وار اینڈ پیس
Leo tolstoy، لیو ٹالسٹائی، روس کی اشرافیہ کا رکن تھا۔ والدکاونٹ نیکولائے ٹالسٹائی اور والدہ شہزادی ماریہ ٹالسٹائی تھی۔ 1828ء کی بات ہے۔ اشرافیہ میں پیدا ہونے والا ٹالسٹائی وقت کے ساتھ کتنا تبدیل ہو جائے گا، اس کے متعلق کوئی گمان تک نہیں کر سکتا تھا۔ تعلیم سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ اسکول میں اساتذہ نے لکھ کر دیا کہ یہ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ اسے اسکول سے حد درجہ ناقص کارکردگی کی بدولت نکال دیا گیا۔
1857ء میں اس نوجوان نے فیصلہ کیا کہ یہ دنیا دراصل مشاہدے کی دنیا ہے جب کہ رسمی تعلیم محض لکھنا اور پڑھنا سکھاتی ہے۔ بچپن ہی سے ٹالسٹائی کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا۔ جوانی میں اس نے دنیا دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ جستجو اور تجسس اسے پیرس لے آئی۔ وہاں ٹالسٹائی نے پہلی بار ایک شخص کو پھانسی لگتے دیکھا۔ نامعلوم انسان پھانسی کے پھندے کی وجہ سے تڑپ رہا تھا۔ ٹالسٹائی نے مرتے ہوئے شخص کی آنکھوں میں تکلیف اور درد کا ایک سمندر دیکھا۔ وہاں اس نے کہا کہ ریاست بنیادی طور پر لوگوں کے استحصال کے لیے قائم کی جاتی ہے۔
اس کے ذہن میں یہ سوال بھی آیا کہ کیا کوئی جدوجہد مکمل طریقے سے پرامن بھی ہو سکتی ہے؟ کیا کسی ایسی مہم کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے جو صرف اور صرف عدم تشدد پر قائم ہوئی ہو؟ اس اجنبی شخص کی پھانسی نے ٹالسٹائی کے افکار پر حد درجہ اثر کیا۔ 1861ء میں، ٹالسٹائی Victor hugo کو ملا جس عظیم لکھاری نے شہرہ آفاق ناولLe miserables رقم کیا تھا۔ اسی اثناء میں اس کی ملاقات جوزف پراؤڈ ہن سے ہوئی۔ جو ایک فرانسیسی انارکسٹ تھا۔ پراوڈہن کے متعلق ٹالسٹائی نے لکھا کہ وہ دنیا کا واحد شخص ہے جو تعلیم کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔
آہستہ آہستہ قدرت لیو کو اس سطح پر ترتیب دے رہی تھی جہاں اس نے دنیا کا عظیم ترین لکھاری بننا تھا۔ روسی لٹریچر میں ٹالسٹائی کا نام سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے۔ اس عظیم شخص نے دنیا کا مقبول ترین ناول، وار اینڈ پیس لکھا جو آج ایک ضرب المثل بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ، لیو کے خیالات میں عدم تشدد کا عنصر بھرپور طریقے سے نمایاں ہونے لگا تھا۔ 1908ء میں ٹالسٹائی نے (ہندو کے نام خط) لکھا جس میں درج تھا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہندوستان میں عدم تشدد کے فلسفے کو عوامی سطح پر رائج کرنا چاہیے۔
گاندھی کی عدم تشدد کی پالیسی ٹالسٹائی کی فکری بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔ والد کی طرح وہ بذات خود ایک بہترین شکاری تھا لیکن 1880ء میں شکار کھیلنا بند کر دیا اور اسے غیر اخلاقی کھیل قرار دیا۔ ٹالسٹائی کی زندگی فکری مدوجزر کی ایک حیرت انگیز کہانی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ ہر سطح کی بلندی کو چھو سکتا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور ٹالسٹائی دنیا کا بہترین ادب تخلیق کرتا گیا۔ روس کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ ہر وقت عام آدمی کے متعلق سوچتا رہتا تھا۔ اسے دولت اور شہرت بیکار سے محسوس ہوتے تھے۔ مرنے سے کچھ عرصہ پہلے اپنا امیرانہ رہن سہن ترک کر دیا۔
