عزت برائے فروخت
ملتان سے ایک دیرینہ دوست پچھلے ہفتے تشریف لائے۔ متمول تاجر ہیں اور بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔ شخصیت کا سب سے سنجیدہ پہلو یہ ہے کہ حد درجہ مذہبی ہیں۔ ان سے تعلق تقریباً 40 سال سے ہے۔ جب بھی لاہور آنا ہوتا ہے۔ تو ملاقات ضرور ہوتی ہے۔ اس بار میں نے محسوس کیا کہ وہ کسی خیال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی گہری سوچ میں ہیں۔
پندرہ بیس منٹ بعد ان سے پوچھا، خیریت ہے، آپ ذہنی طور پر کسی مشکل کا شکار تو نہیں۔ خاموش رہے اور آرام سے کافی پینا شروع کر دی۔ تین چار منٹ کے توقف کے بعد کہنے لگے، ڈاکٹر صاحب! ایک انتہائی تکلیف دہ واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ ایک ایسا سچ جو مجھے اندر سے کالے ناگ کی طرح بار بار ڈس رہا ہے۔ میں یہ سمجھا کہ شاید کوئی کاروباری مشکل ہے۔ کیونکہ بہر حال پاکستان میں کاروبار کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ پوچھنے پر بتانے لگے کہ کوئی کاروباری یا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ پھر کیا بات ہے؟ میرے سوال پر خاموش رہے۔ تھوڑی دیر بعد کہنے لگے کہ بتاتا ہوں لیکن اپنی ہمت جمع کرنا چاہتا ہوں۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ پچھلے ہفتے اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسٹاف نے اطلاع دی کہ ایک خاتون آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ تھوڑا سا حیران ہوا کیونکہ میرے دن کے شیڈول میں آج کوئی بھی کاروباری ملاقات نہیں تھی۔ فیکٹری میں کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا۔ اسٹاف سے دوبارہ پوچھا کہ کیا کارخانے کی کوئی ملازمہ ہے۔ اسٹاف نے نفی میں جواب دیا۔ خیر میں نے اس خاتون کو دفتر میں بلوا لیا۔ خاتون کی عمر تقریباً تیس پنتیس سال کے قریب ہوگی اور انتہائی سادہ سا لباس پہنا ہوا تھا۔ پوچھا، بیٹا بتائیے آپ نے آنے کی تکلیف کیسے کی، میں آپ کو پہچان نہیں پایا۔ اس بچی نے کہا کہ میں آپ کے مرحوم دوست کی بہو ہوں۔ میرے سسر آپ کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔
یاد آ گیا، میرے مرحوم دوست ایک سرکاری محکمے میں درمیانے درجے کے ملازم تھے۔ حد درجہ ایمان دار اور باکردار شخص تھے۔ ان کا نوکری کے دوران ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ بیٹا! میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ اس خاتون کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔ میں بہت پریشان ہوگیا کہ خدا خیر کرے، پتہ نہیں کیا معاملہ ہے۔ اس خاتون کو کہا آپ میری بیٹیوں کی طرح ہیں، کھل کر بتائیں کیا مسئلہ ہے۔ لڑکی نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا کہ میرا خاوند تقریباً نوے ہزار روپے ماہانہ پر ایک پرائیویٹ ملازمت کرتا ہے۔ ہمارے دو بچے ہیں جو ایک نجی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پہلے تنگی ترشی میں گزراوقات ہو جاتی تھی۔ مگر تین چار مہینے سے ہمت جواب دے چکی ہے۔
