ڈوبتے ہوئے مظلوم انسان
مرزا جہاندار شاہ، اورنگزیب عالمگیر کا پوتا تھا۔ مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ دربار سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا گڑھ بن چکا تھا۔ دہلی کی سلطنت، اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ پورے ہندوستان میں ریاستیں اپنی آزادی کا اعلان کر رہی تھیں۔ شاہی فوج میں بد دلی پھیل چکی تھی۔ اس ابتری کی حالت میں، امیر الامراء، ذوالفقار خان نے طاقت کے زور پر جہاندارشاہ کو دہلی کے شاہی تخت پر بٹھا دیا۔ المیہ یہ تھا، کہ جہاندار شاہ شمشیر اور سازش کے زور پر زبردستی تخت نشین تو ہوگیا لیکن اسے حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور وہ حد درجہ نکما انسان تھا۔
جہاندار شاہ شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا۔ دربار کے اندر بھی اسی حالت میں موجود رہتا تھا۔ اس میں وہ تمام برائیاں موجود تھیں، جو کسی بھی اچھے حکمران میں ہرگز ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ درباریوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔ سرکاری عمال، رعایا سے ٹیکس وصول کرتے ہوئے، شرافت کی ہر دہلیز پار کر جاتے تھے۔ اذیت پہنچا کر پیسے اکٹھے کرتے تھے اور پھر اپنا حصہ وصول کرکے، باقی رقم خزانے میں جمع کرا دیتے تھے۔
بادشاہ شاہی خزانہ رعایا کی فلاح پر خرچ کرنے کے بجائے، طوائفوں، ڈومنیوں اور رذیل لوگوں پر صرف کرتا تھا۔ اس میں ایک حد درجہ خوبصورت کنیز لعل کنور بھی شامل تھی۔ جہاندار اس کنیز پر اس قدر عاشق تھا کہ سالانہ اسے خرچ کے لیے دو کروڑ روپے دیا کرتا تھا۔ اس میں اس خاتون کے کپڑوں کا خرچہ شامل نہیں تھا۔ بادشاہ نے اس کنیز کو "امتیاز محل" کا لقب عنایت کر رکھا تھا۔ جب وہ شاہی محل سے باہر نکلتی تھی، تو پانچ سو مسلح سپاہی، اس کی معیت میں چلتے تھے۔
لعل کنور کا مرتبہ ملکہ جیسا ہی تھا۔ اخلاقی گراوٹ کا عالم یہ تھا کہ بادشاہ اور اس کی یہ کنیز نیم عریاں لباس میں شاہی دربار میں آجاتے تھے۔ شاہی دربار میں سنجیدہ ایشو تو زیربحث آتے ہی نہیں تھے، مسخرے، بھانڈ، سازندے اور گویے اہم ہو چکے تھے۔ اندازہ لگایئے کہ یہ لوگ اتنے بے تکلف تھے کہ دربار میں بادشاہ جہاندار شاہ کا مذاق اڑاتے تھے۔ یہ ہندوستان کی عظیم مغل سلطنت کے وہ ابترایام تھے جو 1857میں ختم ہوئے۔
میرا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ آپ کو ایک نااہل بادشاہ اور اس کی منہ چڑھی کنیز کا قصہ سناؤں۔ لیکن مجھے کافی عرصے سے، پاکستان بھی جہاندار شاہ کا ہندوستان لگ رہا ہے۔ ملک کے حکمرانوں، افسرشاہی، نظام انصاف اور کاروباری اشرافیہ میں شرافت، وضعداری اور متانت کا وہی فقدان معلوم ہو رہا ہے جو مغل سلطنت کے آخری ایام تھے۔ مگر آپ دل تھام کر اصل قصہ ضرور پڑھیے گا۔ ایک شام، عالم بے خودی میں جہاندار شاہ اور امتیاز محل، جھروکے سے محل سے متصل دریا جمنا کی روانی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دور سے ایک بڑی کشتی میں مسافر نظر آئے۔
یہ بالکل عام سی بات تھی کیونکہ دریا کے کناروں پر آباد شہروں، قصبوں اور دیہات کے لوگ کشتیوں ہی میں سفر کرتے تھے۔ نشے کے عالم میں امتیاز محل نے ترنگ میں آ کر بادشاہ کو کہا، کہ بادشاہ حضور! میں نے آج تک لوگوں کو دریا میں ڈوبتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جہاندار شاہ نے کہا، کہ یہ تو معمولی سا کام ہے۔
آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔ اسی وقت شاہی محل سے سپاہی بھجوائے گئے اور دریا میں اس کشتی کو تلاش کیا گیا۔ کشتی کے تمام مظلوم مسافر امتیاز محل کی نظروں کے سامنے زبردستی دریا برد کر دیے گئے۔ یہ المیہ اور ظلم، ایک طوائف کی لذتِ نظارہ کے لیے برپا کیا گیا۔ جہاندار شاہ کے اس حکم سے امتیاز محل حد درجہ خوش ہوئی۔ اس کا شکریہ ادا کرنے کی غرض سے رقص کرنے لگی۔ قصہ کوتاہ یہ کہ جہاندار شاہ نے اپنی نالائقیوں اور سفاکانہ حرکتوں سے ہندوستان جیسی عظیم ریاست کے بخیے ادھیڑ دیے۔ ذوالفقار خان جس نے شہزادہ جہاندارشاہ کو بادشاہ بنایا تھا، اس نے صرف گیارہ ماہ بعد اس ظالم بادشاہ کو قتل کروا ڈالا۔
یہ سب کچھ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے مجھے حد درجہ تکلیف ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ جس سفاکی سے ہمارے عظیم ملک کو برباد کیا گیا ہے، ایسا ہی کچھ جہاندار شاہ اور اس کے جانشین بادشاہوں کے دور میں ہندوستان کے ساتھ کیا گیا تھا، پاکستان میں بھی ہر دور میں جہاندار شاہ اور امتیاز محل جیسے سفاک اور ظالم کردار موجود رہے ہیں۔
جب سلطنت دہلی خرابے اور عالم نزع میں مبتلا تھی، تب ایک طاقتور مدبر بادشاہ کی ضرورت تھی لیکن اس وقت سلطنت موقع پرستوں، خوشامدیوں، رقاصاؤں، بھانڈوں اور خواجہ سراؤں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔ گزشتہ سات دہائیوں پر نظر ڈالتا ہوں، تو ہمارے ملک میں بھی ایسی بہت سی ادنیٰ شخصیات سامنے آ جاتی ہیں۔ جنھوں نے ہمارے سرسبز و شاداب اور شاداں ملک کو عذابوں اور سانحات میں دھکیل دیا۔ خاکسار، کسی سیاسی گروہ کا خوشہ چیں نہیں ہے۔
اس کے لیے ان گنت کرائے کے لکھاری اور نام نہاد دانشور موجود ہیں اور ہر زمانے میں اس قماش کے اہل قلم و علم موجود رہے ہیں۔ آج بھی وہ ماشاء اللہ، اپنے قلم اور علم کی جولانیاں دکھا رہے ہیں۔ مگر عوام کا مقدر کیا ہے؟ انھیں کیوں، جہاندار شاہوں اور امتیاز محلوں جیسے حکمرانوں اور کنیزوں کے حوالے کر دیا گیا۔
عام پاکستانیوں کا قصور کیا ہے؟ اکثر اصحاب غلطی کرتے ہوئے، ایک خاص دور کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کا نقطہ نظر درست ہو۔ مگر بگاڑ تو 14 اگست 1947 سے شروع ہو چکا تھا۔ طالب علم، شخصیت پرستی کا قائل نہیں ہے۔ انسان کا کردار اور عمل، اس کی شخصیت کا اصل آئینہ دار ہے۔ 1947 میں متحدہ پنجاب کے اندر خون کی ندیاں نہیں بلکہ دریا بہا دیے گئے۔ ایک برطانوی فوٹو گرافر نے ان گنت انسانی لاشوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا تو پوری دنیا میں کہرام مچ گیا۔ تاج برطانیہ تک ششدر رہ گیا۔ متحدہ پنجاب کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں جوہڑوں، کھیت کھلیانوں، کنوؤں بلکہ ہر جگہ چودہ لاکھ بے گناہ اور سادہ لوح انسانوں کی لاشیں بے گورو کفن پڑی رہیں۔ ان کی تدفین اور آخری رسومات کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
متحدہ پنجاب کے لاکھوں گھرانے تباہ و برباد ہوگئے، ان میں مسلمانوں اور سکھوں کا سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا، لاکھوں خواتین بیوہ ہوئیں، اغوا ہوئیں، بوڑھے والدین کی آنکھوں کے سامنے جوان اولادیں تہہ و تیغ ہوگئیں، مشرقی اور مغربی پنجاب کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہے جو ڈائرکٹ یا ان ڈائریکٹ تاریخ کے اس عظیم قتل عام سے متاثر نہ ہوا ہو، ان زخموں سے آج بھی خون بہہ رہا ہے مگر دل تھام کرسنیئے۔ 14 اگست 1947 کے ایک یا دو دن بعد، پنجاب کے انگریز گورنر نے لاہور کے گورنر ہاؤس میں اشرافیہ کے لیے رقص و سرود کی محفل کا اہتمام کیا۔ جسے انگریزی اصطلاح میں Ball کہا جاتا ہے۔
