لاپتہ افراد
2007ء کے شروع کی بات ہے مجھے اطلاع ملی کہ سوات کے چار باغ علاقے کا ایک لاپتہ فرد رہا ہو کر آیا ہے۔ چونکہ میرا بھائی بھی ان دنوں لاپتہ تھا تو میں ایک رات مغرب اور عشاء کے مابین چار باغ اس لاپتہ نوجوان سے ملنے جا پہنچا۔ وہ بہت ہی زندہ دل شخص تھا۔ ہم نے فجر کی نماز تک گپ شپ کی جس میں اس کی داستان کی تقریبا ہر ضروری تفصیل شامل تھی۔ گفتگو کا آغاز یوں ہوا تھا"آپ کو کس الزام میں اٹھایا گیا تھا؟ ""مجھ پر الزام تھا کہ میں نے جنرل مشرف پر حملے کے ماسٹر مائنڈ امجد فاروقی اور کوئی دو درجن القاعدہ والوں کو پناہ دی تھی""یہ الزام انہوں نے کیوں لگایا؟ "اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا"یہ الزام نہیں سچ تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ میرے گھر سے کریٹوں کے حساب سے اسلحہ بھی برآمد ہوا تھا جس میں ہینڈ گرنیڈ اور آر پی جی سیون بھی شامل تھے""کیا واقعی؟ "اس نے میری آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوری سنجیدگی سے کہا۔"ہاں بالکل!""تو پھر آپ کو چھوڑ کیسے دیا؟ ""دو دن قبل مجھے میرے سیل سے نکال کر ایک افسر کے سامنے پیش کیا گیا جس نے مجھ سے کہا کہ بیٹا زندگی دوسرا موقع دے رہی ہے، مرضی تمہاری ہے کہ اس کا فائدہ اٹھا کر ایک پرسکون زندگی جیتے ہو یا پھر اسی راہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی تباہ کرتے ہو۔ میں بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ زندگی شاید دوسرا موقع نہ دے، یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔ یہ کہہ کر وہ کالے شیشے والی گاڑی میں مجھے پیر ودھائی اڈے لائے جہاں مجھے سوات کا ٹکٹ خرید کر دیا گیا اور کچھ پیسے جیب خرچ کے طور دیئے گئے اور میں گھر آ گیا"میں چار باغ سے اسلام آباد لوٹا تو جنرل حمید گل مرحوم سے ملا اور انہیں یہ قصہ سنا کر رہنمائی مانگی کہ یہ کیا چکر ہے؟ جنرل صاحب نے بتایا کہ شاید پالیسی یہ ہے کہ جو نوجوان قتل یا بم پھاڑنے میں ملوث نہیں انہیں جینے کا دوسرا موقع دیا جائے البتہ جوکسی کے قتل یا بم پھاڑنے میں ملوث ہیں ان کے لئے کوئی معافی نہیں۔ چونکہ سینکڑوں لوگ گرفتار ہیں اور اتنی بڑی تعداد کو عمر قید یا سزائے موت دینا دانشمندی نہیں ہوتی اس لئے ایک لائن ڈرا کرنی ضروری ہوتی ہے اور وہ لائن یہی ہے کہ قتل اور بم دھماکے والوں کے سوا سب کو مناسب وقت پر چھوڑا جائے گا۔ ری ہیبلیٹیشن پروگرام سے یہی مراد ہے۔ اب یہاں کراچی کے ایک امام مسجد کا معاملہ بھی دیکھ لیجئے۔ خود میرا یہ پختہ یقین تھا کہ اس امام مسجد کو بے قصور اٹھایا گیا ہے کیونکہ میں اسے بچپن سے جانتا تھا اور اس کا جہادی تنظیموں سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ جب یہ امام مسجد رہا ہوا تو اس نے بتایا کہ اس پر الزام تھا کہ جنرل مشرف پر حملے میں استعمال ہونے والی رقم اس کے اکاؤنٹ سے گئی ہے۔ میں نے پوچھا"یہ کیا بات ہوئی؟ "تو اس نے بتایا"ہاں یہ ہوا تھا"میں نے پوچھا"یہ کیوں کیا تھا تم نے؟ "اس نے بتایا"میرے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا، کچھ دوست تھے جنہوں نے بطور امانت رقم میرے اکاؤنٹ میں رکھوائی اور کچھ عرصے بعد ایک اکاؤنٹ نمبر دے کر کہا کہ ہماری رقم اس میں ٹرانسفر کردیں جو میں نے ٹرانسفر کردی"میں نے پوچھا"پھر تم نے اپنی بے گناہی ثابت کیسے کی؟ "اس نے کہا"میں نے نہیں بلکہ مجھے اٹھانے والوں نے ہی اس کے بھی ثبوت حاصل کر لئے تھے"میں اس طرح کے درجنوں کیسز سے واقف ہوں جن میں کچھ لوگ بے خبری میں استعمال ہوئے، پکڑے گئے اور پھر ان کی بے گناہی انہوں نے یا ان کے رشتہ داروں نے ثابت نہیں کی بلکہ اٹھانے والوں نے ہی ثابت کی۔ جبکہ کچھ ایسے ہیں جو سنگین وارداتوں میں ملوث تھے مگر چونکہ یہ وارداتیں قتل یا بم دھماکے کی نہ تھیں اس لئے زندگی کا ایک اور موقع دے کر چھوڑ دیئے گئے۔ میں نے جس پہلے لاپتہ شخص کا ذکر کیا ہے یہ خیبر پختون خواہ کے ایک شہر میں اس وقت بھی کپڑے کا بزنس کر رہا ہے جو ان کا خاندانی بزنس ہے جبکہ کراچی کا وہ امام مسجد بھی کراچی میں اپنی امامت و دیگر مشاغل سے وابستہ ہے۔ چونکہ میں درجنوں کیسز سے ذاتی طور پر واقف ہوں جبکہ ان کی اصل تعداد ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور ہوگی اس لئے یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارے ادارے کسی بے گناہ کو تو کیا گنہگار کو بھی اس وقت تک نہیں اٹھاتے جب تک اس کے خلاف تمام ثبوت جمع نہ کرلیں۔ اٹھایا تب ہی جاتا ہے جب تفتیش مکمل ہوجاتی ہے اور مزید کوئی ثبوت باقی رہ نہیں جاتا۔ میرے پاس لاپتہ افراد کے معاملات وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں اور میں ہر متاثرہ فیملی سے یہی کہتا ہوں کہ اگر آپ کے بچے نے قتل نہیں کیا اور بم نہیں پھاڑا تو ہر حال میں واپس آئے گا اور اگر ان دونوں میں سے کچھ کیا ہے تو پھر انتہائی بااثر لوگ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ جب ملک حالتِ جنگ میں ہو تو جنگوں میں انصاف کے مروجہ ضابطے بدل جایا کرتے ہیں۔ امریکہ نے جنگی قیدیوں کو گوانتاناموبے میں سیکیورٹی وجوہات کے تحت نہیں بلکہ اپنے مروجہ "نظام انصاف" کی رینج سے باہر رکھنے کے لئے وہاں رکھا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے ادارے یہ سب قوم کو بتاتے کیوں نہیں؟ میں نے ایک سابق افسر سے یہی سوال کیا تو اس نے بتایا"این جی او مافیا اور دیسی لبرلز نے یہ تماشا لگا رکھا ہے کہ جب کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے تو وہ شور مچاتے ہیں کہ بے گناہ کو اٹھا لیا گیا لیکن جب انہی میں سے کسی کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہی مافیا کہتی ہے کہ دیکھو دہشت گرد اور ادارے ملے ہوئے ہیں، فلاں نے اتنا سنگین جرم کیا تھا مگر اس کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ لوگ دونوں ہی کیفیتوں کو فوج کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں نہ تو کسی کی بے گناہی سے غرض ہے اور نہ ہی کسی کے دہشت گرد ہونے سے، یہ تو ہر حال میں فوج کے خلاف پروپیگنڈے سے غرض رکھتے ہیں کیونکہ یہ ان کا پیشہ ہے اور یہ اس جنگ میں انہی لوگوں کے آلہ کار ہیں جو دہشت گردوں کے سرپرست ہیں۔ اگر آپ کے بیانیے کا جائزہ لیں تو وہ آپ کو انہیں عالم طاقتوں کی ضرورتوں سے ہم آہنگ ملے گا جو اس خطے میں دہشت گردی برپا کرنے کے ذمہ دار ہیں "