وہیل چیئر
ڈیڑھ ماہ بعد، دوبارہ کاغذ پر کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پنتالیس دن، آصف صاحب کو سوچ کر زبانی بتاتا جاتا تھا اور وہ ٹائپ کرتے جاتے تھے۔ نا لکھنے کی وجہ کافی مشکل سی تھی۔ دو ماہ پہلے، گالف کھیلنا دوبارہ شروع کیا۔
دہائیوں پہلے بہاولپور اور گوجرانوالہ میں اس عمدہ گیم سے بھرپور لطف اٹھاتا رہا، پھر یک دم چھوڑ دی۔ یہ بھی ڈھنگ سے عرض نہیں کر سکتا کہ کیوں شروع کی اور پھر کیونکر کھیلنا بند کر دیا۔ بہر حال ایک وجہ تو سرکاری مصروفیت کا بتدریج بڑھنا تھا۔
لاہور میں گالف کھیلنے کے وسیع مواقع میسر تھے، مگر دل نہ مانا۔ عدم توجہ کی وجہ سے ایک گالف سیٹ تو گھر سے ایسے غائب ہوا کہ معلوم ہی نہ ہو پایا۔ اس سے بہت پرانا، قدیم اور متروک گالف سیٹ موجود تھا۔ ولسن کے اس سیٹ کو صاف کرا کر دوبارہ کھیلنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ اب ہوتا یوں تھا کہ دفتر سے واپس آکر کپڑے بدلتا تھا اور سیدھا، رایا کلب چلا جاتا تھا۔ پریکٹس ایریا میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ شاٹس لگا کر طبیعت فریش ہو جاتی تھی۔
گالف افیم کی طرح ہے، اس کو چھوڑنا ناممکن سا ہوتا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ اس گیم کا مرکزی کردار کھلاڑی کے علاوہ، ایک ایسا شخص بھی ہوتا ہے جو آپ کے ساتھ ساتھ ہی چلتا ہے۔ وہ ہر دم آپ کے کھیل میں نقص نکالتا رہتا ہے۔ بتاتا ہے کہ یہ شاٹ حد درجہ کمزور تھی یا قدرے بہتر تھی۔ اسے عرف عام میں"کیڈی" کہا جاتا ہے۔ اگر گالف کورس کا کوئی بادشاہ ہوتا ہے تو یہ کیڈی ہی ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی پوری زندگی گالف کے اردگرد گھومتی ہے۔
ان میں سے اکثر کیڈی، حد درجہ پروفیشنل ہوتے ہیں۔ ملک اور ملک سے باہر، متعدد ملکوں میں گالف کھیلتے ہیں۔ اس کا بھرپور معاوضہ بھی وصول کرتے ہیں۔ رایا کلب میں میرا واسطہ، اقبال سے پڑا۔ جو ایک ہنس مکھ اور مرنجان مرنج انسان ہے۔ کچھ عرصے میں، بہت شناسائی ہوگئی۔
معلوم ہوا کہ اس کی تمام جمع پونجی ایک دوست لے کر غائب ہو چکا ہے۔ اسے مکمل طور پر کنگال کر گیا ہے۔ بہر حال یہ ہمارے ملک میں عام سی بات ہے۔ یہاں دوسروں سے پیسے لے لیے جاتے ہیں۔ مگر واپس کرنے کا کوئی وطیرہ نہیں ہے۔ اس طرح کے فراڈ، آپ کو حد درجہ قابل اعتبار لوگوں سے ہی ملتا ہے، اس ملک میں لوگوں کو ذرا سا کھنگالیے تو تقریباً ہر انسان اپنی اپنی سطح پر، کبھی نہ کبھی، اس دھوکا کا شکار ہو چکا ہے۔
ایک ماہ تو گالف زور شور سے جاری رہی۔ مگر پھر ایک دن یکدم کمر میں درد شروع ہوگیا۔ ویسے سرکاری ملازم اور کمردرد، تقریباً لازم و ملزوم ہیں۔ طویل عرصے تک کرسی پر بیٹھنے سے ہر بابو، اس مرض کا نشانہ بن ہی جاتا ہے۔ ایک آدھا دن تو درد کو برداشت کیا۔ ڈاکٹر رضا سے پوچھ کر دوائی استعمال بھی کی۔ پھر اندازہ ہوا کہ یہ تکلیف معمولی نہیں ہے۔ بیڈ سے اٹھنے اور چلنے میں حد درجہ تکلیف تھی۔ اتنی شدید درد کا شکار پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