ہمارے گھر میں کوئی اے سی نہیں ہے۔ تین پنکھے، چھوٹا سا فریج اور ایک ایئر کولر ہے جو ہم دن میں چار گھنٹے سے زیادہ نہیں چلاتے۔ گزشتہ تین چار مہینے سے بجلی کا بل پنتیس سے پچاس ہزار روپے تک آنا شروع ہو چکا ہے۔ پہلے ماہ تو جیسے تیسے ادائیگی کر دی۔ مگر دوسرے مہینے کا بل تقریباً پچاس ہزار تھا۔ میرے شوہر نے کچھ قرض لیا اور بل ادا کیا۔ اب گزشتہ دو مہینے سے متواتر چالیس سے پچاس ہزار کے درمیان بل موصول ہو رہا ہے اور ہم لوگ اسے ادا نہیں کر سکے۔ بل کی قسطیں کرانے کے لیے گئی تو وہاں رش اور ملازمین کی الٹی سیدھی باتوں سے گھبرا کر قسطیں کرائے بغیر گھر واپس آگئی۔ قرض لینے کی کوشش کی تو وہ بھی انکار ہوگیا۔ اب دو مہینے سے بجلی کا بل نہیں دے پائے۔ تین دن پہلے بجلی کاٹ دی گئی۔
میرے بچے ملتان کی شدید گرمی میں رات کو سو نہیں سکتے اور روتے رہتے ہیں۔ شوہر اس صورت حال سے اتنے پریشان ہوئے ہیں کہ بیمار پڑ گئے ہیں۔ اب سارا بوجھ میرے کندھوں پر آن پڑا ہے۔ یہ واقعہ سن کر میرا دل پگھلنا شروع ہوگیا مگر اس واقعے کا اگلا رخ حد درجے تکلیف دہ ہے۔ خاتون نے روتے ہوئے کہا کہ اپنا زیور بیچ چکی ہوں۔ اب بیچنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے لیکن اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھنے اور یوٹیلٹی بلز ادا کرنے کے لیے اپنا وجود تک فروخت کر دوں گی۔ آپ ایک امیر آدمی ہیں، مجھے ماہانہ اخراجات کے لیے مناسب رقم فراہم کر دیا کریں، آگے آپ خود سمجھدار ہیں، بس میری اس مجبوری کا ذکر کسی اور سے نہ کیجیے گا۔ کیونکہ میرا تعلق ایک عزت دار گھرانے سے ہے۔
وہ خاتون جو میری بیٹی کی عمر کی تھی، اس کے بعد خاموش ہوگئی اور جاتے ہوئے کہہ گئی، میں آپ کے فون کا انتظار کروں گی۔ اس کے بعد میں اتنے دکھ اورکرب کا شکار ہوگیاکہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اے خدا! اس ملک میں مٹھی بھر سرمایہ داروں، خاکی اور سول بیوروکریٹس، جاگیرداروں، سیاسی علماء، گدی نشین، قبائلی سردار اور نظام عدل کے پاسداران کا نیکسز پاکستان کے وسائل کو اس طرح لوٹ چکے ہیں کہ اب ہماری عزت دار بچیاں، اپنے بچوں کے تعلیمی اور گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ کچھ کرنے پرمجبور ہو چکی ہیں، جس کا ذکر کرنا کم ازکم میرے لیے تو ممکن نہیں ہے۔ اگر قائد اعظم محمد علی جناح کو اندازہ ہوتا کہ پاکستان میں مسلمان ساہو کار، ہندو سیٹھ سے زیادہ لالچی اور ظالم ہوگا اور مسلمان افسر، انگریز افسر سے زیادہ مغرور اور سفاک ہوگا تو شاید وہ مطالبہ پاکستان پر نظر ثانی کرتے۔
میں بات اپنے دوست کی کر رہا تھا، میرے دوست نے مزید بتایا کہ میں جو کر سکتا تھا، میں نے فی سبیل اللہ اس بچی کے لیے کردیا۔ مگر یہ واقعہ مجھے کھا چکا ہے۔ سوچتا ہوں کہ پاکستان کے چند سیٹھوں کا زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا لالچ اور بے انصاف ریاستی و حکومت نظام کتنا ظالم، بے حس اور سفاک ہوگیا ہے کہ اچھے گھروں کی بچیاں اور بچے غیراخلاقی کام کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ یہ واقعہ سنا کر میرا دوست تو اٹھ کر چلا گیا۔ لیکن میرے دل پر ایک بوجھ چھوڑ گیا ہے۔ پہلے سوچا کہ اشیاء ضروریہ اور بجلی کی مہنگائی کے متعلق کچھ بھی نہ لکھوں۔ اس واقعہ کی کڑواہٹ اور زہر خاموشی سے پی جاؤں۔ مگر پھر ایک لکھاری کی حیثیت سے ذہن میں آیا کہ یہ ایک خاتون کی کہانی نہیں ہے، شاید پورے ملک میں ایسا ہی ہورہا ہے لہٰذا ان کے متعلق نہ لکھنا قلمی بدیانتی ہوتی۔ میں نے اس واقعہ میں تمام کردار اور جگہیں تبدیل کر دی ہیں۔
