گلاسکو اور ڈاکٹر مجید چوہدری
میرے سامنے Royal College of Physicians and surgeons of Glasgow کے صدر کا خط پڑا ہوا ہے۔ اس حد درجے محترم ادارے کے سربراہ کا نام Michael J Mckirdy ہے جو سرجری کے پرخار اور مشکل راستے کا مستند نام ہے۔ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اس مکتوب میں کیا لکھا ہوا ہے۔ دراصل مائیکل میکرڈی نے پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید چوہدری کو مودبانہ التجا کی ہے کہ وہ گلاسکو کی اس عظیم درس گاہ میں تشریف لائیں کیونکہ ادارے نے انھیں اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی درج ہے کہ یہ فیصلہ مجید چوہدری کی سرجری کے میدان میں حد درجہ اعلیٰ کارکردگی اور کینسر کے مریضوں کی مفت تشخیص کے اعزاز میں دیا جائے گا۔ مکتوب 24جولائی 2024 کو مجید چوہدری صاحب کو لکھا گیا۔ میری دانست میں یہ بلند و بالا اعزاز بین الاقوامی سطح کا ہے اور کسی بھی ڈاکٹر کو عطا کیا جانا بہت بڑا اعزاز ہے۔ گزارش کروں گا کہ یہ ہمارے ملک کے ذہین اور بے لوث افراد کے لیے بھی ایک تمغہ ہے جس پر پورے ملک کو فخر کرنا چاہیے۔
میں اس طرح کے تمغوں کی بات نہیں کر رہا جو ہماری حکومت نے چند ایسے افراد کو دیے ہیں جو ناروے اور اپنے ملک میں مالی فراڈ میں ملوث ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی سطح کا وہ تمغہ ہے جسے حاصل کرنا ہر ایک کے خواب میں تو ہو سکتا ہے مگر مجید چوہدری صاحب نے اپنی محنت اور پیشہ ورانہ دیانتداری کی بدولت اس خواب کو ممکن بنایا۔
جب 1978 میں کنگ ایڈورڈ کالج میں داخلہ ملا تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ کتنی قابل قدر درس گاہ میں داخل ہو رہا ہوں۔ اس زمانے میں پرنسپل، ڈاکٹر سیال صاحب تھے جو گائنی کے شعبے میں حرف آخر گنے جاتے تھے۔ پچھلی صدی کی بات کر رہا ہوں۔ اس شخص کی قابلیت کا اندازہ لگایئے کہ شہنشاہ ایران کے بچوں کی ولادت، ڈاکٹر سیال کی نگرانی میں ہوئی۔ رضا شاہ پہلوی بادشاہ تھا اور اس کے پاس روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ وہ اپنے بچوں کی پیدائش کے لیے، دنیا بھر سے ہر طرح کے ڈاکٹر بلوا سکتا تھا۔ مگر ڈاکٹر سیال جیسا قد آور ڈاکٹر، اس وقت پوری دنیا میں موجود نہیں تھا۔ شاہ ایران، انھیں تہران بلانے کے لیے اپنا خصوصی طیارہ بھجوایا کرتا تھا۔
اندازہ کیجیے کہ پاکستان کے ڈاکٹر اس سطح کے تھے کہ پوری دنیا میں ان کی قابلیت کا ڈنکا بجتا تھا۔ بات صرف ایک ڈاکٹر پر ختم نہیں ہوتی۔ پروفیسر ایچ ایچ مرزا، ڈاکٹر اختر، سرجن گردیزی، سرجن رشیداور ڈاکٹر علی قلی خان جیسے نمایاں ستارے میو اسپتال میں حد درجے محدود وسائل کے ساتھ لوگوں کی خدمت کر رہے تھے۔ کئی اساتذہ کے نام فراموش کر چکا ہوں اور اس گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔ ایم بی بی ایس کے پہلے دو سال اناٹامی کی پروفیسر طقیہ اور فیزیالوجی کی شفیق پروفیسر کے زیر سایہ گزرا۔ یہ دونوں خواتین اپنے مضامین میں یکتا تھیں۔ تیسرے سال میں جب وارڈ شروع ہوئے یعنی طالب علموں کو مریضوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں کیا گیا۔ تو ایک چھبیلہ نو جوان جو حالیہ لندن سے پڑھ کر آیا تھا۔
