رٹائرمنٹ کے بعد (3)
جس طرح، مقابلے کا امتحان پاس کرکے سول سروس میں آنا ایک نیا جنم ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح رٹائرمنٹ بھی ایک نئی جہت کا تعین کرتی ہے۔ سول سروس میں آتے وقت، انسان کی عمر پچیس چھبیس سال ہوتی ہے۔ اس وقت وہ اندازہ نہیں کر سکتاکہ نوکری کے چونتیس یا پینتس برس کتنی تیزی سے گزر جائیں گے۔ سرکار ی ملازمت کے اختتام پر مختلف افسروں کے متضاد رد عمل دیکھے ہیں۔ کچھ افسراسے اپنی زندگی کا فل اسٹاپ سمجھ کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ مذہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
بہت تھوڑے افسر رٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کو مثبت سمجھ کے بھرپور طریقے سے زندہ رہتے ہیں۔ عرض کرتا چلوں کہ سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد رٹائر منٹ کی تاب نہ لاتے ہوئے بہت جلد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ دراصل وہ سول سروس کو اپنی زندگی جان لیتے ہیں اور اصل زندگی سے ان کا دھیان ختم ہوچکا ہوتاہے۔ زندگی بہت بڑی چیز ہے اور یہ ہر لمحے منتظر رہتی ہے کہ آپ کس بہترین یا ادنیٰ طریقے سے اسے گلے لگاتے ہیں۔
ایک بات سمجھ نہیں آتی۔ وہ سرکاری اکابرین جو اپنی طاقتور نوکری کے دورانیے میں کسی عام آدمی کا کام کرنا بوجھ سمجھتے تھے، کسی فانی سے ہاتھ ملانا اپنی توہین سمجھتے تھے اور مقتدر حلقوں کے لیے موم کی ناک ثابت ہوتے تھے، جیسے ہی رٹائر منٹ کا وقت آتا ہے اور وہ ایک سنہرے پنجرے سے آزاد کر دیے جاتے ہیں۔ تو وہ سمجھ نہیں پاتے کہ اب بقیہ زندگی ماضی کے جعلی رویئے کے ساتھ کیسے گزاریں۔ طالب علم نے اس طرح کے بیشتر افسران کو مذہب کی طرف اس طرح مائل ہوتے دیکھا کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔
یہ رویہ بالکل قابل اعتراض نہیں ہے۔ مگر اسے تیس چالیس برس عملی طور پر رد کر دینے کے بعد، اس طرف جانا عجیب سا لگتا ہے۔ نکتے کو وضاحت سے آپ کے سامنے رکھتے ہوئے ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سینئر سرکاری ملازم آئی جی رٹائر ہوئے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اہم ترین عہدوں پر جا کر موصوف نے کسی غریب آدمی کا کام کیا ہویا عام آدمی کو اپنے دفتر تک رسائی دی ہو۔ رٹائر منٹ کے بعد جب سیاسی آقاؤں نے انھیں کوئی بھی نئی نوکری دینے سے انکار کر دیا تو ان میں ایک تبدیلی نظر آئی۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ آج کل مذہب پر تحقیق کر رہے ہیں۔ حیران رہ گیا کیونکہ ان کا مطالعہ حد درجے سرسری سا تھا اور پھر وہ جن مضامین پر ہاتھ ڈال رہے تھے یا کوشش کر رہے تھے۔
