ملک کی سبکی ہو رہی ہے
لوکس (Lucas) کی عمر صرف چھ برس کی تھی۔ سر میں ایک دن شدید درد ہوا اور وہ چلا چلا کر رونے لگا۔ بیلجیم کے ایک شہر میں مقیم، لوکس کے والدین ایک دم گھبرا گئے۔ فوراً اسپتال لے جایا گیا۔ ایکس رے اور ایم آر آئی ہوا۔ نتائج دیکھ کر ڈاکٹر کرسی پر بے دم ہو کر بیٹھ گیا۔ ہمت نہیں تھی کہ معصوم بچے کے والدین کو بتا سکتا کہ ان کے گھر کا آنگن ویران ہونے والا ہے۔ ایم آر آئی کے مطابق بچے کے دماغ میں ایک حد درجہ خطرناک کینسر کا گولا سا موجود تھا۔
اس خوفناک کینسر کا نام Brainstem Glioma تھا۔ ڈاکٹر نے بڑی ہمت کرکے لواحقین کو بلایا۔ تہذیب سے کہنے لگا کہ بیٹے کو خوش رکھیے۔ اسے اپنی مرضی کے کھلونے لے کر دیں جو دل میں آئے کرنے دیں۔ اس کی ہر شرارت کو برداشت کریں۔ والدین مزید متفکر ہوگئے۔ مگر کیوں۔ اس سوال کا جواب ڈاکٹر کے پاس تھا۔
والدین کو بتایا کہ لوکس ایک ایسے خوفناک کینسر میں مبتلا ہے جس کا ابھی تک دنیا میں کوئی علاج نہیں۔ میڈیکل سائنس کے مطابق اس موذی مرض میں مبتلا بچے، یقینی طور پر چھ سات ماہ میں ملک عدم کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ لوکس کو گھر لے جائیے اور اس کا خیال رکھیے۔ لوکس کے والدین کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان کا لخت جگر اتنے بڑے عذاب میں کیونکر مبتلا ہوگیا۔ بڑی مشکل سے والدین نے اپنے آپ کو سنبھالا اور لوکس کو لے کر گھر چلے گئے۔ اب صرف موت کا انتظار تھا۔ یہ 2017 کی بات ہے۔
لوکس کے والد کو کسی نے بتایا کہ پیرس میں ایک کینسر ریسرچ سینٹر ہے۔ جس کا نام Gustave Roussy Cancer Center ہے۔ اس میں تحقیقاتی بنیادوں پر اس موذی مرض کا علاج شروع کیا گیا ہے۔ مرکز میں ایسے بچوں کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے Glioma کا شکار ہیں۔ لوکس کا والد بیٹے کو پیرس میں اس سینٹر میں لے گیا۔
وہاں کے انچارج کا نام Jacues Grillتھا۔ والد نے بڑی عاجزی سے اسے درخواست کی کہ میرے بیٹے کو آپ تحقیقاتی دوا دے سکتے ہیں۔ گرل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کیونکہ اسے بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ نئی دوا کے اثرات کیا ہونگے۔ بہر حال والدین نے ایک کاغذ پر دستخط کر دیے کہ اس تجربہ میں اگر لوکس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس کی ذمے داری ریسرچ سینٹر پر قطعاً عائد نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر گرل کے لیے بھی یہ حد درجہ مشکل مرحلہ تھا۔
اس نئی دوائی کے لیے کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اسے بالکل معلوم نہیں تھا کہ وہ لوکس کو بچا پائے گا یا نہیں۔ اب لوکس کو اس دوا کے لیے تیار کیا گیا۔ اسپتال میں اس کا کمرہ کھلونوں سے سجا دیا گیا۔ نرسیں اسے ہنسانے کی بھرپور کوشش کرتی تھیں اور کمرے سے باہر آکر دھاڑیں مار مار کر روتی تھیں۔ ڈاکٹر گرل نے اپنے اسٹاف کے ساتھ مل کر، بچے کو نئی تحقیقاتی دوا دینی شروع کر دی۔ جیسے ہی دوا، لوکس کے جسم میں گئی۔
اس نے تکلیف کی شدت سے تڑپنا شروع کردیا۔ بچے کو لگا اس کی شریانوں میں کسی نے آگ لگا دی ہے مگر آہستہ آہستہ سنبھلنے لگا۔ دوائی کو روزانہ کی بنیاد پر لگایا جانا تھا۔ جب یہ خبر عام لوگوں تک پہنچی تو انھوں نے ننھے بچے کے لیے پھول اور چاکلیٹس بھجوانی شروع کر دیں۔ پورا اسپتال پھولوں سے بھر گیا۔ لوکس کو اب دوائی راس آنی شروع ہوگئی۔
آج سے ٹھیک ایک ماہ پہلے، ڈاکٹر گرل نے لوکس کا ایم آر آئی کروایا۔ نتائج دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا، بچے کے دماغ کا کینسر یکسر ختم ہو چکا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ اسے کبھی کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ یہ کمال تجربہ کامیاب ہوگیا۔
لوکس کی جان بچ گئی۔ میڈیکل سائنس میں لوکس پہلا بچہ ہے جو Gliomaجیسے موذی مرض سے صحت یاب ہو چکا تھا۔ اب دنیا میں کوئی ایک بچہ بھی اس خطرناک ترین کینسر سے جان کی بازی نہیں ہارے گا۔ سائنس کی دنیا کا یہ انقلاب صرف چند ہفتے پرانی بات ہے۔ یہ سائنسی ترقی فرانس کے لیے مزید عزت کا باعث بن رہی ہے۔