سرجری کے میدان کی روح رواں نظر آیا۔ اس نوجوان کا نام ڈاکٹر مجید چوہدری تھا۔ اس وقت وہ اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ لیکن اپنے کئی شاگردوں سے بھی کم عمر نظر آتے تھے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ چوہدری صاحب حد درجے محنت سے میڈیکل اسٹوڈنٹ کو سرجری کی باریکیاں سمجھاتے تھے۔ عجیب زمانہ تھا پروفیسر ڈاکٹرز، پرائیویٹ پریکٹس کو اہمیت دینے کے بجائے میو ہاسپٹل کے عام مریضوں کو توجہ سے دیکھنا افضل سمجھتے تھے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ اس زمانے کے نامور ترین ڈاکٹرز، صبح اور شام یعنی دو وقت، اپنے وارڈ کے ہر مریض کو دیکھتے تھے۔ اگر مریض کی تھوڑی سی حالت بگڑ جائے تو پروفیسر ڈاکٹر صاحبان، ہاؤس آفیسرز کو اس بری طرح لتاڑتے تھے، جونیئر ڈاکٹر پوری پوری رات جاگ کر مریض کی دیکھ بھال میں جڑے رہتے تھے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان عظیم ڈاکٹروں نے نجی پریکٹس یا دولت کا انبار اکٹھا کرنے کے بجائے، انسانیت کے غریب ترین لوگوں کی مدد کرنا اپنا شعاربنائے رکھا۔ آپ ششد ر رہ جائیں گے کہ پروفیسر ڈاکٹر عیص محمد نجی پریکٹس کرتے ہی نہیں تھے۔ صبح وارڈ کے مریضوں کو گھنٹوں دیکھنے کے بعد وہ شام کو طالب علموں کو دوبارہ بلا کر پڑھانا شروع کر دیتے تھے۔ میری ان سے ملاقات بہاولپور میڈیکل کالج میں بھی ہوئی۔ جہاں میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ ڈاکٹر عیص محمد کے غریب لوگوں کو مفت دیکھنے کے اطوار بالکل اسی طرح موجود تھے جو میں نے ان کی جوانی میں ملاحظہ کیے تھے۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں جس قدر شاندار اساتذہ سے پڑھا اور سیکھا، وہ بیان سے باہر ہے۔ ہمارے کالج کا انتظامی دفتر پٹیالہ بلاک تھا۔ یہ انتہائی خوبصورت عمارت ریاست پٹیالہ کے شاہی خاندان کے سرمائے سے تعمیر ہوئی تھی۔ پرنسپل صاحب کا آفس بھی اسی دیدہ زیب بلڈنگ میں تھا۔ قدیم ترین لکڑی کی بل کھاتی ہوئی سیڑھیوں سے اوپر جا کر دائیں ہاتھ پر پرنسپل صاحب کا پرشکوہ آفس تھا۔ کسی طالب علم کی ہمت تک نہیں تھی کہ وہ پرنسپل کے دفتر کے سامنے سے گزر سکے۔ پٹیالہ بلاک آج بھی اسی شان و شوکت سے موجود ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ ایک تعمیراتی شہکار ہے تو بات نامناسب نہیں ہوگی۔ ویسے عجیب بات ہے کہ اتنا خوبصورت دفتر، کسی بھی وزیراعلیٰ کی نظر سے کیسے بچ گیا۔ کیونکہ ہمارے وزرائے اعلیٰ تو اچھے دفاتر پر زبردستی قبضہ کرنے کے ماہر گردانے جاتے ہیں۔