اس کے حساب سے ان کے پاس علم بھی محدود سا تھا۔ انھیں نا عربی زبان آتی تھی، ناعربی صرف و نحو سے واقف تھے، بلکہ مستند ترین اسلامی نسخے بھی ان کے نزدیک سے نہیں گزرے تھے۔ مگر جناب نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ پنتیس چالیس برس تک ان کا انسان دشمن رویہ ان کی اصل پہچان تھی۔ رٹائر منٹ کے بعد وہ ماضی کو مذہبی لبادہ اوڑھ کر چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ میں کسی طریقے سے بھی ذاتیات پر بات کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ مگر کئی بار یہ سب کچھ دیکھ کر متعدد سوالات ذہن میں سانپ کی طرح سر اٹھاتے ہیں۔ بہترین بات تو یہ ہوتی کہ وہ اپنی دوران ملازمت میں لوگوں کو انصاف مہیا کرتے اور ان کے لیے آسانیاں فراہم کرتے۔
چار سال پہلے جب میں سرکاری ملازمت کے احتتام پر پہنچا تو کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ اپنی زندگی کے بہترین دورانیے میں داخل ہو رہا ہوں۔ فوری طور پر کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا اور اللہ کا نام لے کر اس میں جت گیا۔ یقین فرمائیے کہ خدا کے فضل و کرم سے میں ناصرف کامیاب ہوگیا بلکہ زندگی میں وہ آسائشیں دیکھیں جو سرکاری ملازمت میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کاروبار شروع کرنے کے تھوڑے عرصے بعد ایک بہترین جیپ خریدی اور اس پر سفر کرنا شروع کر دیا۔ اپنا دفتر لاہور کی مقبول ترین جگہ یعنی ایم ایم عالم روڈ پر لیا اور اسے بہترین طریقے سے آراستہ کرایا۔ ہاں! ایک اور بات اپنے دفتر کو تمام رٹائرڈ دوستوں کے لیے کھول دیا۔ کاروبار تو خیر چل ہی رہا ہے مگر میرا دفتر اب ایک ایسی جگہ بن چکا ہے۔
جہاں تمام پرانے دوست متواتر آتے رہتے ہیں۔ ہنسی اور قہقہوں کا ایک طوفان برپا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح کاروبار کے ساتھ ساتھ، طالب علم نے گورننس پر ایک فورم شروع کیا جس میں ملک کے اعلیٰ ترین اکابرین کو بلا کر ان سے برابری کی سطح پر مکالمہ شروع کیا۔ اس فورم میں ہر طبقہ فکرکے حد درجہ کامیاب لوگ شامل ہیں۔ شناسائی کا ایک نیا حلقہ بھی شروع ہوا جس میں انسان بے لاگ گفتگو کر سکتا ہے۔ تمام دوستوں کا یہ خیال ہے کہ رٹائر منٹ مجھے راس آ چکی ہے۔ لیکن میرا گمان یہ ہے کہ زندگی کو خدا کے فضل کے بعد اپنے ہاتھوں سے ترتیب دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ایک اہم ترین بات ان تمام سرکاری ملازمین سے عرض کرنا چاہتا ہوں جو اب سرکاری نوکری کو خیر آباد کہہ چکے ہیں۔
وہ یہ کہ ہر سرکاری ملازم کسی نہ کسی سطح پر شدید ناانصافی کا شکار بنتا ہے۔ منافقت، اعلیٰ ترین عہدوں کی دوڑ اور منفی مقابلے کی بدولت، کئی بار انسان نظام کی مخالف طرف آجاتا ہے اور اس میں اس کے ساتھ متعدد بار حد درجے مشکل سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک راستہ تو یہ ہے کہ انسان اس کے رد عمل میں وہ نفرت پالتا رہے جو اسے نظام نے ودیعت کی ہے۔ لیکن دوسرا راستہ حد درجے بہترین ہے وہ یہ کہ تمام لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دے۔ بلکہ اس سے آگے کی بات کروں گا۔ کہ اگر انسان سے غلطیاں ہوئی ہیں تو ان سے سیکھ کر ان تمام لوگوں سے معافی مانگ لے جن کی دل آزاری کی ہو۔ زندگی میں دوسرا راستہ اپنایا ہے اور میں اس وجہ سے حد درجے سکون میں ہوں۔