گالف کھیلنا تو دور کی بات چلنے پھرنے میں بھی مشکل پیدا ہوگئی۔ تکلیف کی شدت اس قدر بڑھ گئی کہ لگتا تھا کہ شاید اب بقیہ زندگی کبھی بھی نارمل طریقے سے چل نہیں پاؤں گا۔ تمام دوائیاں بے اثر سی معلوم ہوئی تھیں۔ پھر ہر وقت تکلیف کم کرنے کی گولیاں کھانا بذات خود ایک سزا معلوم ہونے لگی۔ بیڈ سے اٹھ کر، لاؤنج تک آنا ناممکن سا لگنے لگا۔ سمجھ آئی کہ معمول کے مطابق زندگی گزارنا اور صحت یاب رہنا کتنا اہم ہے۔
صحت کے معاملہ میں اکثر لوگ لاپرواہ ہوتے ہیں اور میں تو بہت ہی زیادہ بے پرواہ رویے کا حامل ہوں۔ ویسے مشہور مقولہ ہے کہ ڈاکٹر، جب بیمار ہوتے ہیں تو سب سے بدترین مریض بن جاتے ہیں۔ مگر یہ جملہ صرف ڈاکٹروں تک محدود کرنا کافی زیادتی والی بات ہے۔
عادت ہے کہ اپنی تکلیف کسی بھی شخص سے شیئر نہیں کرتا۔ درد سے تڑپتا رہتا ہوں مگر کسی کو بتاتا نہیں۔ مگر اب یوں لگنے لگا کہ کمر کا یہ موذی درد، جان لے کر رہے گا۔ فیصلہ کیا کہ اب کسی ماہر ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔ لاہور شہر میں نیورو سرجن بہتات میں موجود ہیں۔ مگر اچھے ڈاکٹر کے پاس پہنچنا دراصل آدھا علاج ہے۔
بڑی تگ و دو کے بعد، ڈاکٹر اعوان کا معلوم ہوا کہ وہ نیورو سرجن ہیں۔ کمر کے علاج میں ماہر ہیں۔ ان سے ہی رابطہ کرنا چاہیے۔ لیکن جانے سے پہلے ایم آر آئی کروانا بھی لازم ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ڈاکٹر کو معلوم ہی نہیں ہو پائے گا کہ ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف کیسے اور کیونکر شروع ہوئی ہے اور اسے کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
ان دنوں تکلیف عروج پر تھی۔ ایک لیبارٹری میں ایم آر آئی کی اچھی مشین دستیاب تھی۔ جب ان کے نرخ معلوم ہوئے تو حیرت زدہ رہ گیا۔ اتنے مہنگے کہ متوسط طبقے کے آدمی کے لیے بھی گراں محسوس ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ افسر ہوں۔ لازم ہے کہ دیگر ذمے داریوں کو نبھاتے نبھاتے، بھرپور وسائل بھی کم ہوتے جاتے ہیں۔
تحقیق پر معلوم ہوا کہ سرکاری اسپتالوں میں ایم آر آئی ہو تو سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے تین ماہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کسی سفارش سے اسے جلد بھی کرایا جا سکتا ہے۔ مگر دل نہ مانا کہ اپنے لیے کسی کو قطار توڑنے کا عرض کرپاؤں۔ سوچ سمجھ کر، اس نجی لیبارٹری میں چلا گیا۔ جہاں یہ تشخیص دستیاب تھی۔
لیبارٹری جاتے ہوئے، اہلیہ میرے ہمراہ تھی۔ آہستہ آہستہ چلتا ہوا، کرسی پر بیٹھ گیا۔ تکلیف سہنے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ نجی لیب کا عملہ حد درجہ مستعد تھا۔ رش بھی بالکل نہیں تھا۔ سہارا لے کر، ایم آر آئی مشین تک پہنچا۔ طریقے کے مطابق اب مشین میں لیٹنے کا عمل تھا۔ یہاں مجھ سے ایک شدید غلطی ہوگئی۔ اندازہ ہی نہیں تھا کہ مشین کے لوہے کے بیڈ پر سیدھے لیٹنے سے مہروں پر کتنا دباؤ پڑے گا۔ عملہ بار بار پوچھ رہا تھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ میرے پاس اس کا جواب موجود نہیں تھا۔ ایم آر آئی مشین کے گول دائرے میں مریض کو تیس سے پینتس منٹ، سیدھا لیٹنا پڑتا ہے۔