مگر اس سے بالکل متضاد میرے ذہن میں یہ سوال، بار بار سانپ کی طرح پھن اٹھا رہا ہے کہ جب دنیا کے اکثر ممالک ترقی کی نئی منازلیں طے کر رہے ہیں۔ اپنے ملک کے شہریوں کے لیے بے مثال آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس، ہمارے حکمران، اپنے ملک کے لیے ایسی ایسی دشواریاں کھڑی کر رہے ہیں کہ سب پریشان ہیں۔
حالیہ الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی کو روکا نہیں جا سکا۔ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہونے والے احتجاج نے حالیہ الیکشن کی شفافیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ فارم 45اور فارم 47 کے ایسے تنازعہ کوکھڑا کیا گیا جس نے حالیہ الیکشن کے بارے میں شکوک پیدا کر دیے۔
فارم45 پریزائڈنگ افسر کا دستخط شدہ فارم ہوتا ہے۔ جس میں ہر امیدوار کے ووٹ اور ان کے نمبر کا اندراج ہوتا ہے۔ یہ تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کے سامنے بنتا ہے۔ اور سب اسی پر دستخط کرتے ہیں۔ یعنی، الیکشن کے نتیجہ کی بنیاد یہ فارم 45ہوتا ہے۔ فارم 47 ایک رسمی کارروائی ہے۔ جس کی بنیاد فارم45 ہی ہوتا ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ فارم 47کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا۔ اگر فارم45پر کسی بھی امیدوار کے ایک لاکھ ووٹ درج ہیں تو 47میں انھیں ایک ہزار کر دیا گیا۔ کوئی ان ہونی بات عرض نہیں کر رہا۔ اب تو جیتے ہوئے ایسے سیاست دان بھی بذات خود کہہ رہے ہیں کہ ان کی جیت مبینہ طور پر غلط ہے۔ اور اصل جیتنے والے لوگ، کوئی اور ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، تحریک انصاف سے منسلک افراد، یہ الیکشن مکمل طور پر جیت چکے ہیں۔
اب توتحریک انصاف نے فارم 45 کو سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کر ڈالا ہے یعنی اپنی طرف سے ثبوت ہر ایک کے سامنے رکھ ڈالے ہیں۔ اس خوفناک صورتحال کا ایک بہت مختلف پہلو بھی ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا اور بین الاقوامی جرائد کھل کر پوری دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں کہ حالیہ الیکشن متنازع ہیں۔
امریکا، برطانیہ اور ای یو کے سرکاری نمایندوں نے بغیر کسی جھجھک کے کہنا شروع کر دیا ہے کہ الیکشن اور اس سے پہلے اٹھائے ہوئے اقدامات کسی طور پر موزوں نہیں ہیں۔ ابھی تک کسی ترقی یافتہ ملک کے سربراہ نے نئے نامز د وزیراعظم کو مبارک باد کا پیغام تک نہیں دیا۔
صورتحال مشکل اور خام ہو چکی ہے۔ آزاد امیدواروں کے حامیوں کے جذبات بھرپور حرارت کی سطح پر ہیں۔ یہ صورتحال اب بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے سبکی کا باعث بن چکی ہے۔ ہاں ایک اور بات۔ ہماری دگر گوں صورتحال کو جتنی ہوا بھارت نے دی ہے وہ بھی اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ عمران خان کے ذکر سے تو ہندوستان اتنا گھبراتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ بہتر برس میں ہمارے پاس ایک ایسا ادارہ نہیں ہے جو انتقال اقتدار کو قدرے شفاف طریقے سے سرانجام دے سکے۔
ادھر ایک مذہبی جماعت کے قائد نے تو عین چوک میں بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے لے کر، اسے پابند سلاسل کرنے تک ہر ایک منفی قدم کی نشاندہی کی ہے۔ کیا ایسی صورتحال میں آنے والی حکومت عام لوگوں کے لیے کچھ بہتر کر پائے گی۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔
پی ڈی ایم دوم، وہی کچھ کرے گی جو اس نے گزشتہ اٹھارہ ماہ دور اقتدار یا دور ابتلا میں کیا تھا۔ آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا، دانشمندی نہیں۔ دنیا کے ترقی بلکہ تہذیب یافتہ ممالک، ایک بچے کے کینسر کو ٹھیک کرنے کے لیے ہر نیا مثبت تجربہ کرنے کے لیے ہمہ تن تیار ہیں۔ اور ہمارے جیسا ملک اب باقاعدہ اقتصادی طور پر ہچکیاں لے رہا ہے۔ سیاسی سبکی تو ایک طرف، اب تک ایک ادارہ نہیں رہا جو عوام کی نظر میں معتبر ہوں۔