تنصیر سید

یہ ڈاکٹر سرجن تنصیر سید ہیں۔ کلثوم ہسپتال اسلام آباد میں سرجن ہیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات 2020 میں کلثوم ہسپتال میں ہوئی تھی جہاں میرے ایک دوست ڈاکٹر احمد سہیل مجھے لے کر گئے تھے۔ میرا درد اور تکلیف سے برا حال تھا۔ میرے galblader میں stones تھے جو ریلیز ہو کر جسم کے مختلف حصوں کو نقصان پہنچا چکے تھے اور ایک نالی میں پھنس چکے تھے۔ اتنی تکلیف زندگی میں کبھی نہ بھگتی تھی۔
دس برس پہلے اسٹون کا پتہ چلا تھا تو میرے دوست ڈاکٹر احمد سہیل نے کہا تھا کہ اسے اپریٹ کرائیں۔ وہی ہمارا پاکستانی انداز کہ جلدی کاہے کی۔ ہمارے پیارے انور عزیز چوہدری صاحب نے کہا انہیں بھی پچاس سال سے اسٹون ہیں۔ اگر تنگ نہیں کررہے تو اپریٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن یہ علم نہ تھا کہ جب یہ تنگ کریں گے تو کیا ہوگا اور وہی ہوا میں تقریباََ موت کے منہ میں جا پہنچا۔ دو تین دن ہسپتال داخل رہا۔ چار ڈاکٹرز کا پینل تھا۔ تین ایک طرف اور ایک دوسری طرف۔
تین کا خیال تھا پہلے انٹی بائیوٹیکس سے اس inflamation کو نیچے لایا جائے پھر آپریٹ کریں۔ لیکن اس ایک سرجن ڈاکٹر تنصیر سید کا خیال تھا کہ یہ پرانی بات ہوگئی۔ نئی میڈیکل سائنس کہتی ہے آپ پہلے سورس کو اپریٹ کر دیں، انٹی بائیوٹیکس اور دیگر ادوایات تو چل ہی رہی ہیں۔ دو تین دن اس میں گزرے کہ فیصلہ نہ ہورہا تھا۔ میں بہت تکلیف سے گزرا۔ تیسرے یا چوتھے دن وہی ڈاکٹر تنصیر صاحب میرے پاس آئے اور کہا رئوف صاحب آپ کی زندگی کو خطرہ ہے۔ میرے خیال میں اپریشن پہلے اور ابھی ہونا چائیے۔ آپ کے زخم میں puss پڑرہی ہے اور یہ خطرناک ہے۔ مزید تاخیر آپ کو خطرے کی طرف لے کر جارہی ہے۔
میں نے پوچھا آپ کا کیا مشورہ ہے۔ کہنے لگے میرا خیال ہے فوراََ اپریٹ کریں۔ ان کے اعتماد نے مجھے متاثر کیا اور مجھے لگا وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میری ایک خوبی ہے کہ میں فیصلے لینے میں دیر نہیں کرتا اگر میرا ذہن قائل ہو۔
میں نے کہا اگر آپ کا ڈاکٹر ہونے مشورہ ہے تو پلیز کریں۔
ڈاکٹر صاحب نے تین ڈاکٹروں کے رائے کے خلاف جا کر میرا آپریشن کیا۔ الحمداللہ اپریشن کامیاب رہا۔ میں زندگی موت کے کشمکش سے نکالا۔ ڈاکٹر تنصیر صاحب جیسے قابل سرجن ہمارے ملک کا فخر ہیں۔ ہمارا سرمایہ ہیں۔
کل ان سے بڑے دنوں کے بعد ملاقات ہوئی۔ وہ اگلے ہفتے پاکستان میں ربوٹک سرجری لارہے ہیں اور بیرون ملک سے قابل سرجن یہ کام کرنے کے لیے آرہے ہیں۔ ایک خوبصورت اور انتہائی قابل ڈاکٹر جن پر آپ اعمتاد کرسکتے ہیں جیسے میں نے ایک مشکل وقت میں کیا تھا جب میری اپنی زندگی خطرے میں تھی۔ اللہ کے بعد اپنی زندگی بچنے پر ڈاکٹر صاحب کا شکر گزار ہوں۔