یہ بذات خود ایک قیامت ہے۔ مشین کی پر آشوب آواز اور پھر ایک غار جس میں روشنی ہی روشنی ہو، کافی مشکل تجربہ ہوتا ہے۔ آنکھیں بند کرکے، خاموشی سے اس آہنی ٹنل میں سیدھا لیٹا رہا۔ سوچتا رہا کہ چونسٹھ برس کی زندگی کیسے ایک پل میں بسر ہوگئی۔ آنکھیں بند تھیں۔ زندگی کے تمام گزرے ہوئے خوشگوار اور ناخوشگوار معاملے ذہن میں بگولوں کی طرح دوڑتے رہے۔ خیر بڑی مشکل سے آدھا گھنٹہ گزرا۔
معلوم ہوتا تھا کہ اس مشینی غار میں لیٹے لیٹے زمانہ بیت گیا ہے۔ جب دورانیہ ختم ہوا۔ اور وہ لوہے کا بیڈ، ٹنل سے باہر آ گیا۔ عملے نے کہا کہ اب آپ اٹھ سکتے ہیں۔ اٹھنے لگا تو معلوم ہوا کہ سیدھا لیٹنے کی بدولت، کمر میں ناقابل برداشت درد شروع ہو چکا ہے۔
حالت یہ تھی کہ اٹھنا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ حد درجہ مشکل سے عملہ کے سہارے سے اٹھا، تو چلنا محال تھا۔ پوری زندگی میں پہلی بار وہیل چیر کو استعمال کرنے پر مجبور ہوگیا۔ وہیل چیز پر دو تین منٹ بیٹھنا پڑا۔ مگر لگتا تھا کہ ہمیشہ سے اس معذوری میں مبتلا ہوں۔ گاڑی میں بیٹھ تو گیا، مگر ایسے لگتا تھا کہ کوئی کمر میں چاقو مار رہا ہے۔ بیس منٹ میں گھر پہنچا۔ اور یہ چند منٹ حد درجہ طویل معلوم ہوئے۔ ایسی تکلیف زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔
بڑی مشکل سے اپنے کمرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ دو دن، آرام کرکے ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ معلوم ہوا کہ وہ ہمارے کے ای کے پروفیسر نصیب اعوان مرحوم کا برخوردار ہے۔ نصیب اعوان صاحب، فرونزک میڈیسن کے بے مثال استاد تھے۔ اپنے شعبے میں حرف آخر بھی تھے۔
اگر معالج سے کوئی ذاتی تعلق نکل آئے تو مریض کا اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ نیورو سرجن نے بڑی تفصیل سے معائنہ کیا۔ معلوم پڑا کہ ریڑھ کی ہڈی کے کچھ پٹھے اس طرح کھنچ گئے ہیں کہ اس نے ہڈی کے Curve کو ختم کر ڈالا ہے۔ مگر یہ قابل علاج ہے۔ پٹھوں کو اصل حالت میں لانے کے لیے دوائیاں شروع کروا دی۔ ان کا اثر چند دن بعد شروع ہوا۔ اس دوران میں جس کرب سے گزرا اس کو بتانا بھی مشکل نظر آتا ہے۔
ہر وقت، اذیت ناک تکلیف موجود رہتی رہی۔ پانی کی گرم بوتل، کمر پر رکھنے سے کافی سکون ملتا تھا۔ اس کے علاوہ حددرجہ احتیاط شروع کر دی۔ بیٹھتے ہوئے، گدی کا استعمال ہر جگہ شروع کر دیا۔ معاملہ آہستہ آہستہ بہتر ہوگیا۔ خیر چار دن سے درد ختم ہو چکا ہے اور میں معمول کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوا ہوں۔ مگر وہیل چیئر پر دو تین منٹ کی مسافت میرے ذہن پر نقش ہوگئی ہے۔ قدرت، کسی کو بھی، کسی بھی حالت میں، کسی بھی وقت دوسرے کا محتاج نہ کرے۔ وہیل چیئر سے دوری ہر حال میں بہتر ہے۔