کوئی تو راستہ بتائے
مکیش امبانی کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کی مجموعی دولت 117بلین امریکی ڈالر ہے۔ یہ ہمارے ملک کی معیشت کا بیس فیصد کے قریب حصہ شمار ہو سکتا ہے۔ امبانی کے سب سے چھوٹے بیٹے آنندکی دو دن پہلے شادی رادھکا مرچنٹ نامی لڑکی سے ہوئی ہے۔
اس شادی پر مجموعی طور پر 120ملین ڈالر کا خرچہ ہوا ہے۔ 1200امیر ترین مہمانوں کی فہرست بھی حیران کن نظر آتی ہے۔ مہمانوں میں بل گیٹس، مارک زکربرگ، ایو نکا ٹرمپ اور جیرالڈ کشنر شامل تھے۔
دنیا کی سب سے مہنگی امریکی گائیکہ ریحانہ بھی مہمانوں کی فہرست میں شامل تھی۔ دنیا کے ان امیر ترین لوگوں نے ہندوستانی یعنی مقامی لباس پہن رکھا تھا، ایونکا ٹرمپ نے سنہری ساڑھی زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک سو بیس ملین ڈالر کو پاکستانی روپے میں تبدیل کریں تو اس کی مالیت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
جس تقریب میں دنیا کے طاقتور اور امیر ترین مہمان شامل ہوں وہ بہر حال اخبارات اور الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی شاہ سرخی بن جاتی ہے۔ جن مختصر سے مہمانوں کے نام آپ کے سامنے رکھے ہیں، یہ مجموعی طور پر دنیاکی ایک چوتھائی دولت کے مالک ہیں اور یہ تمام لوگ ایک ہندوستانی تاجر کی نجی تقریب میں شریک ہوئے ہیں۔
بہر حال مجھے اس شاہانہ تقریب سے کیا لینا دینا۔ مگر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہندوستان میں دنیا کے تمام سرمایہ دار اور رئیس لوگ فخریہ آتے جاتے رہتے ہیں۔
امریکا، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، یواے ای اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے حکمران ہندوستان کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب کے کراون پرنس محمد بن سلمان ہندوستان میں ایک سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے میں مصروف ہے۔ یہی حال متحدہ عرب امارات کی شاہی فیملی کا ہے۔ وہ بھی ایک سو سے ڈیڑھ سو بلین ڈالر ہندو ستان میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ دنیا کا کوئی معتبر لیڈر ہمارے ملک میں آنے کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہے۔ اپنے ملک سے شدید محبت ہے۔ میرے پاس ہر طرح کے مواقع موجود ہیں کہ کسی بھی مغربی ملک میں ہر درجہ آسانی سے منتقل ہوسکتا ہوں۔ مگر اپنے ملک کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اس مٹی کے عشق نے یہ فکر عطا کی ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کو بغیر کسی تعصب کے دیکھ پاؤں۔ پوری دنیا میں حکومتیں اپنے شہریوں کی زندگیاں بہتری کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں پورا ریاستی ڈھانچہ ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے، ایک مقبول سیاسی پارٹی کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے نتائج مضر ہو سکتے ہیں۔
ہمارے سرکاری ادارے حکمرانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں جو ہمارے ملک کے لیے پوری دنیا میں باعث بدنامی ہیں۔ اگر کوئی نادان آج یہ کہتا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مداخلت نہیں کرتے، اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ بین الاقوامی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے ہر حربہ بروئے کار لاتی ہیں اور لا رہی ہیں۔
نظام انصاف سے لے کر افسرشاہی تک تمام ریاستی ادارے اپنا اصل کام کرنے کی اہلیت کھو بیٹھے ہیں۔ سوال کرتا ہوں کہ کیا ہمارے ملک کا نظام انصاف واقعی عام شہری کو انصاف دینے میں کامیاب ہے؟ اس کا جواب ہر خاص و عام بخوبی جانتا ہے۔ صرف ایک سیاسی پارٹی کو دبانا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ عوام کی رائے وہ طاقت ہے جس سے ملک ترقی کی شاہراہ پر بھاگنا شروع ہو جاتا ہے۔
