معیشت کیسے درست ہو گی؟
رانا صاحب کچھ دنوں پہلے سوئٹزر لینڈ سے کراچی آئے۔ ان کا خیال تھا کہ کوسٹل بیلٹ پر پاکستان کا سب سے بڑا بجلی گھر بنائیں گے۔ سندھ حکومت کے اکابرین نے بڑی خوش اسلوبی سے یہ کام کرنے کی اجازت دی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کسی قسم کی رکاوٹ بھی پیدا نہیں کی۔ رانا صاحب کراچی میں کوئی بیس پچیس دن رہے۔ مگر یک دم اپنا پروجیکٹ منسوخ کرکے لاہور آ گئے۔
بیس پچیس دن پہلے ملنے آئے تو قدرے پریشان سے لگے، کہنے لگے کہ اب وہ پاکستان میں کسی جگہ بھی سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ گزارش کرتا چلوں کہ رانا صاحب یورپ کی امیر ترین کاروباری شخصیات میں شامل ہیں۔ مگر ان کا دل صرف پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔ اپنے وطن سے تو چلے گئے، مگر پاکستان کو اپنے دل سے نہیں نکال سکے۔
مجھے بڑے قریب سے انھیں دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ لوگوں کی تمام خواہشات اور تمنائیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اسی دنیا میں بھرپور طریقے سے مکمل کر دی ہیں۔
پریشانی کی وجہ پوچھی، تو بتانے لگے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ایک مغربی بینک تقریباً ایک ارب ڈالر فراہم کرنے کے لیے رضامند ہوگیا تھا۔ بینک نے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد یقین دلایا تھا کہ اس بجلی گھر کو پورا سرمایہ فراہم کریں گے۔
کچھ عرصہ پہلے بینک کے صدر نے رانا صاحب کو فون کیا اور بتایا کہ بورڈ آف مینجمنٹ نے سرمایہ کاری سے انکار کر دیا ہے۔ وجہ یہ کہ پاکستان کے حد درجہ غیر یقینی اور ابترمعاشی حالات ہیں، اس پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے محفوظ نہیں سمجھا جاتا، یورپ کا تقریباً ہر مالی ادارہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتا ہے۔
مغربی مالی ادارے کے سربراہ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لیے دگنی رقم فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ باتیں کرتے رانا صاحب کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
افسردہ لہجے میں کہنے لگے کہ سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو برباد کر دیا ہے اور سیاست اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے جس فہم و فراست کی ضرورت ہے، وہ ملکی قیادت میں نظر نہیں آتی۔ رانا صاحب مغرب کے کئی وزرائے اعظم اور صدور کے ذاتی دوست ہیں۔ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ پاکستان کے وہ کون سے طاقتور لوگ ہیں جن کی دولت مغربی ملکوں میں محفوظ ہے۔ کافی دیر بحث کے بعد میں نے کہا وہ دل چھوٹا نہ کریں۔
اب بڑی سرمایہ کاری کے لیے عسکری اداروں کے زیر نگرانی ایک بااختیار کمیٹی ترتیب دی جا چکی ہے اور معاملات انشاء اللہ بہتری کی طرف گامزن ہوجائیں گے۔ جواب بالکل سادہ سا تھا کہ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ میرے پاس ان کے خدشات و تحفظات کا کوئی مدلل جواب نہیں تھا۔ سچائی تو یہی ہے کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ بغیر ٹانگوں کے ہوا میں معلق ہے۔ حالیہ الیکشن کے حقائق بھی سامنے آ رہے ہیں۔
کسی شخص کے حق یا خلاف بات کرنا نامناسب سمجھتا ہوں۔ مگر زبان زد عام ہے کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ، ملک کے لیے تسلی بخش نتائج نہیں دے سکے گا۔ وجوہات بالکل سادہ سی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن طاقتور پاکستانیوں کی دولت مغربی ممالک میں موجود ہے، کیا حکمران انھیں اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے رضا مند کر پائیں گے۔