کاروبار میں قدم رکھتے ہوئے قطعاً اس بات کا تجربہ نہیں تھا کہ کارپوریٹ دنیا کیا ہے اور اس کے کیا تقاضے ہیں۔ مگر بہت جلدی یہ نقطہ سمجھ آ گیا کہ کاروبار میں اگر ایمانداری کے اصول کو اپنا لیں تو بہت جلد مستحکم ہو سکتے ہیں۔
شاید آپ کو اندازہ نہیں کہ کاروبار کی دنیا میں، سرکار کی نوکری سے زیادہ بل فریب ہے۔ بڑے بڑے سیٹھ اور سرمایہ دار جھوٹ کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتے ہیں اور انھیں اس پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ قطعا ً یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے کاروبار سے منسلک لوگ ان کے رویے کو فوری طور پر پہچان لیتے ہیں اور ان پر اعتبار کم سے کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بہرحال پاکستان میں تاجر لوگوں کی اکثریت، منفی ہتھکنڈوں سے صارفین کو کامیابی سے بیوقوف بناتی رہتی ہے۔ اس کے بالکل متضاد، طالب علم نے اپنے معمولی سے کاروبار کی بنیاد ایمانداری پر رکھ دی اور خدا کا شکر ہے کہ آج ہم لوگ کامیابی کے راستے پر سفر کر رہے ہیں۔
اس بات کو ذہن نشین کیجیے کہ رٹائر منٹ سے آپ کی زندگی قطعاً ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر آپ ایمانداری اور نیک نیتی سے کوشش کریں تو ایک بہترین زندگی کا آغاز کر سکتے ہیں۔ بات صرف ادراک کی ہے۔ ایک اور بات عرض کرنا چاہوں گا کہ پوری سرکاری نوکری میں، ہر سرکاری بابو کبھی برابری کی سطح پر سیاسی رہنماؤں اور دیگر اکابرین سے بات نہیں کر پاتا۔ اس کے مزاج میں ایک عجیب سی ہچکچاہٹ شامل ہو جاتی ہے اور کئی جگہ، اپنی مرضی کے خلاف "یس سر" کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جسے کم لوگ مانتے ہیں مگر مجبوریاں انسان کو سب کچھ کراتی ہیں۔
رٹائر منٹ کے بعد اگر آپ ایک آسودہ زندگی گزار رہے ہیں تو یقین فرمائیے کہ وہ مجبوری جو آپ سے "یس سر" کراتی تھی، ایک دم ختم ہو جاتی ہے۔ انسان وزیراعظم یا وزیراعلیٰ تک پورے اعتماد کے ساتھ ہر وہ بات کرسکتا ہے جس کا دوران ملازمت سوچنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ یقین فرمائیے! رٹائر منٹ کے بعد آپ کو وہ طاقتور لوگ جو پہلے "جن اور دیو" نظر آتے تھے، اب بالکل عام سے آدمی معلوم پڑتے ہیں۔ زندگی کا یہ پہلو کم از کم میں نے رٹائر منٹ سے پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔ بہر حال یہ بھی شاید ایک شخصی رویہ ہے لیکن اس نقطہ نظر میں توازن اور طاقت دونوں موجود ہیں۔
سرکاری زندگی کو تیاگ کر میں زندگی کے اس دور میں داخل ہو چکا ہوں جس میں اپنی مرضی سے کام کرتا ہوں۔ میں نے مٹھی کھول کر جینا شروع کر دیا ہے۔ لوگوں میں آسانیاں پیدا کرنا اب میرا مطمع نظر ہے اور شاید اسی فعل کی وجہ سے خداوند کریم رزق کے دروازے کشادہ سے کشادہ تر کیے جا رہا ہے۔ رٹائر منٹ کے بعد زندگی کو بھرپور طریقے سے جینا شروع کیجیے اور کسی بھی سطح پر معمولی سے معمولی کاروبار شروع کرنے میں بالکل نہ شرمائیے۔ پھر دیکھیے خدا آپ کے مقدر کو کس طرح بہتر بنا دیتا ہے۔ رٹائر منٹ کے بعد نئی زندگی شروع کرنا آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