ہمسایہ ملک اس کی ایک بھرپور اور کامیاب مثال ہے۔ مشکل بات یہ ہے کہ ہم عوام کو کسی قسم کی اہمیت دینے کے قابل نہیں سمجھتے۔ آئین جیسی اہم ترین دستاویزکو عملی طور پر ختم کیا جا چکا ہے۔ الیکشن جیسا جمہوری عمل بھی ہمیشہ دھاندلی کے الزامات سے داغدار چلا آرہا ہے۔ الیکشن کمیشن پر پہلے بھی جانبداری کا الزام لگایا جاتا رہا اور اب بھی ایسا ہی منظر نامہ سامنے ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ ایک امیدوار یہ کہے کہ اس کو فارم 45کے حساب سے بتا دیا گیا کہ تم جیت گئے ب ہو۔ مگر اگلے دن فارم 47کے مطابق وہ ہار گیا ہے۔
میں جس محفل میں گیا، شرکاء یہی کہتے رہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور چند علاقائی جماعتوں کے جید رہنماؤں کو ووٹرز نے رد کر دیا تھا، بڑے بڑے لیڈر اپنے آبائی حلقوں سے شکست خوردہ تھے لیکن فارم سینتالیس میں انھیں فتح یاب قرار دیا گیا۔ اگر یہ سچ اور حقائق ہیں تو پھر ووٹ کی اس سے زیادہ تذلیل نہیں ہوسکتی۔
میں کسی مخصوص سیاسی پارٹی کا نمایندہ نہیں ہوں مگر دلیل پر بات کرنا تحریر کا لازم جزو گردانتا ہوں۔ لوگوں کے اندر غصہ، نفرت اور محرومی انتہا پر پہنچ چکی ہے، مقتدرہ کو تھوڑا سا اندازہ تو ہے مگر پورا احساس نہیں ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب لوگوں کی نظر میں کوئی بھی قابل تکریم نہیں رہا اور یہ حد درجہ تشویش ناک بات ہے۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنے سطحی پن کی وجہ سے اپنی اثر پذیری کھو رہے ہیں۔ کرنٹ افیئر پروگرامز کا مواد سطحی نوعیت کا ہے، وہ اینکرز جن کے پروگرامز کا لوگ انتظار کیا کرتے تھے، وہ اپنی قدر اور اہمیت کھو رہے ہیں، ان کی سوچ و فکر نئی علمی و نظریاتی تبدیلیوں کا ادراک نہیں کر پا رہے ہیں، مگر اس کے برعکس سوشل میڈیا ایسی طاقت بن کر ابھرا ہے جو دیگر تمام ذرایع ابلاغ کو نگل چکا ہے۔
سوشل میڈیا عصر حاضر کا وہ جن ہے جس کی طاقت کے سامنے کوئی ادارہ اور کوئی حکومت کھڑی نہیں ہو سکتی۔ تحریک انصاف سے وابستہ دماغوں نے سوشل میڈیا کی اہمیت وافادیت کو بہت پہلے پہچانا، اس پر محنت کی اوراس جدید ہتھیار کو سیاست میں ایسی مہارت اور ذہانت سے استعمال کیا ہے کہ اس کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی دشمن پہلے حیران ہوئے، پھر پریشان ہوئے اور اب خوفزدہ ہوکر دانتوں میں انگلیاں دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیراعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ان کی جماعت الیکشن نہیں جیتی۔ تہتر سال کی سیاسی زندگی میں اس بدقسمت ملک میں ہمیشہ فارم 47ہی جیتتا رہا ہے۔
سیاسی راستے بند ہورہے ہیں۔ کسی شخص، جماعت یا ادارے کے پاس ملک کے حالات بہتر کرنے کا کوئی فارمولہ نہیں ہے، مجھے کوئی خاص منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آ رہی۔ ابھی نئی حکومت آئی نہیں ہے مگر پاکستانی کرنسی کی قدر تیزی سے کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔
بین الاقوامی سرمایہ کار پہلے ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں، امیر آدمی پاکستان سے اپنے سرمائے سمیت مجبوراً بھاگ رہا ہے، جو رہ گئے ہیں، وہ جانے کی تیاری میں ہیں۔ یعنی اب اس ملک میں صرف وہ بے دست وپا لوگ رہ گئے ہیں جو اس ملک سے باہر جانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
ہمسایہ ملک میں ایک نجی شادی میں دنیا کے تمام طاقتور ترین لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں، ہمارے ملک میں کوئی پاؤں رکھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ناامیدی گناہ ہے مگر اب اس قوم کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ بھی تو نہیں رہا۔ اگر ہے تو ضرور بتایا جائے؟ شاید قوم کا بھلا ہو جائے۔