اس کی ایک مثال نوے شاہراہ قائداعظم ہے جو دراصل فری میسن ہال کی عمارت ہے۔ اس کے اندر لاہور میں موجود یہودیوں کی عبادت گاہ ہواکرتی تھی۔ یہ بلڈنگ اپنی آب و تاب کے ساتھ آج بھی انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ مگر ہماری ویژن ملاحظہ فرمائیے کہ ملک کے ایک انتظامی سربراہ نے ناصرف اسے دفتر بنا کر، اس کا بھرپور مذاق اڑایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ پرشکوہ عمارت، ایک عجائب گھر بنا دی جاتی جو ملکی اور غیر ملکی لوگوں کے لیے توجہ کا باعث بنتی۔ مگر جس ملک میں ہر حکومت، اپنے آپ کو حرف آخر سمجھتی ہے، بالکل اسی طرح اس نایاب تحفے کو بحق سرکار ضبط کر لیا گیا۔ کئی دہائیوں سے اب یہ وزیراعلیٰ کا جزوی دفتر ہے۔
بات کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور اس کے انتظامی دفتر کی ہو رہی تھی۔ لہٰذا میں اپنے اصل مضموں پر ہی رہتا ہوں۔ پاکستان کے سب سے بڑے اسپتال میں ستر اور اسی کی دہائی میں تمام مریضوں کو مفت دوائی مہیا کی جاتی تھی۔ انگریزوں کے زمانے کا ایک بہت بڑا کچن تھا جس میں مریضوں کے لیے صاف ستھرا کھانا بنتا رہتا تھا اور باقاعدگی سے مریضوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ میو اسپتال کے اندر ایک نجی اسپتال بھی تھا جس کا نام ایلبرٹ وکٹر ہاسپٹل تھا۔ جو اے وی ایچ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
بھلا زمانہ تھا۔ پرائیویٹ اسپتالوں کے لالچ اور گھمنڈ سے ہزاروں نوری سال دور اے وی ایچ لاہور کا بہترین نجی اسپتال گردانا جاتا تھا۔ صوبے کا گورنر تک اگر بیمار پڑتا تو وہ بھی اسی اسپتال میں ایڈمیٹ ہوتا۔ طالب علم نے گورنر جیلانی کو، میو اسپتال میں زیر علاج بذات خود دیکھا ہے۔ گورنر صاحب کا کمرہ بھی بالکل اسی طرح کا تھا جس طرح دوسرے نجی مریضوں کے لیے مختص تھا۔ کئی بار گورنر صاحب کو ویل چیئر پر کمرے سے باہر آتے جاتے دیکھا تھا۔ مارشل لاء کے گورنر کی بات کر رہا ہوں۔ جو ہر طرح کے اختیارات سے لیس تھا مگر وہ پاکستان اور میو اسپتال میں اپنا علاج کرانا اعزاز کی بات سمجھتا تھا۔ غور فرمائیے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
واحد وجہ اس عظیم اسپتال کے وہ عظیم ڈاکٹر تھے۔ یقین فرمائیے ان ڈاکٹرو ں میں کسی قسم کا کوئی احساس کمتری نہیں تھا۔ لیکن ان بھلے مانس لوگوں کے دو روپ تھے۔ مریضوں کے ساتھ حد درجہ شفیق اور طلبہ کے ساتھ حد درجے سخت۔ شاید ان فرشتہ نما اساتذہ کی سختی کی وجہ سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹر پوری دنیا میں کامیاب ترین سمجھے جاتے ہیں اور امریکا تک میں آج بھی یہ لوگ اپنالوہا، اپنی قابلیت کی وجہ سے منوا رہے ہیں۔
چھوٹے سے کالم میں اتنے بڑے موضوع کو ضبط تحریر میں لانا میرے لیے ناممکن ہے۔ یادوں کا ایک سیلاب ہے جس میں سے صرف ایک بوند آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ بہت عرصے سے میو اسپتال جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ معلوم نہیں آج کل کیا حالات ہیں۔ مگر یہ تو دور ابتلاء ہے جس میں پاکستان کا ہر ادارہ زوال پذیر ہے۔ موجودہ حالات سے تو لا علم ہوں۔ شاید وہاں کا کوئی طالب علم یا پروفیسر موجودہ حالات پر مجھ سے بہتر روشنی ڈال سکے۔ مگر آپ ہمارے پرانے اساتذہ کی علمی قوت کا اندازہ تو لگائیں کہ گلاسکو کا ایک محترم ادارہ آج میو ہاسپٹل کے ایک عظیم فرزند، ڈاکٹر مجید اے چوہدری کو اعزاز سے نوازنے پر مجبور ہے!