زرخیز دماغ
تھامس ایڈسن 1847میں Ohio، امریکا میں پیدا ہوا۔ اس کی سائنسی ایجادات رہتی دنیا تک موجود رہیں گی اور انسانیت کے لیے وہ سہولتیں اور آسانیاں مہیا کر دیں گی جو چشم تصور سے بھی محسوس نہیں کی جاسکتیں۔ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے، آج تک کسی سائنسدان نے اتنی ایجادات نہیں کی جتنی ایڈیسن نے اپنی بیاسی سالہ زندگی میں کی تھیں۔ مجموعی طور پر ایڈیسن کی ایجادات کی تعداد 1093 ہے۔ اس کے علاوہ 560ایجادات ایسی بھی ہیں، جو رجسٹرڈ نہیں ہو سکیں، یا رد کر دی گئیں۔ اس سے قبل کہ میں آگے بڑھوں، اس وقت کے برصغیر کی حالت بلکہ مسلمان سلطنتوں کی صورت حال پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اپنے پایہ تخت دہلی میں موجود تھے۔ مغل حکومت ذلت کی آخری حدیں چھو رہی تھی۔ بادشاہ برائے نام تھا۔ مگر اپنے آپ کو حکمران سمجھتا تھا۔ اصل اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس تھا۔ بادشاہ اس کمپنی کا وظیفہ خوار تھا۔ اسے اچھا خاصا وظیفہ ملتا تھا جو لال قلعے میں رہنے والے سیکڑوں شہزادوں اور شہزادیوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ المیہ دیکھیں کہ کمزور ترین تخت کے جانشین بننے کے لیے، قلعہ میں سازشوں کا دور دورہ تھا۔ یعنی بربادی کا اندازہ کسی کو تھا ہی نہیں۔ نہ ہی انگریزوں کی عسکری اور سائنسی قوت کا کوئی ادراک تھا۔ ذرا سوچیے کہ بادشاہ کے شغل کیا تھے۔
دوپہر کو وہ محل سے متصل دریا میں ہاتھیوں کو نہاتے دیکھتا تھا۔ نت نئی شادیاں کرتا تھا اور شاعری کا شوق برآور رہتا تھا۔ لائق آدمی اسے سمجھا جاتا تھا، جو اچھے اشعار کہنے پر قادر ہو۔ یعنی جدید علوم سے دوری ہی نہیں، بلکہ ایک لاتعلقی کا کلچر تھا۔ لال قلعہ کی رونقیں صرف مشاعروں سے آباد تھیں۔ بہادر شاہ ظفر اور اس کے حواری، رات بھرجاگتے اور دن کا بیشتر حصہ سوتے تھے۔
شطرنج کھیلنا، رات گئے تک گیت سنگیت سے لطف اندوز ہونا، شب و روز کا معمول تھا۔ یقین فرمائیے، مجھے ایک بادشاہ کی زندگی کے بارے میں لکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے، مگر اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر یا اس سے پہلے مطلق العنان شہنشاہان ہند، سائنس کی طرف بالکل متوجہ نہیں تھے، سلاطین دہلی کے دور سے لے کر 1857کے غدر تک کسی لمحے کو سامنے رکھ کر سوچیے۔ اگر آپ کو کوئی چیز نہیں ملے گی تو وہ سائنس اور جدید علوم پر توجہ تھی۔ یہ لاپروائی حددرجہ قاتلانہ بلکہ طفلانہ تھی۔ مغلوں کے پاس دولت کے پہاڑ تھے۔ مگر زرخیز اور جدید سوچ کا فقدان تھا اور یہی معاملہ رعایا کا تھا۔ اگر انگریز، برصغیر پر قابض نہ ہوتے، تو آج بھی ہم مسلمان کبوتر اڑا رہے ہوتے، مرغ لڑاتے یا شطرنج کی بازی لگانے میں مشغول ہوتے۔ یہ تو شکر کیجیے کہ جدید علوم، برصغیر تک، فرنگیوں کے ذریعے پہنچ پائے۔ کوئی ایک نئی چیز ہو تو ذکر کروں۔ جدید سڑکیں، اسپتال، بجلی، پنکھے، موٹر کار، نہروں کا بہترین نظام، ریلوے، جدید نظام تعلیم، اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز، جدید ریاستی نظام، اس نظام کو چلانے کے لیے انتظامی ڈھانچہ، کریمنل جسٹس سٹسم اور اس کے علاوہ ان گنت معاملات ہیں۔ جو انھی کافروں کے ذریعے ہم تک پہنچ پائے۔ شاید آپ کے لیے حیرت ہو کہ فوج کو ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہ دینے کا سسٹم بھی انگریزوں کے ذریعے آراستہ ہوا۔