جس معاشرے میں حکومتیں اس قدر ظالم ہو جائیں کہ وہاں کے بعض گھرانوں کی بہو بیٹیاں گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے گمراہی کے راستے پر چلنے پر مجبور ہو جائیں تو پھر اللہ کا عذاب مزید کیا ہوگا۔ کم از کم میرے پاس تو اس پیچیدہ سوال کا کوئی ایسا حل موجود نہیں ہے۔ مجھے سارے سیاسی و غیر سیاسی حکمران تقریباً ایک جیسے لگتے ہیں۔ صرف بیانات اور لہجہ مختلف ہے۔
پاکستان کے عام شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا کسی حکمران کا ایجنڈا نہیں رہا۔ بالآخر حل کیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے وزیراعظم سے زیادہ پنجاب کی وزیراعلیٰ سے ہمدردی کی توقع ہے۔ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ مریم نواز، تین بار وزیراعظم رہنے والے سیاستدان اورایشیا کے امیر ترین کاروباری خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ خدا نے انھیں مسند اقتدار پر فائز کیا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ برصغیر پاک وہند میں نواز شریف اور ان کے خاندان سے زیادہ حکومت کرنے کا موقع سوائے نہرو خاندان کے کسی اور کو نہیں ملا، تو یہ بات بے جا نہیں ہوگی۔ جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں وہ ایک درد دل رکھنے والا انسان ہے۔ مگر یہ بات میں وزیراعظم شہباز شریف کے بارے میں عرض نہیں کر سکتا۔ مریم نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے وہ موقع دیا ہے کہ ان کے ایک فیصلے سے پنجاب ہی نہیں پاکستانی لوگوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔ وہ لوگوں کے لیے آسانیاں در آسانیاں پیدا کر سکتی ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ ان کے خلاف سازشوں کا جال بنا جا رہا ہے۔ مگر خدا کی مخلوق کے لیے آسانیاں پیدا کرنے سے کروڑوں لوگ ان کے لیے دعا گو ہوں گے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اپنی حیثیت میں بہت اہم فیصلے کر سکتے ہیں۔ مشورہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب بہترین قانون دان اکٹھے کریں، آئی پی پیز معاہدے ان کے سامنے رکھیں۔ وہ جائزہ لیں کہ کیا صوبے اٹھارہویں ترمیم کے تحت ان معاہدوں پر نظرثانی کا اختیار رکھتے ہیں؟ اگر رکھتے ہیں تو ان سے جائز ترامیم کا مسودہ تیار کرائیں اور اسے پنجاب اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کردیں۔
اگر حکومت چاہے تو یہ کام چند ہفتوں میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد بجلی کے نرخ ایک چوتھائی تک کم ہو سکتے ہیں۔ اگر صوبوں کے پاس ان معاہدوں پر نظرثانی کا اختیار نہیں تو پھر وفاقی حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ حکومت کچھ نہ کر پائے تو مجھے ڈر ہے کہ ہمارے ملک کے متعدد عزت دار گھرانے مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر غلط راستے کا انتخاب نہ کرلیں اور خاکم بدہن کہیں عزت برائے فروخت کا دھندا اس ملک اور ہمارے معاشرے کی بدنامی کا باعث نہ بن جائے!