتہ کرکے سعودی عرب جلاوطن ہوگیا تھا۔ وہ ہربار یہ کہتا رہا کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا ہے تو وہ دکھایا کیوں نہیں جاتا؟ جنرل مشرف سمیت اس کا کوئی بھی مخالف یہ چیلنج قبول نہ کر سکتا لیکن پروپیگنڈوں کے اسیر ذہن کہاں آسانی سے بدلتے ہیں؟ ۔ جو ذہن تب نہیں بدلے تھے وہ آج یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ ادھر عدالت نے سزا سنائی ادھر نواز شریف نے بیٹی سمیت واپس آنے کا اعلان کردیا تاکہ سزا کا سامنا کر سکے۔ یہ ایسا موقع تھا جب ان کی اہلیہ ایک ماہ سے وینٹی لیٹر پر تھیں اور کہا جا رہا تھا کہ ڈاکٹر ان کی صحت کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں نواز شریف دس سالہ اور مریم نواز سات سالہ قید بامشقت سے یہ کہہ کر بآسانی خود کو بچا سکتے تھے کہ بیگم کلثوم نواز کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ سو جب تک ان کی طرف سے تسلی نہیں ہوجاتی پاکستان آنا مشکل ہے۔ لیکن اس کے بجائے نواز شریف اپنی پچاس سالہ ازدواجی زندگی کی رفیقہحیات اور مریم نواز اپنی ماں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر وطن کی طرف روانہ ہوچکے۔ وقت کی مجبوری کہ کالم شام چار بجے تک دینا ہے اور نواز شریف کی فلائٹ اس کے ڈھائی گھنٹے بعد لاہور پہنچے گی۔ سو فلائٹ اور نواز شریف کا کیا بنا یہ بتانا مشاہدے نہیں اندازے پر منحصر ہے۔ جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو میرے پیش نظرتین امکانات ہیں۔ یا تو فلائٹ کو لاہور سے کسی اور شہر موڑ دیا جائے گا۔ یا فلائٹ لاہور ایئرپورٹ پر ہی اتر جائے گی مگر نواز شریف کو ٹارمک سے ہی ہیلی کاپٹر میں سوار کرکے پنڈی پہنچادیا جائے گا اور یا پھر نواز شریف لاہور میں اپنے استقبالی ہجوم تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اگر پردہ غیب سے انہی تین امکانات میں سے کوئی ظاہر ہوا تو کامیابی نواز شریف کی ہی ہوگی۔ کیونکہ تاریخ میں درج ہوجائے گا کہ نواز شریف پہلا لیڈر تھا جو سزا سے بھاگنے کے بجائے جیل کی سلاخوں کو بوسہ دینے چلا آیا۔ تادم تحریر لاہور کنٹینر لگا کر سیل کیا جاچکا۔ کتنا دلچسپ ہوگا تاریخ کا وہ باب جس میں درج ہوگا کہ انہوں نے نواز شریف کو قید کی سزا سنائی لیکن جب وہ قید ہونے آرہا ہے تھا تو انہوں نے راستے سیل کر دیئے!اگر لندن سے روانہ ہونے والا نواز شریف پاکستان پہنچ گیا اور اس کی استقامت متزلزل نہ ہوئی تو پاکستان کی سیاست کا رخ ہمیشہ کے لئے درست سمت میں طے ہوجائے گا۔