اس میں اشرافیہ، اوراہم ریاستی عمال کو مدعو کیا گیا، انگریز صوبے دار کی میزبانی میں جشن آزادی منایا جا رہا تھا۔ یعنی پنجاب میں قیامت برپا تھی لیکن ہمارے اہم لوگ جہاندار شاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جام سے جام ٹکرا رہے تھے اور رقص کرنے میں مصروف تھے۔ اس محفل کے شرکاء کی اخلاقی پستی اور ذہنی فتور کے متعلق کیا عرض کیا جاسکتا ہے؟ صرف بددعا ہی نکلتی ہے۔
یہاں ایک اوردل دہلانے والے رقص کا ذکرکرتا ہوں۔ بلوائیوں کے جتھے بے بس خواتین اور مردوں کو زندہ پکڑ لیتے تو انھیں برہنہ کیا جاتا تھا۔ میدان میں تنورگرم کیا جاتا، اس پر لوہے کا توا رکھ دیا جاتا تھا۔ انسان کے سر کو کاٹ کر جسم پر گرم توا رکھ دیا جاتا تھا جو جسم سے چپک جاتا تھا۔ انسانی دھڑ تڑپتے ہوئے دائیں بائیں بھاگتا تھا۔ دھڑ کو بے حس اور ساکت ہونے میں بیس سے پچیس منٹ لگتے تھے۔ سر کے بغیر، لاشے کو تڑپتے لڑکھتے دیکھ کر بلوائی خواہ وہ سکھ تھے، ہندو تھے یا مسلمان، تالیاں بجاتے اور اپنے اپنے مذہبی نعرے بلند کرتے تھے۔
1947 سے لے کر اب تک کسی حکمران کے دور حکومت کو گہرائی سے پرکھیے۔ ہر ایک نے اس ملک سے اپنی بھرپور قیمت وصول کی ہے۔ اپنی اولاد کے لیے خزانے جمع کیے ہیں اور اس کے بعد، قوم و ملک کے لیے منافقانہ بیان دیتے ہوئے، غائب ہوگیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ فرق صرف ایک ہے کہ سوشل میڈیا، نے حکمران طبقہ کی عیش کوشی کو عام لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔
کوئی بھی عمل اب چھپا نہیں ہے۔ موبائل فون کے کیمرے نے وہ وہ لمحات محفوظ کر رکھے ہیں کہ کوئی شخص بھی اپنے جھوٹ کو چھپا نہیں سکتا۔ جنھیں ہم نازیبا وڈیوز کا نام دیتے ہیں، وہ حد درجہ پارسا نظر آنے والوں مرد اور خواتین کو عریاں کر رہی ہیں۔ اشرافیہ کے خاندانوں کے اخراجات جو سرکار ادا کر رہی ہے، وہاں سے لے کر ان کی ناجائز جائیدادوں کی تمام تفصیل اب سوشل میڈیا سب کے سامنے رکھ رہا ہے۔
اشرافیہ اپنا رویہ بدلنے کے بجائے، ہاتھ دھو کر جدید ٹیکنالوجی پر اپنا غصہ نکال رہی ہے۔ کوئی سوشل میڈیا کو بند کرنے کا حکم صادر فرما رہا ہے۔ تو کوئی، فائر وال کی بات کر رہا ہے۔ سچ تویہ ہے کہ حالیہ بجٹ میں قصر صدارت اور وزیراعظم کی رہائش گاہوں کے لیے پچھلے برسوں سے بھی زیادہ رقم مختص کی گئی ہے۔ یہ دوعملی نہیں ہے، بلکہ پوری قوم کے اجتماعی شعور کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔ مگر یہاں کون پروا کرتا ہے۔ کسی بھی ادارے یا سیاسی فریق کے پاس، پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا کوئی پروگرام نہیں۔
دراصل جہاندار شاہ اور امتیاز محل جیسے شاہی کردار ستر سال سے پاکستان کے سسٹم پر قابض ہیں، وہ ستر برس سے عالم بے خودی میں اطمینان سے حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لوگوں کو مہنگائی کے سیلاب میں دریا برد کیا جا رہا ہے۔ عام شہریوں سے مہنگائی، بے روز گاری، کرپشن کے گرم توے پر رقص بسمل کرایا جا رہا ہے۔ کوئی فریاد سننے والا نہیں، کوئی بھی مسئلے حل کرنے کے لیے آگے آنے والا نہیں، خدا سے پوچھتا ہوں کہ باری تعالیٰ، کس سے فریاد کریں!