اب وہ تقریباً بیاسی برس کا ہو چکا تھا۔ ایک رات مزدوروں کے کپڑے پہن کر گھر سے نکلا اور سب کچھ وہیں چھوڑ آیا۔ پیدل پھرتا پھرتا ایک ریلوے اسٹیشن پر پہنچا اور ایک ایسی ریل گاڑی کا انتظار کرنے لگا جس کے آنے کا اسے کوئی علم نہیں تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آنے والی ریل گاڑی کی منزل کہاں ہے۔ مگر وہی ریلوے اسٹیشن ٹالسٹائی کی آخری منزل ثابت ہوا۔ نامعلوم ٹرین کے انتظار میں ٹالسٹائی ریلوے اسٹیشن پر ہی دم توڑ گیا۔
اس کی زندگی کے آخری ایام لوگوں میں یگانگت، محبت اور عدم تشدد کے خیالات پھیلانے میں صرف ہوئے۔ ٹالسٹائی کو متعدد بار ادب اور امن کے نوبل پرائز کے لیے منتخب کیا گیا مگر اسے کبھی نوبل پرائز عطا نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر لیوٹالسٹائی جیسا عظیم شخص نوبل پرائز کا حق دار نہیں تو پھر اس کا حق دار کون ہوگا۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے کے باوجود، ٹالسٹائی کا عام آدمی کے لیے دکھ اور درد اسے ایک عظیم انسان بنا دیتا ہے۔ جو تعصب اور قومیت کے جذبے سے مکمل آزاد نظر آتا ہے۔
یک دم میرے ذہن میں خیال ابھرتا ہے کہ کیا ہماری اشرافیہ، اتنی بنجر ہے کہ ٹالسٹائی کے ناخن کے برابر بھی ایک شخص پیدا نہیں کر سکی؟ ناخن کا ذکر میں نے صرف اور صرف محاورے کے طور پر کیا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے اشرافیہ اور حکمران لالچ اورہوس کی دلدل سے کیوں باہر نہیں نکل پاتے۔ سیاسی حکمران ہوں یا ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدیداران، انھیں علم و ادب، آرٹ اور سائنس سے دور کا بھی واسطہ نہیں، البتہ خود نمائی، خود پسندی، ظاہری نمود و نمائش کا ہنر انھیں خوب آتا ہے، زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے اور دولت جمع کرنے کے سوا کوئی دوسرا کام آتا ہی نہیں۔ زرداری اور شریف خاندان کتنے دولت مند ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
1947ء سے بلکہ اس سے پہلے کی اشرافیہ کی صورتحال دیکھیں تو کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی۔ پاکستان بنانے والے سیاستدانوں میں سے کسی کا درمیانے یا عام طبقے سے تعلق نہیں تھا۔ پنجاب کی حکمران یونینسٹ پارٹی صرف اس بنیاد پر مسلم لیگ میں آئی تھی کہ اس کے منشور میں زرعی اصلاحات شامل نہیں تھیں۔ چنانچہ زرعی زمینیں اور جائیدادیں بچانے کے لیے وہ بڑے آرام سے ایک رات میں ہی سیاسی وابستگیاں تبدیل کر گئے۔ اس دن سے لے کر آج تک ہمارا بالائی طبقہ سیاست میں آ کر ریاستی وسائل پر ایسا قابض ہوا۔ جس سے چھٹکارا آج تک ممکن نہیں۔ ہمارے حکمران طبقے نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ قائداعظم کی روشن خیال پالیسیوں کو ناکام بنا کر رکھنا ہے۔
