دو سانپ اور طوطا
چند ہفتے قبل، ذاتی کام سے ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ ذہن میں آیا کہ صاحب کو فون کرنا چاہیے۔ فون پر بتانے لگے کہ وہ اس وقت دبئی ہی میں ہیں۔ خیر اب یہ ہو نہیں سکتا، کہ ہم دونوں اتفاق سے ایک شہر میں ہوں اور ملاقات نہ ہو۔ کہنے لگے کہ گھر نہ آؤ، کیونکہ جس جگہ ٹھہرے ہو، وہاں سے آنے میں ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔ نزدیک ہی ایک فائیواسٹار ہوٹل ہے، وہاں مل لیتے ہیں۔ میں مقرہ وقت سے پانچ دس منٹ تاخیر سے پہنچا۔ فون کیا، تو بتانے لگے کہ ایک ملازم کو نیچے بھیجتا ہوں۔ اس کے ساتھ میرے پاس آ جانا۔
خیال تھا کہ وہ ہوٹل کی کافی شاپ میں بیٹھے ہونگے۔ مگر انھوں نے تو اس قیمتی ترین ہوٹل میں پانچ چھ کمرے لے رکھے تھے۔ سمجھ نہیں پایا کہ گھر کے ہوتے ہوئے، ہوٹل میں ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چہرے سے سوال پڑھ کر کہنے لگے۔ دبئی میں ہوٹل، ذاتی حفاظت کے اعتبار سے بہترین ہیں۔ میرے لیے، ہوٹل کی انتظامیہ نے حددرجہ سنجیدہ حفاظتی حصار قائم کر رکھے ہیں۔ یہاں دو ڈھائی ہفتے سے قیام پذیر ہوں۔ خیر، صاحب کی اکثر باتیں، سمجھ میں نہ آنے والی ہوتی ہیں۔
ذہن میں سوال ابھرا کہ اتنی سیکیورٹی کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے یہ پوچھ ہی لیا۔ صاحب نے سگار منہ سے نکالا اور بولے، " ڈاکٹر! میں حکومتیں بنواتا اور گراتا ہوں۔ میرے کرم فرما حد درجہ طاقتور لوگ ہیں اسی طرح دشمن بھی تو ہیں۔ دبئی میں ایک خاص سطح سے اوپر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ پوری دنیا کا کالا اور سفید دھن یہاں موجود ہے۔ بیگ میں ڈالر بھر کر بینک میں جمع کرانے لے جاؤ، کوئی آپ سے سوال نہیں کرتا"۔ مگر آپ یورپ چھوڑ کر یہاں کیا کر رہے ہیں؟ صاحب، ڈرائنگ روم سے اٹھے اور ساتھ والے کمرے میں چلے گئے۔ واپسی پر دو چھوٹے چھوٹے ہرے رنگ کے سانپ ہاتھ میں تھے۔
بولے، ان کے کھانے کا وقت ہو چلا ہے۔ لہٰذا انھیں خوراک ملنی چاہیے"۔ گھنٹی بجائی، ایک افریقی ملازم حاضر ہوا، اس کے ہاتھ میں دومرتبان تھے جن میں چوہے تھے، صاحب نے مرتبان میں دونوں سانپ ڈالے۔ انھوں نے تیزی سے ایک ایک چوہا کھا لیا۔ ملازم نے سانپوں کو باہر نکالا، میز پر رکھا، اور مرتبان لے کر واپس چلا گیا۔ یہ ایک حد درجہ کریہہ قسم کا نظارہ تھا۔ دونوں سانپ ٹیبل پر اطمینان سے سو گئے۔
صاحب کہنے لگے۔ "ڈاکٹر! سانپ کا پیٹ بھرجائے تو وہ سو جاتاہے، شکار نہیں کرتا۔ مگر تمہارے ملک کی رولنگ کلاس تو سانپوں سے بھی بہت آگے ہے، ان کا پیٹ بھر جائے، تب زیادہ دولت دولت کرتی ہے، ملک کو کھوکھلا کر چکے ہیں، اب ہڈیاں چبانے کے لیے لنگوٹ کس لیے ہیں، ادھرعوام اتنے سادہ لوح ہیں کہ اب بھی اسی اشرافیہ کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔
یہ سب پروپیگنڈے کا کمال ہے۔ بہر حال مجھے کیا، میرا دھندا تو کمال چل رہاہے"۔ "مگر آپ کا سارا کام تو لندن میں ہے، پھر یہاں کیوں قیام پزیر ہیں"۔ "یوکرین جنگ کا نام سنا ہے، روس اس ملک کو کب کا کھا چکا ہوتا، اگر امریکا اور اس کے اتحادی، جدید ترین اسلحہ اسے نہ فراہم کرتے"۔ " مگر آپ کا روس اور یوکرین کی جنگ سے کیا تعلق، وہ تو امریکا اور یوکرین کی حکومتوں کے درمیان معاملہ ہے"۔
صاحب نے سوال ان سنا سا کر دیا اور دونوں سانپ اٹھائے اور ساتھ والے کمرے میں چلے گئے، خالی ہاتھ واپس آ کر کہنے لگے کہ یہ دنیا صرف اور صرف پیسے کی ہے۔ امریکا مخصوص اسلحہ ڈیلرز کے ذریعے، یوکرین کو ہتھیار پہنچاتا ہے۔ یہ سارا کام انتہائی راز دارانہ طریقے سے ہوتا ہے۔ اسلحہ کے یہ تاجر مختلف حکومتوں سے اسلحہ خریدتے ہیں، امریکا مختلف ذرایع کو استعمال کرکے سرمایہ فراہم کرتا ہے اوراسلحہ ڈیلرز کو ان سودوں میں بھاری کمیشن مل جاتا ہے۔
آج کل میں ایسے ہی اسلحہ کے بین الاقوامی تاجروں کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ اس کاروبار سے ڈالر مجھ پر برس رہے ہیں اور یہ قانونی دولت ہے۔ ویسے پیسے کا قانونی یا غیر قانونی ہونے سے کوئی تعلق نہیں، تم اپنے ملک کی سناؤ۔ وہاں کا کیا حال ہے، سب کچھ ٹھیک ہے ناں، اب میں اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ ملک کی مجموعی صورتحال بہت زیادہ کشیدہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کی رقابتیں اب ذاتی دشمنی سے بھی اوپر جا رہی ہے لیکن صاحب اچانک کہنے لگے " یوکرین جنگ کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بہت کامیاب ثابت ہوئی ہے۔
امریکا، مغربی یورپی ممالک اورخوشحال عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہوگئے ہیں، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک قرضے دے رہے ہیں۔
چھوڑو، یہ خواص کی باتیں ہیں، پتہ نہیں کیوں، میرا ذہن یوکرین جنگ میں پھنسا ہوا ہے، چلو موضوع تبدیل کرتے ہیں، اپنے ملک کے حالات بتاو"۔ ملکی حالات کی بات کیا عرض کروں، بس گزارہ ہو رہاہے۔ ایک سیاسی پارٹی زیر عتاب ہے، کچھ جیل میں ہیں، کچھ مفرور ہیں، کچھ نے نئی پارٹیاں بنالی ہیں اور کچھ سیاست سے ہی تائب ہوگئے ہیں۔ اس پارٹی کو بلے کا انتخابی نشان بھی نہ مل سکا، اس پارٹی کے امیدوار الگ الگ انتخابی نشان کے ساتھ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ صاحب غور سے بات سنتے رہے۔
جواب حیران کن تھا۔ جن معاملات کو تم دگر گوں بتا رہے ہو، وہ تو ٹھیک ہیں۔ سب کچھ قانونی ہے، ماورائے آئین اور قانون تو کچھ نہیں ہورہا۔ صاحب کا جواب کم از کم میرے لیے حیران کن تھا، مجھے لگا، صاحب نے شاید مجھ سے مذاق کیا ہے، صاحب سے جانے کی اجازت مانگی تو انھوں نے ایک بلند قہقہہ لگایا۔ بالکل اسی طرح کا قہقہہ، ساتھ والے کمرے سے بھی بلند ہوا۔ حیران رہ گیا کہ یہ دوسرا قہقہہ کس نے لگایا۔ صاحب سے پوچھا کہ دوسرے کمرے میں کون ہے۔