اس سے پہلے، برصغیر میں سپاہیوں کو باقاعدگی سے تنخواہ ملنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ بلکہ، کئی بار، سپاہی، تنخواہ کے لالچ میں، حریف کے لشکر میں شامل ہو کر اپنے سابقہ مالک سے برسر پیکار ہونے لگتے تھے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ انگریزوں نے برصغیر پر قیامت نہیں ڈھائی، قتل و غارت نہیں کی، وسائل نہیں لوٹے، یہ سب کچھ ہوا۔ مگر ہر ابھرنے والی طاقت، اپنے ساتھ، مظالم کا ایک نیا باب لے کر آتی ہے۔ کوئی بھی حکمران، اس وقت تک رحم دل نہیں ہوتا۔ جب تک اس کا اقتدار مستحکم نہیں ہو پاتا۔ بالکل یہی حال، سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کا تھا۔ ان کو بھی جدید ایجادات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ ایک عجیب سی نفرت تھی۔ چھاپہ خانہ لگانے کی جتنی مخالفت ترکوں نے کی، وہ آج بھی ایک منفی مثال ہے۔ تخت نشینی کے وقت، اپنے تمام بھائیوں کو ذبح کرنا، ایک قانون تھا، کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ مسلمان بادشاہ اورعلماء ہمیشہ سے جدت سے خوفزدہ رہے ہیں اور یہ غیر منطقی اور منفی رویہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
مگر مغربی دنیا، گزشتہ ساڑھے تین سو سے چار سو برس سے مکمل طور پر تبدیل ہو رہی ہے۔ ماضی میں وہاں ہماری طرح سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں تھی۔ کلیساء کے پاس اپنی فوج ہوتی تھی۔ جو انسان پاپائیت کی سوچ و فکرکے متضاد کوئی نئی بات کرتا تھا، اسے بے دین قرار دے کر قتل کر دیا جاتا تھا بلکہ نشان عبرت بنا دیا جاتا تھا۔ مگر مغربی دنیا نے لازوال قربانیاں دے کر، ہر سطح پر سوال کرنے کا حق حاصل کیا۔ انھوں نے کلیسا اور تاج کو الگ کیا اور مذہب کو ذات تک محدود کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ حکومت اور مذہب کو مکمل طور پر علیحدہ کر دیا اور اس کے بعد اپنے معاشروں میں فکری آزادی اور ریشنل ازم کو فروغ دیا۔
یہ کام کرنا تو دور کی بات مسلم دنیا اس بارے میں سوچ تک نہیں سکتی۔ ہم سوچ، کھوج اور سوالات کی دنیا سے ہزاروں نوری برس دور ہیں اور یہ فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے جب کہ مغرب نے سائنس اور جدت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ شروع میں، جارج ایڈیسن کا ذکر کیا تھا۔ صرف ایک شخص کے کارنامے عرض کروں تو کتاب لکھنی پڑے گی۔ مگر چند ایجادات کے متعلق ضرور عرض کرنا چاہوں گا۔ 1868 میں ایڈیسن نے ایک ایسی مشین بنائی جو الیکشن میں ووٹوں کی تعداد کو ریکارڈ کر سکتی تھی۔ ہے نہ کمال بات۔ 2024میں ہمارے حکمران ووٹوں کو مشین کے ذریعے گننے سے کتراتے ہیں بلکہ ان کی جان نکلتی ہے کہ کہیں ووٹوں کی بنیاد پر کوئی دوسرا، حکومت نہ کرنے لگ پڑے۔ مگر ایڈیسن نے ڈیڑھ سو برس پہلے، اس ابتری کو سائنس کے ذریعے ختم کرنے کی کامیاب کوشش کر لی تھی۔ لازم ہے، اس کے بعد اس مشین کو مزید بہتر کیا گیا۔ ایڈیسن نے قرض لے کر Melno parkمیں ایک لیبارٹری بنائی، جس نے حقیقت میں دنیا کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔
Ernest Freeberg تو ہماری دنیا کو Age of Edison کا نام دیتا ہے۔ فری برگ، ٹینیسی یونیورسٹی میں تاریخ کا استاد تھا۔ ذرا آگے چلیے۔ 1830میں ٹیلی گراف بن چکا تھا۔ یہ Morse Code کے تحت نکتوں کے طور پر حرکت کرتا تھا اور اس کی رفتار صرف پچیس الفاظ، فی منٹ تک محدود تھی۔ ایڈیسن نے ٹیلی گراف کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ اس نے ایک ٹائپ رائٹر طرز کی مشین بنائی۔ جو ایک ہزار الفاظ فی منٹ درج کرتی تھی۔ اس میں کاغذ کا استعمال بھی شروع کر دیا۔ گراہم بیل1876میں ٹیلی فون بنا چکا تھا۔ ایڈیسن نے فون کی لائنوں میں بجلی کا کرنٹ چھوڑنا شروع کیا اور کاربن سے اس کی ترسیل کی طاقت کو بڑھاوا دیا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ ایڈیسن نے ٹیلی فون کے اندر ایک جھلی لگائی، جس سے آواز سننے اور آواز کی رفتار اور کوالٹی میں حد درجہ بہتری آ گئی۔ اس غیر معمولی سائنسدان نے بلب کے اندر خلا (Vaccum) کو پیدا کیا اور اس کے اندر، ایک Metal filament کا استعمال شروع کیا۔ اس سے بلب کی روشنی میں حد درجہ اضافہ ہوگیا اور بلب کی زندگی بارہ سو گھنٹے تک بڑھ گئی۔ یہاں ایک عرض ضرور کروں گا کہ بلب ایڈیسن نے ایجاد نہیں کیا۔ مگر قدیم بلب کو جدید بنانے میں اس کا کلیدی کردار ہے۔ بالکل اسی طرح، ایڈیسن نے فونو گراف بھی بنایا۔ 1877 میں یہ فونوگراف بن چکا تھا اور بچوں کا ایک نغمہ "Mary had a little lamb " ریکارڈ ہو چکا تھا۔ 1880ء میں ایڈیسن ایک ابتدائی مووی کیمرہ تک بنا چکا تھا۔ بیٹری بھی ایجاد کر چکا تھا۔ میں نے صرف ایک سائنسدان کی چند ایجادات پر روشنی ڈالی ہے۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ ہم، یعنی مسلمان بادشاہتیں اس وقت کیا کارنامے رقم فرما رہی تھیں۔ ان گنت شادیاں، کنیزیں، محلات، قلعے، باغات اور مقبروں کے سوا ان کے نامہ اعمال میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ عالی شان مقبرے، جن میں بادشاہ دفن ہوتا تھا۔ دراصل وہاں جدید علوم کو دفن کیا جاتا تھا۔ محبت میں چور ہو کر تاج محل تو بن گیا، مگر اس ملکہ کی قبر میں سائنس کو بھی دفن کیا گیا۔ نتیجہ کیا ہوا۔
پوری مسلم دنیا، عملاً مغرب کی غلام بن گئی۔ آج بھی غلامی کا یہ طوق بڑے احترام اور شوق سے پہن رکھا ہے اور شاید اگلے کئی سو برس، جہالت کے عذاب میں سانس لینے کو زندگی کا نام دیں گے۔ مسلمان دنیا کو چھوڑیں، ذرا پاکستان پر غور فرمایئے۔ ہمارے سماجی رویے حد درجہ سطحی اور نمائشی ہیں۔ اسلام کی انقلابی روح کو ہم نے تقلید کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ زندہ لوگ، وسوسوں اور توہمات میں گھرے سانس پورے کر رہے ہیں۔ آپ تھوڑا سا استدلال سے کام لیں، تو قابل گردن زنی ہیں۔ دراصل ہمارے ملک میں سوچنا اور سوال کرنا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ اس غیرعقلی صحرا میں، ایڈیسن جیسے زرخیز دماغ کیا خاک پیدا ہوں گے!