یقین فرمائیے ہم انگریز کی غلامی سے نکل کر ملک کی جعلی اشرافیہ کی غلامی میں ایسے پھنس چکے ہیں، جس سے چھٹکارے کا کوئی طریقہ معلوم نہیں پڑتا۔ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اب ایسی باتیں عام ہوتی ہیں اور اس سے بڑا المیہ بھی یہ ہے کہ بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ ماضی قریب کی بات کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ ملک کی فکری معاشی اور اقتصادی شاہ رگ پر گہرے ترین گھاؤ گزشتہ چار دہائیوں میں لگائے گئے ہیں۔ مثال دینے کو دل نہیں چاہتا مگرمثال دیے بغیر کچھ کہنا بے سود سا نظر آتا ہے۔
دراصل ہوا یہ ہے کہ ملک کے ہر شعبے میں ایک گروہ پیدا ہو چکا ہے جس کا عوام کے مفاد سے دور دور کا بھی کوئی تعلق موجود نہیں۔ چند لوگوں کے پاس بلکہ خاندانوں کے پاس تمام ملکی وسائل جمع ہو کر رہ گئے ہیں۔ شوگر ملوں سے لے کر سیمنٹ فیکٹریوں تک، پرائیویٹ بجلی گھرو ں سے لے کر بڑے بڑے شاپنگ مالز تک، کنسٹرکشن انڈسٹری سے لے کر فوڈ انڈسٹری تک ہر کاروبار پر اشرافیہ کا کنٹرول ہے۔ اب تو اعلیٰ سرکاری عہدے بھی انھیں کے عزیزو اقارب کے قبضے میں جا چکے ہیں۔
یہ ایک ایسا جال ہے جس میں عوام مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں اور یقینی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے طنزاً کہا تھا کہ پاکستان کے ہاتھ میں ایک کشکول ہے۔ جگہ جگہ امیر ملکوں سے بھیک مانگ رہا ہے۔ مگر یہ بیان مکمل طور پر غلط ہے۔ پاکستان کے ہاتھ میں کشکول کی واحد وجہ ہماری مفت خور اشرافیہ کا وہ اندھا لالچ ہے جس نے ریاست کی جڑیں اکھاڑ ڈالی ہیں۔ دوبارہ عرض کروں گا۔ اس پورے استحصالی نظام کے پیچھے زیادہ سے زیادہ دس یا بارہ سیاسی اور غیر سیاسی خاندان ہیں۔ اور یہی ہمارے مسلسل حکمران ہیں۔
عرض کرتا چلوں کہ پہلے موجودہ حکومت نے سعودی عرب کا کارڈ کھیلنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہاں تک کہا گیا کہ سعودی ولی عہد پاکستان کی معاشی ترقی کی قیادت کریں گے۔ مگر کچھ نہیں ہو سکا۔ بالکل اسی طرح دبئی کے متعلق بات کی گئی۔ دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سنائی گئی۔ مگر سب لوگ جانتے ہیں اس دعوے کی عملی تصویر دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ بالکل یہی حالت چین کے دورے کی ہے۔
مفاہمتی یادداشتوں کو معاہدوں کا نام لے کر تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے آ رہا ہے۔ اگر صرف مفاہمتی یادداشتوں کی تعداد نوٹ کی جائے تو ہمارے موجودہ حکمران چین سے لاکھوں کاغذات پر دستخط کر چکے ہیں۔ مگر نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ پورے معاشرے کی اشرافیہ میں ٹالسٹائی جیسا ایک بھی مرد درویش نہیں جو عوام کے دکھ کو اپنے دل میں محسوس کرے اور انھیں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کرے۔ وار اینڈ پیس سطح کا فقیدالمثال ناول لکھنا تو دور کی بات۔ ہماری اشرافیہ کے سارے بدن پر غریب عوام کے خون کے چھینٹے موجود ہیں جو شاید ان لوگوں کا بہترین شاہکار ہے۔