یہ سوال ہر سوچنے اور سمجھنے والے دماغ میں بہر حال موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے حالیہ الیکشن میں پونے دو کروڑ سے لے کر دو کروڑ ووٹ حاصل کیے ہیں، کیا اسے مزید رگڑا لگا کر سیاسی عدم استحکام کی فضا قائم رکھی جائے گی؟ حقیقت پسندی ہمارا کوئی کریکٹر نہیں ہے، ہم نعرے بازیوں پر اکتفا بلکہ تکیہ کر بیٹھے ہیں۔ خواص کے مزاج کے خلاف بات کرنے کی روایت دم توڑ چکی ہے۔
فیض احمد فیض سے منسوب جملہ کہ یہ ملک جیسے چل رہا ہے، آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے گا۔ فیض صاحب نے تو یہ تلخ باتیں نصف صدی پہلے کہی تھیں۔ مگر ابوالکلام آزاد کی پیشن گوئیاں بھرپور طریقے سے سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ میرے اندر اتنی استطاعت نہیں کہ ان تیرہ پیشن گوئیوں کو ضبط تحریر لا سکوں۔
ملکی مسائل صدر سے لے کر وزرائے اعظم اور وزیر اعظم سے لے کر کوچہ وبازار میں بیٹھنے والے ہر آدمی کو معلوم ہیں۔ پاکستان کی کاروباری صورتحال موجودہ حالات میں کتنی مزید خراب ہوگی۔ اس کا پتہ تو آنے والا وقت ہی کر پائے گا۔ مگر خدشات کے سانپ ا ور بچھو انسان کے ذہن کو خوفزدہ کرتے رہتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھ رہے ہیں، غریب لوگ بھاری بلز ادا کرنے کے قابل نہیں رہے، وہ خودکشیوں پر مجبور ہوچکے ہیں۔
چند دن پہلے ایک سفید پوش شخص نے چلتی ہوئی ٹرین کے سامنے اپنے آپ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرواڈالا۔ لاش کی جیب میں بجلی کے وہ بل تھے جنھیں وہ ادا نہیں کر پایا۔ آئی پی پیز پیپلز پارٹی کے دور سے شروع ہوا، یہ وہ گڑھا ہے جسے ن لیگ یہاں تک کہ پی ٹی آئی حکومت نے بھی اسے کامیابی سے مزیدگہرا کر دیا ہے۔ بعینہ یہی حال کھاد، چینی اور سیمنٹ کی مہنگائی کا ہے۔
کچھ دن پہلے، میثاق معیشت کی بات ہوئی۔ میں نے رانا صاحب سے اس کے متعلق بھی پوچھا تھا۔ انھوں نے سادگی سے جواب دیا کہ دنیا کی مہنگی ترین بجلی اور گیس خرید کر کون سا ایسا کاروباری ادارہ ہے جو منافع کما سکتا ہے۔ مہنگی توانائی نے کارخانوں کے لیے بجلی اور گیس چوری کرنے کے عمل کو بڑھاوا دیا ہے۔ پھر جس شرح سود پر پاکستانی بینک سرمایہ فراہم کر رہے ہیں، یعنی 23فیصد اور 25فیصد کے درمیان، اس پر کونسا کاروباری قرضہ لے کر کام کر سکتا ہے۔
اتنی بلند شرح سود پرمنافع کمانا ناممکنات میں سے ہے۔ یقین فرمایئے میں میثاق معیشت کو سمجھنے سے مکمل قاصر ہوں۔ یعنی ایک طرف غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے رضا مند نہیں ہے، دوسری طرف حد درجہ بلند شرح سود کاروبار کے لیے دیوار چین کے برابر مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
ایسے میں کون ایسا بزرجمہر ہوگا جو میثاق معیشت کے خوش نما الفاظ کے زیر اثر پاکستان میں سرمایہ کاری کی حماقت کرے گا۔ ذرا بتایئے کہ کوئی سیٹھ پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کس امید پر کرے گا؟ حکومتی سطح پر اس تلخ سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اگر سنجیدہ سوال پوچھ ہی لیں تو آپ کو فوراً کسی سیاسی جماعت کا حامی قرار دے دیا جاتا ہے۔
کوئی یہ نہیں کہتا بلکہ کسی میں یہ کہنے کی جرأت ہی نہیں رہی کہ جناب والا! اشیاء خورونوش کی مہنگائی اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے اسباب کا جائزہ لیں۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک شرائط کا ڈنڈا لے کر ہماری ہر حکومت کے سر پر کھڑا ہوتا ہے۔ آنے والے وقت میں ان کی شرائط مزید سخت ہوں گی۔ جو ملک اپنے ایئرپورٹ، موٹرویز، ریڈیو اسٹیشن اور دیگر املاک گروی رکھ چکا ہو، اس کی کیا حیثیت ہوگی۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اب صرف نعرے اور جذباتیت رہ گئی ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی حکومت سنجیدگی سے پاکستان کو مسائل سے نکالنا نہیں چاہتی۔ اگر کوئی ہے تو بتادیجیے، شاید مجھے معلوم نا ہو؟