صاحب نے بڑے آرام سے ایک آواز نکالی۔ تو ملحقہ کمرے سے ایک بڑا افریقی گرے رنگ کا طوطا اڑ کر میز پر آ بیٹھا۔ ڈاکٹر! یہ کارٹر ہے، یہ ہر بات یاد رکھتاہے۔ اگر میں کہوں تو یہ تمہیں اب تک ہونے والی تمام باتیں سنا سکتا ہے۔ اس کی ذہانت اور یاداشت، دونوں مثالی ہیں۔ طوطے نے اب رٹ لگا دی۔ یوکرین جنگ، اسلحہ اور ڈالر۔ صاحب نے جانے کی اجازت نہ دی اور کہا کہ تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ۔
"پاکستان کے حالات بالکل ٹھیک ہیں۔ مگر صرف اور صرف امیر طبقے کے لیے۔ غریب پہلے بھی فارغ تھے اور آج بھی ہیں"۔ میں بولا، "مگر یہ الیکشن کیسے ہوں گے، ایک سیاسی جماعت کو عملاً توڑ دیا گیا ہے۔ کیا یہ زیادتی نہیں ہے؟" صاحب مسکرائے، سگار دانتوں سے کاٹا اور پھر سلگا کر گویا ہوئے۔ " پاکستان جیسے ملکوں میں الیکشن ایسے ہی ہوتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں اگر سیاسی جماعتیں اور قیادت کمزور اور موقع پرست ہوجائیں تو ریاستی ادارے طاقتور ہو جاتے ہیں۔ سیاست دان ان کی چاکری میں ہی کامیابی ڈھونڈتے ہیں، جہاں تک عوام کا تعلق ہے، ان کا نہ کسی سابقہ الیکشن سے کسی قسم کا واسطہ تھا اور نہ آنے والے چناؤ، میں ان کی کوئی حیثیت ہوگی۔
بس چند دن، بلند وبانگ نعرے لگیں گے۔ اس کے بعد، پھر لمبی خاموشی ہوجائے گی۔ یہ الیکشن کا پروسس صرف ایک قانونی تقاضے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ ابھی بتا دیتا ہوں کہ اگلا وزراعظم اور چاروں صوبوں کے وزرااعلیٰ کون ہوں گے۔ صاحب کی بات کا بالکل یقین نہیں آیا۔ اتنی دیر میں گرے طوطا اڑا اور ساتھ والے کمرے میں جا کر بڑی محبت سے سانپ کو پکڑ کرلے کر آیا اور صاحب کے سامنے چھوڑ دیا۔ سانپ میز پر لیٹتے ہی دوبارہ سو گیا۔
ڈاکٹر! تم معاملات کو نہیں سمجھتے۔ صاحب نے مجھے پانچ نام بتائے جوبقول ان کے عام انتخابات کے بعد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنیں گے۔ میں حیران ہوا کیونکہ دونام تو بالکل ہی نئے اور غیر معروف تھے۔ میں بولا، صاحب، آپ کی معلومات غلط ہیں، یہ افراد تو کبھی اتنے اہم عہدو ں پر نہیں آ سکتے؟ صاحب نے مسکرا کر کہا، اہم فیصلے، اہم لوگوں تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ بہر حال ان کے انکشاف پر کم از کم مجھے یقین نہیں آیا۔
صاحب تو یہاں تک کہنے لگے، اگر یقین نہیں تو تمہاری براہ راست بات کرا دیتا ہوں، کوئی مسلہ نہیں۔ میرے انکار پر صاحب کہنے لگے کہ زمینی حقائق کے ساتھ زندگی گزرانا سیکھو۔ آئیڈیلزم کی دنیا میں کوئی گنجائش نہیں۔ اجازت لے کر اٹھنے لگا تو سانپ جاگ گئے اور مجھے غور سے دیکھنے لگے۔ افریقن گرے پیرٹ کہنے لگا۔ پاکستان، پاکستان اور پاکستان۔